حماس کے خلاف 6 ناکام اسرائیلی تدابیر
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: فلسطینی عوام نے قیدیوں کی رہائی کے ہر دور کے بعد یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ حماس تحریک کی پہلے سے زیادہ حمایت کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے حماس کے ساتھ عوام یکجہتی مضبوط ہوئی ہے۔ بہر حال، حماس کو تباہ کرنے کی تمام سابقہ حکمت عملیوں کی ناکامی کے باوجود، اس تحریک کو ہوشیار رہنا چاہیے اور نئے اقدامات اٹھاتے ان تمام ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی رکھنی چاہیے، جن کا صیہونی حکومت ممکنہ طور پر سہارا لے گی، بشمول کرونین کی طرف سے تجویز کردہ اسٹریٹجک حل، جسے اس نے صیہونی حکومت کو تجویز کیا ہے۔ فلسطین سے خصوصی رپورٹ:
حماس کو تنہا کر کے اسے اندر سے کمزور کرنیکی حکمت عملی، 2024 کے لیے فارن افیئر میگزین کے ایڈیٹرز کے منتخب کردہ 10 مضامین میں سے ایک تھا۔ یہ مضمون کارنیگی میلن انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجی اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر اور "دہشت گردی کیسے ختم ہوسکتی ہے: رجعت پسندی اور دہشت گرد جماعتوں کی تباہی کو سمجھنا" کے مصنف آوڈری کرتھ کرونین نے لکھا تھا۔
اس مضمون میں مصنف نے اسلامی مزاحمتی تحریک "حماس" کے ساتھ صیہونی حکومت کے تعامل کے بارے میں ایک مختلف نقطہ نظر پیش کیا ہے، جس میں اس نے بقول اس کے "دہشت گرد گروہ" کے خاتمے کے لیے چھ ممکنہ حل تجویز کیے ہیں اور خاص طور پر "اندر سے سقوط" پر مبنی حکمت عملی پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اس رپورٹ میں مصنف کی طرف سے اٹھائے گئے اہم نکات کو پیش کیا گیا ہے اور کرونین کے مضمون پر صیہونی فریق کے ردعمل پر بھی بات کی گئی ہے۔
موجودہ منظرنامہ اور اسٹریٹجک تباہی کے نتائج
کرونین نے اعتراف کیا ہے کہ فوجی کارروائیوں سے صیہونی حکومت نے فلسطینیوں میں حماس کی حمایت میں اضافہ کیا ہے اور عالمی سطح پر حکومت کی پوزیشن کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ اس سے اسرائیلی حکومت کے اہم ترین اتحادی واشنگٹن کے ساتھ تعلقات پر بھی شدید دباؤ پڑا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ تل ابیب کے حماس کے ہزاروں جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے دعوے کے باوجود، اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ یہ تحریک اسرائیل کو پہلے سے زیادہ خطرے سے دوچار کر سکتی ہے۔
انہوں نے مارچ 2024 میں فلسطینی سینٹر فار پولیٹیکل اینڈ فیلڈ ریسرچ کے ایک سروے کے نتائج کا بھی حوالہ دیا، جس میں بتایا گیا تھا کہ غزہ کے رہائشیوں کی حماس کے لیے حمایت 50 فیصد مزید بڑھ گئی ہے، جو دسمبر 2023 کے مقابلے میں 14 فیصد زیادہ ہے۔ اگرچہ مصنف حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم ہونے کے لیے تمام ضروری معیارات کا حامل سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس تحریک کی تباہی "بلا شبہ فلسطینیوں، اسرائیل، مشرق وسطیٰ اور امریکہ کے لیے فائدہ مند ہوگی۔"
وہ یہ بھی کہتا ہے کہ صیہونی حکومت کا فلسطینی شہریوں کے لیے مہلک ردعمل حماس کے مفاد میں ہے اور تھا۔ کرونین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ عرب اور اسلامی ممالک اور یہاں تک کہ مغربی نوجوانوں کی نظر میں بھی زیادہ قابل قبول بیانیہ حماس کا ہی ہے، جس کے مطابق صیہونی حکومت جارح اور مجرم ہے اور حماس معصوم فلسطینیوں کی محافظ ہے۔ آسان الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ مصنف ایک بار پھر اس بات پر زور دیتا ہے کہ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ تدبیراتی کامیابی تھی، لیکن حماس کو اسٹریٹیجک شکست دینے کے لیے ایک بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
