Daily Ausaf:
2025-04-22@14:21:17 GMT

معافی ، مغفرت اور صبر و شکر

اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT

اللہ سے مانگنے والوں اور اللہ سے ڈرنے والوں کو باطل سے ڈرانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے،اللہ والے اپنی تحریر ہو یا تقریر ہر حال میں سب سے پہلے اپنے رب تعالی کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں،پیرو مرشد حضرت اقدس حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انفاق فی سبیل اللہ مہم میں،محنت کرنے والوں اور حصہ ڈالنے والوں کو،ایمان کامل کی حلاوت عطا فرمائیں،معافی، مغفرت، رحمت اور نصرت عطا فرمائیں، آپ نے کبھی غور فرمایا!معافی کیا ہے؟ مغفرت کیا ہے؟ کسی نے کوئی جرم کیا،بڑا گناہ کیا،اس پر اسے سزا ملے گی لیکن اگر معافی مل جائے تو سزا نہیں ملتی، یہ ہے معافی کا آسان سا مطلب، واعف عنا یا اللہ ہمیں معاف فرما دیجئے، یہ دعا قبول ہو گئی اور معافی مل گئی تو،گناہ ختم، سزا ختم ،تو پھر واغفِر لنا کے لئے کیا بچا؟ اس کا ترجمہ ہے یا اللہ ہمیں بخش دیجیے،ہمیں مغفرت دے دیجئے،بات دراصل یہ ہے کہ معافی ملنے سے گناہ ختم ہو گیا۔ سزا نہیں ملے گی مگر اس گناہ کے اثرات تو باقی رہتے ہیں۔ اس بندے کا نام ان لوگوں میں لکھا ہوا ہے جو مجرم تھے اور انہیں معافی ملی.

