ٹرمپ کی یکہ تازیاں اور یورپ پر اس کے اثرات
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یورپ کو اب تک یوکرین جنگ کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑا ہے اور وہ اپنی معیشت، سلامتی اور حتی سیاسی عمل اور حکمرانی کو خطرے کا شکار محسوس کر رہا ہے۔ جرمنی، ہالینڈ، برطانیہ اور فرانس جنہوں نے تین سال پہلے یوکرین جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا اب ڈونلڈ ٹرمپ کے برتاو کو امریکہ اور یورپ کے تعلقات میں فیصلہ کن موڑ قرار دے رہے ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ امریکہ کی جانب سے یورپ کے خلاف نئی ٹیکس پالیسی نے درآمدات پر منحصر جرمنی اور یورپ کی معیشت کو ایک نئے دھچکے کا شکار کر دیا ہے۔ یورپ جو نیٹو کے خاتمے کا انتظار کر رہا ہے اب ایک بار پھر یورپی دفاعی اتحاد تشکیل دینے کے بارے میں سوچنے لگا ہے۔ اس کی نظر میں ٹرمپ کی جانب سے یورپ کو نظرانداز کر کے روس سے براہ راست مذاکرات انجام دینے کا مطلب یورپ کو روس سے درپیش خطرات کے مقابلے میں اکیلا چھوڑ دینا ہے۔ تحریر: ہادی محمدی
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اپنی الیکشن کمپین میں یوکرین جنگ جلد از جلد ختم کرنے کا نعرہ لگایا تھا۔ دوسری طرف اس نے بھرپور انداز میں یکطرفہ انداز اپنا رکھا ہے جس کے باعث اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہو رہا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ یوکرین جنگ کا خاتمہ مناسب حالات کا محتاج ہے اور کسی اور وقت انجام پائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوتن کے درمیان ٹیلی فونک مذاکرات انجام پا چکے ہیں جبکہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں بھی روسی اور امریکی حکام کے درمیان چار گھنٹے تک ملاقات اور بات چیت ہوئی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے ان مذاکرات کو دوطرفہ اعتماد بحال کرنے کی کوشش قرار دی ہے۔ دوسری طرف یوکرین کے صدر زیلنسکی اور یورپی یونین نے اس پر فوری ردعمل ظاہر کیا ہے۔
پیرس اجلاس میں یوکرینی صدر اور یورپی حکام نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یوکرین کی حمایت اور روس سے ہر قسم کے مذاکرات میں یورپ کی شرکت پر زور دیا ہے۔ روسی اور امریکی حکام کے درمیان ملاقات یا روسی صدر اور امریکی صدر کے درمیان ٹیلی فونک مذاکرات نے عملی طور پر یوکرین اور یورپ کو پوری طرح نظرانداز کر دیا ہے۔ اس ملاقات میں دوطرفہ دلچسپی کے معاملات اور یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے ضروری مقدمات نیز روسی صدر ولادیمیر پیوتن کی نظر میں ریڈ لائنز پر بات چیت ہوئی ہے۔ روس کی نظر میں یوکرین کے مشرقی علاقے روس میں ضم ہو جانے چاہئیں اور یوکرین پر بھی کسی یونین یا فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار کرنے پر پابندی ہو گی۔ اسی طرح روس نے یہ شرط بھی پیش کی ہے کہ یوکرین میں کسی مغربی ملک کی فوج تعینات نہیں کی جائے گی جبکہ ٹرمپ نے یہ شرطیں قبول کی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں یوکرین جنگ کی موجودہ صورتحال ایسی نہیں جس کے ذریعے اصل مقصد حاصل کیا جا سکتا ہو جو روس کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرنے پر مشتمل ہے۔ ٹرمپ اس بات پر زور دیتا ہے کہ یورپ اپنی جی ڈی پی کا پانچ فیصد حصہ یوکرین کی مدد کے لیے مختص کر دے اور یہ مدد مغربی فوجی اتحاد نیٹو کے ذریعے کرے۔ دوسری طرف یورپ اس وقت مختلف قسم کے اقتصادی بحرانوں سے روبرو ہے جنہوں نے عملی طور پر یورپ کی سلامتی کو شدید چیلنج سے روبرو کر دیا ہے۔ امریکہ روس سے دوطرفہ تعلقات میں اپنے اسٹریٹجک مفادات حاصل کرنے کے درپے ہے اور اسی طرح ان وسیع اخراجات سے بچنا چاہتا ہے جو جنگ جاری رہنے کی صورت میں امریکہ اور یورپ کو برداشت کرنا پڑیں گے۔