مصنف کے بقول اس بات کی گہرائی سے آگاہی بھی ضرروی ہے کہ دہشت گرد گروہوں کی زندگی کو کیسے ختم کیا جائے۔ گزشتہ صدی کے دوران 457 دہشت گرد تنظیموں اور گروپوں پر کیے گئے ایک مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ کونسے چھ نکات پر مبنی حکمت عملی دہشت گرد گروہوں کی تباہی کا باعث ہو سکتی ہے اور ہر حکمت عملی کا کوئی بھی نکتہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ نہیں، کیونکہ اکثر اوقات، کئی حل ایک گروپ پر بیک وقت لاگو ہوتے ہیں۔
یہ متعدد عوامل ان گروپوں کی سرگرمیوں کو ختم کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ کرونین نے زور دیا ہے کہ صیہونی حکومت کو اس بات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ حماس جیسے گروہوں کا خاتمہ فقط عسکری تدبیرات کے ذریعے ممکن نہیں ہوتا، بلکہ اسٹریٹجک سطح پر ہی ان کی شکست ممکن ہوتی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے صیہونی حکومت حماس کو تباہ کرنے یا دبانے اور اس کے وجود کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن یہ ناکام رہی ہے اور اس کے لئے بہتر حکمت عملی یہ ہے کہ اس گروہ کی عوامی حمایت کو کم کر کے اس کے مکمل خاتمے کا حل تلاش کیا جائے۔
1۔ اہداف کا حصول
مصنف کا خیال ہے کہ کسی گروہ کے خاتمے کا پہلا سبب اس کے متعین کردہ اہداف کا پورا ہونا ہے اور اس نے تاریخ میں ایسی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ جن میں جنوبی افریقہ میں افریقن نیشنل کانگریس کا ملٹری ونگ بھی شامل ہے، جس نے نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کی۔ اسی طرح ایک مثال یہودی مسلح گروہ ارگون آرگنائزیشن کی ہے، جس نے دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بہت سے عرب قبائیل کو ہجرت پر مجبور کرنے کے ساتھ ساتھ صیہونی ریاست کی بنیاد ڈالنے میں مدد فراہم کی۔
مصنف کا خیال ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ حماس "دریا سے سمندر تک" "پورے فلسطین کی آزادی" کے نعرے اور مقصد کو حاصل کرنے سے پہلے کہیں رکے۔ حالانکہ یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا، جب تک صیہونی حکومت اپنی سالمیت اور استحکام کو اس حد تک کمزور نہیں کر دیتی کہ وہ اپنی ہی بے ساختہ تباہی کا باعث بنے، جو فی الحال ناممکن ہے۔ اس لئے فلسطین کی مکمل آزادی کا ہدف جب تک موجود ہے، حماس باقی ہے۔
2۔ ماھیت میں تغییر
کرونین دوسرے سبب کا ذکر کرتا ہے کہ اس کے بقول ایک "دہشت گرد گروہ" اپنی ماھیت بدلنے یا کچھ اور بن جانے کی وجہ سے ختم ہو جاتا ہے۔ مصنف کے مطابق یہ تب ممکن ہوتا ہے جب ایک جرائم پیشہ گروہ مالی فوائد کے لیے موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھائے اور اس کے بعد ہر قسم کی سیاسی پیش رفت کی کوشش بند کردے۔ مصنف خود تسلیم کرتا ہے کہ اس لحاظ سے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ حماس ایک مزاحمتی اور آزادی پسند تحریک کے علاوہ کسی اور چیز میں تبدیل ہو جائے۔
3۔ کامیاب فوجی دباؤ
