Express News:
2025-12-14@09:45:27 GMT

پیچھے کون!

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

ایک مغربی مفکرکا کہنا ہے کہ درخت کی جڑیں نیچے کی طرف اور پھل اوپر کی طرف ہوتا ہے جو ایک خدائی اصول ہے۔ گلاب کا پھول رنگ اور خوشبو کا ایک معیاری مجموعہ ہے جو ایک تنے کے اوپر ظاہر ہوتا ہے مگر اس کا معیار اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ پہلے ایک جڑ نیچے مٹی کے اندر گئی، وہ لوگ جو زمین میں کھیتی کرتے ہیں یا باغ لگاتے ہیں وہ اس اصول کو جانتے ہیں۔ مگر ہم کو پھل حاصل کرنے کی اتنی جلدی اور ایسی دلچسپی ہے کہ ہم جڑ جمانے کی بات آسانی سے بھول جاتے ہیں۔ ہم حقیقت میں ترقی اور خوشحالی حاصل نہیں کرسکتے جب تک ہم مشترک زندگی میں اپنی جڑیں داخل نہ کریں۔

مکمل خوش حالی مشترک زندگی میں جڑیں قائم کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ درخت زمین کے اوپر کھڑا ہوتا ہے مگر وہ زمین کے اندر اپنی جڑیں جماتا ہے، وہ نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا ہے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف۔ درخت گویا قدرت کی جانب سے معلم ہے جو انسان کو یہ سبق دے رہا ہے کہ اس دنیا میں داخلی استحکام کے بغیر خارجی ترقی ممکن نہیں۔

وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں نے داخلی استحکام پر توجہ مرکوز  کرنے کے بجائے خارجی عوامل کو اہم جانا۔ بنیادی چیزوں کو چھوڑ کر عبوری اور سطحی چیزوں کو اپنی ترجیح بنایا۔ آپ کسی بھی شعبہ زندگی پر نظر ڈالیں سب کی جڑیں کمزور اور غیر مستحکم نظر آئیں گی۔

ایسی صورت میں پائیدار اور دائمی ترقی و خوشحالی کیسے ممکن ہے، کھیل سے لے کر سیاست تک معیشت سے لے کر صحافت اور قیادت سے لے کر عدالت تک ہر شعبے میں خامیاں،کمزوریاں، نقائص اور خرابیوں کے انبار لگے ہوئے ہیں، اسی پس منظر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ڈیرہ غازی خان میں ایک کینسر اسپتال اور راجن پور میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے دہشت گردی اور سیاسی انتشار کا خاتمہ ضروری ہے، پاکستان قرضوں کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتا۔ انھوں نے بڑے یقین اور دعوے کے ساتھ کہا ہے کہ’’ اگر محنت کر کے بھارت کو پیچھے نہ چھوڑا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔‘‘

 بلاشبہ ہم سب کی خواہش اور کوشش ہے کہ وطن عزیز ہر شعبہ ہائے زندگی میں شب و روز ترقی کی منازل طے کرے۔ بھارت کو پیچھے چھوڑنے کا دعویٰ اپنی جگہ کہ وہ آبادی و رقبے کے علاوہ سیاست، معیشت اور کھیل میں بھی فی الحال ہم سے آگے ہے جس کی تازہ مثال چیمپئنز ٹرافی کے میچ میں بھارت کے خلاف پاکستان کرکٹ ٹیم کی مایوس کن کارکردگی ہے۔

میچ سے قبل کھلاڑیوں اور آفیشل کی طرف سے بھارت کو شکست دینے کی یقین دہانی کراتے ہوئے قوم کو امید دلائی گئی کہ اس مرتبہ پاکستان نہ صرف اپنے اعزاز کا دفاع کرے گا بلکہ بھارت کو بھی شکست دیں گے خود وزیر اعظم شہباز شریف نے نئے قذافی اسٹیڈیم کے افتتاح کے موقع پر کہا تھا کہ’’ ہم سب اس وقت کا انتظار کریں گے جب قومی ٹیم ہندوستان کو شکست فاش دے گی‘‘ لیکن ہمارے کرکٹ ہیروز نے بھارت کے خلاف ناقص ترین کھیل پیش، کھلاڑیوں نے اپنی ذمے داریوں کا احساس نہ کیا اور قوم کو خوش فہمیوں میں مبتلا کرکے بھارت سے ٹورنامنٹ کا اہم ترین میچ مزاحمت کیے بغیر آسانی سے ہار گئے۔

بھارتی ٹیم نے کھیل کے ہر شعبے میں پاکستان سے بہتر کھیل پیش کیا۔ بھارتی کپتان روہت شرما کا یہ کہنا کہ ہمارے کھلاڑیوں کو اپنی ذمے داریوں کا بخوبی علم ہے، ان کے پروفیشنل ہونے کی دلیل ہے۔ جب کہ ہمارے شعبہ کھیل میں سیاست نے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم پہلے مرحلے میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی۔