.اسی طرح گناہ اور جرم کے دنیوی نقصانات بھی بہت ہیں اور بدنامیوں کا خدشہ بھی بہت،مغفرت کا معنی یہ ہے کہ گناہ کے سارے اثرات ختم ہو جائیں،گویا کہ کبھی گناہ ہوا ہی نہیں،گناہ سے پہلے والی حالت بحال ہو جائے اور اس گناہ کے بارے میں اسے کوئی خطرہ ہی نہ رہے،اسی لئے قرآن و سنت میں جگہ جگہ سمجھایا گیا کہ مغفرت صرف اللہ تعالیٰ ہی دے سکتے ہیں۔ ،حضرت ابو قلابہ رحمہ اللہ جلیل القدر تابعی اور بہت بڑے محدث ہیں جلیل القدر صحابی حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کے شاگرد اور مشہور محدث ہیں آپ بصرہ میں رہتے تھے اور اپنے زمانے کے انتہائی صابر و شاکر انسان تھے، تاریخ میں آپ کے صبر و شکر کا واقعہ ملتا ہے جو انتہائی سبق آموز اور عبرت انگیز واقعہ ہے ۔ عبد اللہ بن محمد کہتے ہیں کہ میں جہادی مہم کے سلسلہ میں مصر کے ایک ساحلی علاقے میں مقیم تھا، ایک بار میں ساحل سمندر میں جا نکلا وہاں میدان میں ایک خیمہ نظر پڑا، خیمہ میں ایک شخص نظر آیا جو ہاتھ پائوں سے معذور اور ثقل سماعت و ضعف بصارت کا شکار تھا، اس کا کوئی عضو قابل انتقاع نہ تھا سوائے ایک زبان کے کہ وہ سلامت تھی اور وہ زبان سے یہ کہہ رہا تھا۔الٰہی مجھے توفیق دے کہ میں تیری خاطرخواہ حمد و ثنا کر سکوں جس سے تیری ان نعمتوں کا شکر ادا ہو سکے جو تو نے مجھ پر کیں، مجھے تو نے اپنی مخلوق میں سے بہت سوں پر فضیلت اور فوقیت بخشی ہے۔
عبد اللہ کہتے ہیں کہ میرے جی میں آیا کہ چل کر ان صاحب سے اس دعا کے متعلق پوچھنا چاہیے، چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور انہیں سلام کر کے میں نے ان سے دریافت کیا کہ میں نے آپ کو یہ دعا کرتے سنا ہے (جبکہ آپ کی صورت حال یہ ہے کہ آپ ہاتھ پائوں سے معذور اور ثقل سماعت و ضعف بصارت کا شکار ہیں) آپ اللہ کی کون سی نعمت پر حمد و ثنا کر رہے ہیں اور ایسی کون سی فضیلت آپ کو حاصل ہے جس کا آپ شکر ادا کرنا چاہتے ہیں؟ ان صاحب نے کہا، تمہیں کیا معلوم میرے رب کا میرے ساتھ کیا معاملہ ہے، اگر وہ آسمان سے آگ برسا کر مجھے بھسم کر دے، پہاڑوں کو حکم دے کر مجھے کچل دے سمندروں کو کہہ کر مجھے غرق کردے زمین کو مجھے نگلنے کا حکم دے دے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ میرے پاس اللہ کی ایک بڑی نعمت میری یہ زبان ہے مجھ سے کما حقہ اس کا شکریہ بھی ادا نہیں ہو سکتا، تم میری حالت دیکھ رہے ہو، میں اپنا کوئی کام خود نہیں کر سکتا میرا ایک بیٹا ہے، جو نماز کے وقت میرا خیال رکھتا ہے وہی مجھے وضو کرواتا ہے وہی میرے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے، تین دن سے وہ غائب ہے اگر تم اسے تلاش کر دو تو مہربانی ہوگی۔ میں نے کہا آپ جیسے انسان کی خدمت سے بڑھ کر اور سعادت کیا ہو سکتی ہے؟ میں یہ کہہ کر بچے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ ابھی میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ ریت کے تودوں کے درمیان بچے کی لاش پڑی ہوئی ملی جسے کسی درندے نے چیر پھاڑ کر ہلاک کر دیا تھا میں نے انا للہ پڑھا اور جی میں سوچنے لگا کہ میں اس بچے کے باپ کو جا کر کیسے بتلائوں؟ بالآخر میں گیا اور حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کا تذکرہ کر کے میں نے انہیں بتلایا کہ جس بچے کی تلاش میں آپ نے مجھے بھیجا تھا اسے تو کسی درندے نے چیر پھاڑ کر ہلاک کر دیا ہے، ان صاحب نے یہ وحشت ناک خبر سن کر کہا ’’الحمد لِلہِ الذِی لم یخلق مِن ذرِیتِی خلفا یعصِیہِ فیعذِبہ بِالنارِ ‘‘ اللہ کا شکر ہے جس نے میری اولاد کو نافرمان نہیں پیدا کیا جو دوزخ کے عذاب کا شکار ہوتی پھر حضرت نے انا للہ پڑھا اور زور کی ایک آہ بھری اور فوت ہو گئے ۔ اِنا لِلہِ واِنا اِلیہِ راجِعون ۔ میرے لئے بہت بڑا مسئلہ بن گیا کہ اگر انہیں یونہی چھوڑ کر جاتا ہوں تو ڈر ہے کہ کہیں انہیں درندے نہ کھا جائیں اور اگر یہاں ٹھہرتا ہوں تو کیا کروں تنہا مجھ سے کچھ ہو نہیں سکتا الغرض میں نے ان کی نعش کو چادر سے ڈھانپا اور ان کے سرہانے بیٹھ کر رونے لگا۔ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک چار آدمی آئے اور کہنے لگے عبداللہ کیا ہوا؟ میں نے انہیں سارا قصہ سنایا وہ کہنے لگے ان کا چہرہ تو کھولو ہو سکتا ہے ہم انہیں جانتے ہی ہوں میں نے چہرہ کھولا تو وہ لوگ ان پر پل پڑے کبھی آنکھوں کو چومتے اور کبھی ہاتھوں کو بوسہ دیتے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے ہم ان آنکھوں پر قربان جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے سامنے ہمیشہ بند رہیں، ہم اس جسم پر قربان جو ہمیشہ لوگوں کے سونے کے وقت بھی سجدہ ریز رہتا میں نے کہا کہ بتائو تو سہی یہ کون صاحب ہیں؟ وہ بولے یہ حضرت عبد اللہ بن عباس کے شاگرد حضرت ابو قلا بہ الجرمی ہیں یہ اللہ و رسول ﷺ سے بے انتہا محبت کرنے والے انسان تھے۔ ہم نے انہیں غسل دیا اور جو کپڑے ہمارے پاس تھے ان میں انہیں کفنایا ان کا جنازہ پڑھا اور دفن کر دیا۔ وہ لوگ واپس چلے گئے اور میں بھی اپنی جگہ چلا آیا۔ رات کو خواب میں دیکھا کہ آپ جنت کے باغوں میں سیر کر رہے ہیں اور جنتیوں کا لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں اور یہ آیت تلاوت فرما رہے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر عطا فرماتے ہیںاللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بھی صبر و شکر اور استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہیں اور اللہ کی کہ میں