مصنف کے نزدیک تیسرا راستہ کامیاب فوجی کریک ڈاؤن ہے۔ کرونین کا کہنا ہے کہ غزہ میں اپنے جابرانہ طریقوں کو درست ثابت کرنے کے لیے صہیونی حکام نے دعویٰ کیا کہ حماس بھی دولت اسلامیہ عراق و شام (ISIS) سے ملتی جلتی ہے اور اسی طرح کی حکمت عملی اپنا کر اسے شکست دی جا سکتی ہے، لیکن ثابت ہوا ہے کہ یہ دعویٰ خود صہیونیوں کے لیے بھی قابل قبول نہیں تھا۔ فلسطینی رائے عامہ کی تو بات ہی دوسری ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ خالص فوجی ذرائع کا استعمال شاذ و نادر ہی کامیاب ہوتا ہے، جو 15 ماہ کی جنگ کے بعد ثابت ہو چکا ہے۔
4۔ رہنماؤں کی گرفتاری یا قتل
مصنف کے مطابق چھوٹے چھوٹے گروپوں کے لیڈر مارے جاتے ہیں تو وہ دوبارہ مزید چھوٹے گروپوں کیصورت میں تقسیم ہوکر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، وہ زیادہ تر رضاکار ہوتے ہیں اور ان کے پاس اپنے قتل یا گرفتار ہونیوالے لیڈر کی جانشینی کا کوئی عملی منصوبہ نہیں ہوتا ہے۔ لیڈروں کی گرفتاری اور قتل کا یہ حل عام طور پر ان گروپوں کو کمزور اور ختم کرنے کے لیے کام کرتا ہے، جن کی عمریں 10 سال سے کم ہوتی ہیں۔
حماس جیسے وہ گروپ جو پرانے ہیں اور وسیع تر نیٹ ورک بنا چکے ہوتے ہیں، ان کے لئے اس اصول کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس لئے حماس کے قائدین کو قتل کرنے کا طریقہ اچھا انتخاب نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے پاس روابط اور تعلقات کا ایک مضبوط نیٹ ورک ہے۔ یہ روابط اور تعلقات تقریباً 40 سال پرانے ہیں اور اگر قائدین کا قتل اس تحریک کی زندگی کو ختم کرنے میں کارگر ہوتا تو یہ مقصد بہت پہلے حاصل کر لیا جاتا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ حماس کے رہنماؤں جیسے یحییٰ عیاش، احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی، اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار کے قتل نے حماس کی صلاحیتوں یا منصوبوں پر کوئی اثر نہیں ڈالا ہے، بلکہ اس کے ردعمل کا باعث بنا ہے، جس سے حماس کو عوامی حمایت اور مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے حوالے سے فائدہ ہوا ہے، اور اس نے اپنے اردگرد مزید حمایتیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ تحریک نے لیڈرشپ کی تبدیلی کے ذریعے اپنی طاقت بھی ثابت کر دی ہے۔
5۔ طویل المدتی سیاسی حل
مصنف کا مشورہ ہے کہ صیہونی حکومت حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے اور طاقت کا سہارا لینے کے بجائے پانچواں حل استعمال کر سکتی ہے جو کہ طویل المدتی سیاسی حل کے حصول کے لیے تحریک کے ساتھ بات چیت اور گفتگو ہے، لیکن یہ مشورہ ہی صہیونیوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ مذاکرات میں کسی علاقائی یا زمینی تنازعے کی بات تو ہو سکتی ہے، لیکن بقول اس کے "دہشت گرد گروہوں" کے ساتھ مذہب یا نظریے کی بنیاد پر کوئی بات چیت مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتی۔
6۔ اندر سے خاتمہ
مصنف نے ایک چھٹے حل کو حماس کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے طور پر بیان کرتے ہوئے اسے ایک اسٹریٹجک آپشن قرار دیا ہے۔ وہ یہ کہ فلسطینیوں میں حماس کی حمایت کسی طرح ختم کردی جائے۔ لیکن یہ نکتہ اس کے اپنے موقف سے متصادم بھی ہے۔ وہ مضمون کے شروع میں حماس کو حاصل عوامی حمایت کو تسلیم کرتا ہے، لیکن پھر دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے۔
ان کا مشورہ ہے کہ صیہونی حکومت حالات کو اس طرح تبدیل کرے کہ غزہ میں رہنے والے فلسطینی حماس کے متبادل کے بارے میں سوچیں اور محسوس کریں کہ حماس کے بغیر ان کا مستقبل زیادہ امید افزا ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں، کرونین تجویز کرتا ہے کہ صیہونی حکومت کو غزہ میں داخل ہونے والی انسانی امداد کے حجم میں تیزی سے کمی کرنے اور رکاوٹ ڈالنے کی بجائے انسانی امداد کی وسیع پیمانے پر تقسیم کا انتظام کرنا چاہیے۔