ہمیں سیاست اور معیشت میں بھی بھارت کو پیچھے چھوڑنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ بھارت میں آج تک مارشل لا نہیں لگا جب کہ پاکستان تین بار مارشل لا کے جبر برداشت کر چکا ہے۔ بھارت نے ’’ شائننگ انڈیا‘‘ کا نعرہ لگایا اور کرکے دکھایا۔ ہم ایشین ٹائیگر بننے کے بلند و بانگ دعوے کرتے رہے اور ہماری معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبتی چلی گئی۔ اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق غیر ملکی قرضوں کا حجم 70 ہزار 360 ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔

ایسی صورت میں معیشت کیسے سنبھلے گی؟ سیاسی انتشار بھی وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن گرینڈ الائنس اور احتجاج کی طرف جا رہی ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلا اور پیکا ایکٹ کے خلاف صحافی سراپا احتجاج ہیں۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات نے امن و امان کو تہس نہس کر دیا ہے۔ بھارت کو پیچھے چھوڑنے کی وزیر اعظم کی خواہش ان کے عزم کی علامت ہے، لیکن آگے کون ہے اور پیچھے کون ہے، زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بھارت کو پیچھے ہوتا ہے کے خلاف کی طرف

پڑھیں:

رنگین روایات کی دنیا؛ کیلاش سے سائبیریا تک زندہ ثقافتیں

دنیا میں کچھ وادیاں صرف زمین کے ٹکڑے نہیں ہوتیں، وہ روح میں اتر جانے والے احساسات رکھتی ہیں۔ ان کی فضاؤں میں ایک ایسی لطافت گھلی ہوتی ہے جو انسان کو لمحوں میں اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

پاکستان کے شمال میں، چترال کے دل میں بسی کیلاش ویلی بھی ایسی ہی وادیوں میں سے ایک ہے۔ جہاں قدم رکھتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے دریا نے اپنا بہاؤ کچھ دیر کے لیے روک دیا ہے، اور انسان کسی قدیم، معصوم اور غیرمسخ شدہ دنیا میں داخل ہو گیا ہے۔

یہ وادی نہ صرف اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے، بلکہ اس تہذیب کے لیے بھی جس کے رنگ، نغمے اور رسومات آج بھی اپنی اصل حالت میں سانس لے رہی ہیں۔ کیلاشی لوگ ایک ایسی دنیا کی یاد دلاتے ہیں جہاں زندگی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر بہتی تھی، جہاں موسم صرف موسم نہیں بلکہ ایک تہوار تھے، اور جہاں رقص اور موسیقی محض تفریح نہیں بلکہ روحانی زبان تھی۔

کیلاش، ایک زندہ اثر، ایک دل فریب احساس

کیلاش ویلی میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اونچے دیودار کے درخت، لکڑی کے روایتی گھر، چھتوں پر سوکھتے اخروٹ اور ندیوں کا گنگناتا ہوا پانی نظر آتا ہے۔ یہ منظر انسان کو بتاتا ہے کہ یہاں سہولت نہیں، سادگی ہے؛ مصنوعی روشنی نہیں، قدرت کا نور ہے؛ جدید شور نہیں، ہوا کی موسیقی ہے۔

وادی کا ہر پاسہ ایک الگ کہانی کہتا ہے۔ گاؤں کے درمیان سے گزرتے تنگ راستے، پتھروں سے بنے چھوٹے پل، اور پیچھے سے جھانکتی برف پوش چوٹیوں کا منظر، سب مل کر ایسا احساس پیدا کرتے ہیں جیسے انسان کسی داستانوی دنیا میں سانس لے رہا ہو۔

لیکن کیلاش کی اصل پہچان وہ لوگ ہیں جو اس وادی میں بستے ہیں۔ ایک ایسی قوم جو نہ صرف اپنی زبان، لباس اور رسومات کو نسلوں سے محفوظ رکھے ہوئے ہے بلکہ ہر آنے والے تبدیلی کے طوفان کا مقابلہ بھی اپنی تہذیبی خوداعتمادی کے ساتھ کرتی ہے۔

کیلاشی خواتین، چلتے پھرتے رنگوں کے مجسمے

اگر کیلاش کی سڑکوں پر کسی مسافر کی نظر سب سے پہلے کسی چیز پر ٹکتی ہے تو وہ یہاں کی خواتین ہیں۔ ان کا رنگین لباس، سیاہ چادر پر موتیوں اور دھاگوں کی کڑھائی، اور ہاتھ سے تیار کی گئی روایتی ٹوپی، جسے ’سُسٹر‘ کہا جاتا ہے، دیکھنے والے کو محوِ حیرت کر دیتی ہے۔ ان کے چہروں پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ ہوتی ہے۔ ایسی مسکراہٹ جو ان کی آزاد فطرت، مضبوط شناخت اور خوشی کی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔

یہ خواتین صرف لباس کے ذریعے رنگ نہیں بکھیرتیں، بلکہ اپنی گفتگو، نغموں اور طرزِ زندگی سے بھی ایک روشن احساس پھیلاتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاح ان کی سادگی، مہمان نوازی اور خالص انسانیت سے بےحد متاثر ہوتے ہیں۔

کیلاش کے تہوار، زندگی کا جشن

کیلاش میں سال بھر ثقافتی تہواروں کی رونق لگی رہتی ہے۔ یہ تہوار صرف رسومات کا مجموعہ نہیں ہیں، بلکہ زندگی کے ساتھ ان کا ایک جذباتی اور روحانی رشتہ ہے۔

چلم جوشٹ

یہ تہوار موسمِ بہار کے استقبال کا جشن ہے۔ جب پھول کھلنے لگتے ہیں، پہاڑ سبز چادر اوڑھ لیتے ہیں، تو کیلاشی لوگ رقص، موسیقی اور اجتماعی دعا کے ساتھ فطرت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

اوچال

گرمیوں کا تہوار جو فصل کی کٹائی کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ یہ شکرانے کی تقریب ہے جس میں گیت گائے جاتے ہیں اور مقدس مقامات پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔

پوٹھ (چترمس ماس)

یہ سردیوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ اس میں رات بھر آگ کے گرد رقص ہوتے ہیں، قربانیاں دی جاتی ہیں اور لوگ اپنی پرانی روایات کو تازہ کرتے ہیں۔

ان تہواروں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں کسی تفریق کی گنجائش نہیں۔ مرد، عورتیں، بچے، بزرگ سب ایک ہی دائرے میں مل کر رقص کرتے ہیں، ایک ہی زبان میں خوشی مناتے ہیں۔ شاید یہی اجتماعی احساس انہیں دنیا کی زندہ تہذیبوں میں ممتاز بناتا ہے۔

کیلاش اور دنیا کی دیگر زندہ قدیم ثقافتیں

دنیا کے کئی خطوں میں ایسی تہذیبیں آباد ہیں جو آج بھی اپنی روایتی شکل میں قائم ہیں۔ کیلاش ان میں سے ایک ہے، مگر یہ واحد نہیں۔ دنیا کے مختلف خطے جاپان، امریکہ، سائبیریا، جنوبی امریکہ اور افریقہ جیسی قوموں کا مسکن ہیں جو جدید دنیا کی برق رفتار ترقی کے باوجود اپنی شناخت سے جڑی ہوئی ہیں۔

جاپان کے آئینو لوگ

آئینو لوگ ایک منفرد ثقافت کے حامل ہیں۔ ان کی اپنی زبان، لباس، رسمیں اور دیومالائی کہانیاں ہیں۔ کیلاش کی طرح یہ لوگ بھی رقص، موسیقی اور فطرت کے احترام کو اپنی روح کا حصہ سمجھتے ہیں۔ دونوں ثقافتوں میں موسموں کی تبدیلی کو مقدس سمجھا جاتا ہے، اور تہوار فطرت کے ساتھ انسان کی ہم آہنگی کی علامت ہیں۔

نیٹیو امیریکن قبائل

ریڈ انڈینز کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے۔ ان کے پاوٹا ڈانس، ڈرم بیٹس، ڈریم کیچر، اور قبائلی کہانیاں آج بھی زندہ ہیں۔ کیلاش کی طرح یہ لوگ بھی زمین کو ماں کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے اجتماعی رقص اور گیتوں میں بھی وہی روحانی کیفیت پائی جاتی ہے جو کیلاش کے تہواروں میں نظر آتی ہے۔

پیرو کے انڈین قبائل

ایمیزون کے جنگلات اور انڈیز کے پہاڑوں میں بسنے والے قبائل اپنی رنگین روایات کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے تہواروں میں بھی فصل کی خوشی، سورج کی عبادت، اور موسم کے احترام کا جذبہ جھلکتا ہے۔ ان کا لباس، ماحولیاتی عقائد اور رنگوں سے محبت کیلاش سے غیر معمولی حد تک مشابہت رکھتی ہے۔

افریقہ کے ماسائی لوگ

ماسائی قبائل اپنے سرخ لباس، موتیوں والے زیورات اور ’جمپ ڈانس‘ کے لیے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ رقص ان کے لیے صرف جسمانی مشق نہیں بلکہ شناخت، دعا اور طاقت کا استعارہ ہے۔ یہی کیفیت کیلاش میں بھی ملتی ہے—جہاں رقص ایک زبان ہے، ایک عبادت ہے، ایک اجتماعی بندھن ہے۔