درحقیقت امریکہ کو درپیش مالی اور اقتصادی بحران ڈونلڈ ٹرمپ کی ان نئی پالیسیوں کا باعث بنا ہے جن کے نتیجے میں بہت سے اندرونی ادارے بند ہو جائیں گے اور عالمی سطح پر امریکہ بہت سے ممالک کو دی جانے والی امداد بھی روک دے گا۔ اگرچہ روس نے ریاض میں انجام پانے والے امریکہ اور روس کے درمیان مذاکرات یا ٹرمپ اور پیوتن کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت کا خیر مقدم کیا ہے لیکن وہ یوکرین میں جنگ بندی کا مطالبہ قبول نہیں کر رہا اور ایک ایسے وسیع معاہدے کی تلاش میں ہے جس میں یوکرین میں تین سال سے جاری جنگ کے تمام پہلووں کا جائزہ لیا جائے گا۔ روس بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے امریکہ سے موجود مختلف تنازعات جیسے قطب شمالی، انرجی، عدالتی امور، امریکہ میں منجمد شدہ اثاثے، دوطرفہ سرکاری تعلقات وغیرہ حل کرنے کا خواہاں ہے۔
یورپ کو اب تک یوکرین جنگ کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑا ہے اور وہ اپنی معیشت، سلامتی اور حتی سیاسی عمل اور حکمرانی کو خطرے کا شکار محسوس کر رہا ہے۔ جرمنی، ہالینڈ، برطانیہ اور فرانس جنہوں نے تین سال پہلے یوکرین جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا اب ڈونلڈ ٹرمپ کے برتاو کو امریکہ اور یورپ کے تعلقات میں فیصلہ کن موڑ قرار دے رہے ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ امریکہ کی جانب سے یورپ کے خلاف نئی ٹیکس پالیسی نے درآمدات پر منحصر جرمنی اور یورپ کی معیشت کو ایک نئے دھچکے کا شکار کر دیا ہے۔ یورپ جو نیٹو کے خاتمے کا انتظار کر رہا ہے اب ایک بار پھر یورپی دفاعی اتحاد تشکیل دینے کے بارے میں سوچنے لگا ہے۔ اس کی نظر میں ٹرمپ کی جانب سے یورپ کو نظرانداز کر کے روس سے براہ راست مذاکرات انجام دینے کا مطلب یورپ کو روس سے درپیش خطرات کے مقابلے میں اکیلا چھوڑ دینا ہے۔
گذشتہ دو ماہ کے دوران ٹرمپ کے سیاسی بیانات اور اقدامات کا جائزہ لینے سے شاید یوں محسوس ہو کہ یوکرین میں جنگ ختم ہو جانے کے بعد ممکن ہے کچھ مدت تک امریکہ اور روس کے درمیان کچھ حد تک پرسکون حالات جنم لیں لیکن یورپ اور روس کے درمیان موجود سیکورٹی اور اقتصادی تضادات اس قدر شدید ہیں کہ وہ فوری طور پر حل نہیں ہو سکتے۔ اس کشمکش میں سب سے بڑی ہار یوکرین کو ہو گی جس کی سرزمین اور تشخص ختم ہو کر رہ جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک وسیع حل کے درپے ہے اور تمام مشکلات حل کرنا چاہتا ہے جبکہ روسی صدر نے اس کے سامنے جو شرائط رکھی ہیں وہ پوری ہونے کے لیے طویل مدت کی محتاج ہیں۔ یوں روس اور امریکہ کے درمیان برف پگھلنے کا امکان پایا جاتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی جانب سے یورپ یوکرین میں امریکہ اور یوکرین جنگ ڈونلڈ ٹرمپ میں یوکرین کی نظر میں کے درمیان کر رہا ہے کر دیا ہے اور یورپ ٹرمپ کی اور روس بات چیت کا شکار یورپ کی یورپ کو یورپ کے ہے اور
پڑھیں:
مسلم حکمران امریکا و یورپ کے طلباء سے سبق سیکھ لیں، حافظ نعیم
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ مسلم حکمران امریکا اور یورپ کے طلباء سے سبق سیکھ لیں۔
اسلام آباد میں غزہ کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف جماعت اسلامی نے مارچ کا اہتمام کیا، اس دوران 26 اپریل کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔
اس موقع پر جلسہ عام سے خطاب میں حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ اسرائیل کو امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے، غزہ ملبے کا ڈھیر بن گيا ہے، مسلم حکمران امریکا اور یورپ کے طلباء سے سبق سیکھ لیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ یہاں سے اسرائیل جا کر وعدے کر آئے، بتایا جائے انہیں کس نے تل ابیب بھیجا تھا؟
انکا کہنا تھا کہ امریکا مسلمانوں اور انسانوں کا قاتل ہے، آج اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کا زبردست پیغام دیا جارہا ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ یہ ہمارا راستہ نہیں روک سکتے، ہم اعلان کریں تو کوئی کنٹینر ہمارا راستہ نہیں روک سکتا، ہم پولیس والوں کیساتھ تصادم نہیں چاہتے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بربریت روکنے کےلیے ہمیں متحد ہونا پڑے گا، اٹھو اور فلسطین کا مقدمہ لڑو، اسرائیل کی مذمت کرو، غزہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، بچوں کو شہید کیا گیا۔
حافظ نعیم الرحمان نے یہ بھی کہا کہ 26 اپریل کو پورا پاکستان چترال سے کراچی تک ملک گیر ہڑتال کرے گا، میں مطالبہ کرتا ہوں پاکستان میں حماس کا دفتر کھولا جائے۔