وہ یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں زندگی کے بنیادی ڈھانچے اور گھروں کو تباہ کرنے کی پالیسی بند کرے اور حماس کے جانے کے بعد غزہ کی مستقبل کی تعمیرنو کے منصوبے پیش کرے۔ مصنف اجتماعی سزا کے استعمال کو روکنے کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے، کیونکہ یہ عمل فلسطینی رائے عامہ کو مشتعل کرتا ہے۔ اس کے بجائے فلسطینیوں کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ غزہ کے جن لوگوں کا حماس سے کوئی تعلق نہیں ہے ان سے صیہونی حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں۔
کرونین نے یہ تسلیم کرتا ہے کہ کئی دہائیوں کے تنازعے اور بڑی فوجی کارروائیوں کے باوجود اسرائیلی حکومت حماس کو تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی اور اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ صیہونی ریاست یہ صلاحیت مزید کھو رہی ہے، لیکن وہ حماس کو اندرونی طور پر کمزور اور کھوکھلا کر کے اسے شکست دے سکتی ہے اور اس مقصد کے لیے اسے متبادل منصوبے اور راہ حل پر عمل کرنا چاہیے اور تحریک کے اندر موجود تقسیم اور اختلافات کا اپنے حق میں فائدہ اٹھانا چاہیے۔
صیہونی حکومت کا ردعمل
آوڈری کرونن کے اس مضمون کو رد کرنیکے لیے فلسطینیوں کی طرف سے ردعمل کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے خارجہ پالیسی کے مشیر اوویر فالک نے اسی میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے ساتھ اس کا کو بخوبی انجام دیا، جس میں انہوں نے نشاندہی کی کہ کرونین غلطی پر تھے کہ اگر حماس کو "خود کو شکست دینے" کے لیے چھوڑ دیا گیا تو وہ منہدم ہو جائے گی۔ ایسا نہیں بلکہ اس یہ کام مکمل کرنیکے لیے مزید کارروائی کی ضرورت ہے۔
فالک نے فوجی مداخلت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ایسے دعوے کیے ہیں جن کو اکثر لوگ غیر حقیقی سمجھتے ہیں، بشمول اس دعویٰ کے کہ صیہونی حکومت نے شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے اور یہ کہ اگر حماس اپنے ہتھیار ڈال دے، غیر مشروط شکست ماننے پر راضی ہو جائے اور تمام صہیونی قیدیوں کو رہا کر دے، تو جنگ بہت جلد ختم ہو سکتی ہے۔
اس کے برعکس، کرونین کا خیال ہے کہ اس مسئلے کا حل حماس کی کمزوریوں کو خود اس کے خلاف استعمال کرنا اور عام لوگوں کو اس کے خلاف اکسانا یا حماس کے اندر اندرونی تقسیم اور اختلافات کو ہوا دینا ہے اور وہ اس حل کو اسٹریٹجک حل کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس طرح 7 اکتوبر کے تجربے کو دہرائے جانے سے بچا جا سکتا ہے۔ البتہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ یہاں تک کہ حماس کی عسکری کارکردگی اور میدان جنگ میں ثابت قدمی کی وجہ سے اندرون و بیرون ملک اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
فلسطینی عوام حماس تحریک کی پہلے سے زیادہ حمایت کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے حماس کے ساتھ عوام کی یکجہتی مضبوط ہوئی ہے۔ بہر حال، حماس کو تباہ کرنے کی تمام سابقہ حکمت عملیوں کی ناکامی کے باوجود، اس تحریک کو ہوشیار رہنا چاہیے اور ان تمام ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی رکھنی چاہیے، جن کا صیہونی حکومت ممکنہ طور پر سہارا لے گی، بشمول کرونین کی طرف سے تجویز کردہ اسٹریٹجک حل، جسے اس نے صیہونی حکومت کو تجویز کیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حماس کو تباہ کرنے صیہونی حکومت کو کو تباہ کرنے کی دہشت گرد گروہ کرتا ہے کہ اس اس تحریک کی حکمت عملی کے باوجود ہے اور اس کی طرف سے کی ضرورت کرتے ہیں یہ ہے کہ کے خلاف نہیں ہے کہ حماس حماس کے حماس کی کرنے کے سکتی ہے کے ساتھ نہیں ہو مصنف کے ہیں اور کہ غزہ اس بات کیا ہے کے لئے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