سائبیریا کے شمان قبائل

سائبیرین شمان ازل سے روحانیت، ڈھول اور قدرتی طاقتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا طرزِ زندگی سخت موسموں کے باوجود برقرار ہے۔ کیلاش کی طرح وہ بھی اپنی میراث کو زمانے کے دباؤ سے بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ دونوں قومیں بتاتی ہیں کہ اپنی شناخت پر قائم رہنے کا جذبہ پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہو سکتا ہے۔

کیوں زندہ تہذیبیں انسانیت کا سرمایہ ہیں؟

آج کی دنیا میں جن معاشروں نے اپنی روایات کو قربان کر کے جدیدیت کو گلے لگایا ہے، وہ بےشک ترقی یافتہ ہیں مگر اکثر اپنی اصل خوشبو کھو بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف کیلاش، آئینو، ماسائی، نیٹیو امیریکن اور دیگر زندہ ثقافتیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ترقی اور روایت ایک ہی راستے پر ساتھ چل سکتے ہیں۔ اہم بات توازن ہے۔

یہ زندہ تہذیبیں ہمیں بتاتی ہیں کہ:

فطرت محض نظارہ نہیں، ایک تعلق ہے

رقص صرف جسمانی ادا نہیں، دل کی زبان ہے

تہوار صرف رسمیں نہیں، اجتماعی روح ہیں

ثقافت ماضی کی داستان نہیں، حال کی سانس ہے

شناخت چھوڑے بغیر بھی انسان مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے

دنیا کی سب سے بڑی خوبصورتی اس کی تنوع میں ہے، اور زندہ روایتی ثقافتیں اس تنوع کے رنگوں کو زندہ رکھنے والی روشنی ہیں۔

کیلاش ویلی دنیا کے لیے صرف سیاحتی مقام نہیں، بلکہ ایک درسگاہ ہے۔ یہ وادی ہمیں بتاتی ہے کہ خوشی سادگی میں ہے، ہم آہنگی فطرت میں ہے، اور شناخت محبت میں ہے۔ اس وادی کی تہذیب نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک ایسا ثقافتی خزانہ ہے جسے محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

کیلاشی لوگ اپنی زبان، مذہب، رسومات، لباس اور موسیقی کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب ان کی پہچان ہے، اور پہچان چھوڑ دینے والی قومیں کبھی مضبوط نہیں رہتیں۔

کیلاش صرف پہاڑوں کے درمیان چھپی ایک وادی نہیں، بلکہ ایک زندہ احساس ہے۔ ایک ایسا احساس جو انسان کو بتاتا ہے کہ زندگی کی اصل خوبصورتی فطرت، محبت، دعا، جشن اور انسانیت میں ہے۔ یہ وادی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ثقافت وہ چراغ ہے جس کی روشنی نسل در نسل منتقل ہوتی ہے، اور جب تک یہ چراغ جل رہا ہے، انسان اپنے ماضی، حال اور مستقبل سے جڑا رہتا ہے۔

دنیا کے مختلف گوشوں میں بسی ایسی ثقافتیں چاہے آئینو ہوں، ماسائی ہوں، انڈین قبائل ہوں یا نیٹیو امیریکن سب ایک ہی پیغام دیتی ہیں:

انسان اپنی اصل بھولے بغیر بھی ترقی کر سکتا ہے،

اور اپنی روایتوں کو بچا کر بھی دنیا کی دوڑ میں شامل رہ سکتا ہے۔

کیلاش زندہ ہے، اور اس کا زندہ رہنا ہم سب کے لیے امید کی وہ کرن ہے جس سے دنیا کی ثقافتی رنگینی ہمیشہ باقی رہے گی۔

تحریرو تحقیق سیدہ سفینہ ملک

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • ایک عام سی بات
  • آبادی کے لحاظ سے ہم 2030ء میں انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے، مصطفیٰ کمال
  • آبادی کے لحاظ سے ہم 2030ء میں انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے: وزیر صحت مصطفیٰ کمال
  • کہانی لکھنا بچوں کا کھیل نہیں؛ بشریٰ انصاری اور نادیہ خان کے درمیان شو میں گرما گرم بحث
  • ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!
  • مائنس پلس کی سیاست کے بجائے قابلیت کوترجیح دی جائے‘کاشف شیخ
  • کھسیانی بلی، کھمبا نوچے
  • ترقی کا واحد راستہ، محنت اور معاشی استحکام
  • سہیل آفریدی کا سخت ردعمل: ’فیض حمید کی سزا ادارے کا کام—اصل کھیل تو بانی PTI کو مائنس کرنے کا ہے
  • رنگین روایات کی دنیا؛ کیلاش سے سائبیریا تک زندہ ثقافتیں