اسرائیلی مائنڈ سیٹ،کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ؟
کیا مروت کیا چودھری اور کیا غامدی اینڈ کمپنی ، یعنی کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ؟ کہاں شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن اور کہاں شیطان اکبر کے یہ خرکار؟مفتی تقی عثمانی آسمان علم وعمل کا وہ چمکتا ہوا چاند ہیں کہ جس کی روشنی سے پوری اسلامی دنیا مستفید ہو رہی ہے،عرب وعجم کے علماء و اسکالرز جن کی راہوں میں پلکیں بچھانا اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں ، اخلاص،علم وتقوی ، للہیت اور امت مسلمہ بلخصوص غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا غم ہی جن کا اوڑھنا بچھونا ہے،آپ ایک دو ،چار یا سو نہیں بلکہ ہزاروں علماء اور مفتیان کے استاد ہیں،اک ایسے ولی کامل کو شیطان لعین کے گماشتوں کی طرف سے تضحیک کا نشانہ بنایا جانا عذاب خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے،میں ایسی صحافت ،ایسی وکالت،ایسی سیاست ،اور ایسے دانشوروں کو نہیں مانتا کہ جو دینی احکامات کا مذاق اور دینی شخصیات کو تضحیک کا نشانہ بنا کر غیر ملکی آقائوں سے ڈالر بٹورتے ہوں،اس خاکسار نے اپنے 30سالہ صحافتی کیرئیر میں ایسے شیطانی گماشتوں کو نہ صرف یہ کہ مسترد کیا،بلکہ اپنے قلم کے ذریعے انکے مکروہ چہروں کو عوام کے سامنے بے نقاب بھی کیا۔ قارئین اوصاف!کو یا د ہو گا کہ جب رسوا کن ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا،اسلام آباد کو امریکی بلیک واٹر نے اپنے باپ کی جاگیر سمجھ رکھا تھا،دجالی چینلز کے بعض اینکرز ،دانش فروش اور اینکرنیاں امریکی بلیک واٹر ز کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر جام لنڈھانا دانشوری اور میڈیا کی آزادی کی معراج سمجھتی تھیں،وہ دور نائن الیون کے فوراً بعد کا تھا،امریکی ڈالروں کی برکھا برس رہی تھی،ہم جیسے طالب علم امریکی ڈالروں کے حصول کے لئے تھوتھنیاں لٹکانے والے ’’معززین‘‘ کی شکلیں دیکھ کر حیرت میں گم ہو جاتے تھے،بے حیائی ،فحاشی و عریانی ،عورتوں و مردوں کی مخلوط میراتھن ریس ،لاہور کی ایک حویلی میں بو کاٹا کے نعروں میں شراب و شباب کی محفلیں سجانا روشن خیالی کی معراج سمجھا جاتا تھا ،نائن الیون کے بعد کون بکا؟ کس نے ضمیر اور نظریات کی سوداگری کی’’ڈالر خوری‘‘ صرف دجالی میڈیا ،حکمرانوں ،ساست دانوں ، دانشور وں اور اسٹیبلشمنٹ تک ہی محدود رہی یا پھر اس بہتی گنگا میں پگڑیوں ،ٹوپیوں والے صاحبان جبہ و دستار نے بھی حصہ بقدر جثہ وصول کیا؟
ہم نے اپنے چیف ایڈیٹر محترم مہتاب خان صاحب کی قیادت میں نائن الیون کے ان سب ڈالر خوروں کے خلاف قلمی جہاد جاری رکھا،یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب چیف ایڈیٹر بہادر ،گوروں سے نہ مرعوب ہونے والا اور نہ بکنے والا ہو تو پھر ہم جیسے طالب علموں کے لئے صحافت کا مزہ دو آشتہ ہو جاتا ہے،رسوا کن ڈکٹیٹر کی کوکھ نے جانے، انجانے میں کتنے فواد چودھری جنم دئیے اور دجالی میڈیا کتنے مروت اور مرزا جہلمی پیدا کر چکا؟،ان سب کے مکروہ چہروں سے نقاب سرکانا میری صحافتی ذمہ داری ہے،اور یہ ذمہ داری ہم مرتے دم تک ادا کر تے رہیں گے ،ان شااللہ ،پاکستان میں نا موس رسالت ﷺ ،ناموس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور شعائر اسلام پہ حملے کرنے والے شیطانوں کو اگر سزائیں دے دی جاتیں تو بات آرمی چیف اور امت کے مشترکہ سرمایہ اکابر علماء کی گستا خیوں تک نہ پہنچتی ،حد تو یہ ہو گئی ،کہ یہاں محض جھوٹی رپورٹ دجالی میڈیا اور غیر ملکی آقائوں کی مدد سے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ہاتھوں پانچ سو کے لگ بھگ گرفتار گستاخوں کے حق میں باقاعدہ کمپین چلائی گئی اور گر فتار گستاخ ملعونوں کو رہا کروانے کے لئے بعض ایسے سفید داڑھی والے بابے بھی پیش پیش نظر آئے کہ جن کی کئی نسلیں زکوٰۃ کے مال پر پل بڑھ کر جوان ہو ئیں،کراچی اور گوجرانولہ کے دو بگڑے مولوی زادوں نے اپنی سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں گرفتار گستاخوں کے حق میں جس طرح سے ٹسوے بہائے انہیں دیکھ کر ان کے حق ڈالر خوری کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہ تھا،لیکن سپیشل برانچ سے عدلیہ سے لے کر دجالی میڈیا تک جھوٹ کے پھیلے ہوئے بادلوں کو چیر کر ’’سچائی‘‘نے بہرحال اپنا را ستہ تلاش کر ہی لیا اور دنیا گرفتار گستاخ ملعونوں کے جھوٹے حامیوں اور ان کے سہولت کاروں کی ذلت و رسوائی اپنی آنکھوں سے دیکھے گی،ان شااللہ۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے،یہاں عوام کی اسلامی راہنمائی کرنا حکمرانوں کی آئینی ذمہ داری ہے،جب حکمران ،سیاست دان،جرنیل، ججز ،جرنلسٹ مدثر شاہ جیسے جعلی پیر اور بیورو کر یٹ نما مولوی اپنے اپنے ڈالر کھرے کر کے ڈالر دینے والوں کے ایجنڈے کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پروان چڑھانے کی کوشش کریں گے تو اس سے نہ صرف یہ کہ ملک میں انارکی پھیلے گی بلکہ ملکی سلامتی کو بی، خطرات لاحق ہو جائیں گے ، کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیلی صدر کا فرستادہ جہلم کا پیرمدثرشاہ المعروف مصدر شاہ 10مارچ کو چند پاکستانیوں کے ہمراہ اسرائیل کادورہ کر چکا ہے،پیرمدثرشاہ کے علاوہ اس وفد میں برطانوی نشریاتی ادارے سے منسلک رہنے والی صحافی سبین آغا، ایک غیر ملکی اخبار سے منسلک صحافی کسور کلاسرا، اسلام آباد کے ویب اخبار کے صحافی قیصر عباس، صحافی شبیر خان اوردیگرشامل تھے۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ لوگ پاکستانی پاسپورٹ پراسرائیل کیسے گئے؟ اگرچہ حکومت نے اعلان کیاہے کہ پاکستانی پاسپورٹ غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، مگر ابھی تک اسرائیل کے ان گماشتوں کے خلاف حکومتی کارروائی ہوتی کہیں نظر نہیں آرہی تو کیوں ؟یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لوگ دہری شہریت کے تحت کسی دوسرے ملک کے پاسپورٹ پر اسرائیل گئے ہوں ، لیکن انہوں نے شناخت پاکستان کی استعمال کی ، پاکستان کے معاشرے میں بگاڑ اور ہیجان پید اکرنے کی کوشش کی ، پاکستان کے دشمن ملک سے اظہار یک جہتی کرکے ملکی قوانین اور ملکی موقف کی توہین کی ، اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ ان لوگوں نے پاکستا نی پاسپورٹ استعما ل نہیں کیا ، تو بھی ان کے خلاف سخت ترین کارروائی لازم ہے ، جس کا ابھی کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا البتہ حکومتی ادارے اسلام آباد ،لاہور،اور کراچی کی سڑکوں پر لگے ہوئے فلسطینی جھنڈوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تو نظر آ رہے ہیں،مگر اسرائیل کا دورہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ’’ہنوزدلی دور است‘‘کا مصداق کب تک بنی رہے گی؟