پڑھیں:

باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی

گزشتہ ایک صدی میں انسانیت ایک خاموش تبدیلی سے گزری ہے۔ سچا روحانی علم، جو کبھی اخلاص والے دلوں میں چھپا ہوتا تھا، اب مادی حرص و ہوس کے نیچے دفن ہو گیا ہے۔ دین اور روحانیت کے علمبردار علما، مشائخ اور مبلغین اکثر اس علم کو دولت، شہرت اور اقتدار کے لیے استعمال کرنے لگے۔
تزکیہ نفس، ذکر، اور باطنی سچائی کی دعوت اب سیاسی و مالی مفادات کی نذر ہو چکی ہے۔
حدیث ‘ ’’ایسا وقت آئے گا جب لوگ صرف اپنے پیٹ کی فکر کریں گے، دین ان کے لیے مال کا ذریعہ ہوگا، ان کا قبلہ ان کی خواہشات ہوں گی، اور وہ قرآن پڑھیں گے مگر اس پر عمل نہیں کریں گے۔
جب سچے ذکر اور باطنی بیداری کا چراغ بجھنے لگا، تب آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت (AI) جیسے نئے علوم نے دنیا میں جگہ لی شاید ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے کہ ہم نے کیا کھو دیا، اور دوبارہ نظام، ترتیب، اور ربانی حکمت کی طرف لوٹنے کا وقت ہے۔
روحانی علم کی آلودگی۔ اخلاص، جو کبھی دین و تصوف کی روح تھی، اب لالچ، شہرت اور طاقت کے ہاتھوں ماند پڑ گئی ہے۔ اکثر مبلغین اور اداروں نے دین کو تجارت بنا دیا ہے۔
حقیقی تصوف، جو کبھی صرف اہلِ دل کے سینوں میں چھپا ہوتا تھا، اب رسموں اور نعروں فتوئوں میں بدل گیا ہے۔علم بغیر عمل کے دیوانگی ہے، اور عمل بغیر علم کے بیکار ہے۔
امام غزالی، احیاء العلوم۔ روح کی کھوئی ہوئی حقیقت ‘ لطائف کا علم‘ جو انسان کے اندر موجود روحانی مراکز کی نشاندہی کرتا ہے صدیوں تک خفیہ طور پر استاد سے شاگرد تک منتقل ہوتا رہا۔
ذکر، مجاہدہ، اور سچائی کے ذریعے یہ لطائف بیدار ہوتے ہیں اور اللہ کی قربت کی راہیں کھولتے ہیں۔مگر آج یہ علم یا تو چھپا لیا گیا ہے یا بیچا جا رہا ہے۔
جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔
حدیث ‘اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘ نور پر نور۔ اللہ جسے چاہے اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (سورۃ النور، 24:35)
آئی ٹی اور AI ‘ واپسی کی ایک نشانی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے پیچھے جو نظریہ ہے، وہ مسلمان سائنسدانوں کی تحقیق پر مبنی ہے۔
الگوردم ‘ کا تصور محمد بن موسی الخوارزمی سے آیا، جو ایک مومن مسلمان ریاضی دان تھے۔ہمیں سچائی کو جہاں سے بھی ملے، قبول کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
الکندی‘یاد رکھیں: ٹیکنالوجی بذاتِ خود نہ حرام ہے نہ حلال اصل چیز نیت اور استعمال ہے۔
کچھ علماء AI اور IT کو کفر یا بدعت کہتے ہیں، مگر خود سوشل میڈیا، آئی فون، اور لیپ ٹاپ پر دن رات سرگرم ہوتے ہیں۔یہ ریاکاری ہے، دین نہیں۔
جبکہ سچے طالبانِ حق جدید علم کو اخلاص اور حکمت سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ علم علمِ نافع ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا:علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر تک۔
حدیث‘ تم میں سے بہترین وہ ہے جو علم سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (صحیح بخاری)
اللہ والے مخلصین ایسے لوگ پوری حکمت اور فراست سے لیس ، کمپاس، GPS اور روحانی WiFi رکھتے ہیں جو انہیں رب سے جوڑ دیتا ہے۔
لطائف دل کی روشنی‘ تصوف کے مطابق، انسان کے اندر کئی لطائف ہیں جو روحانی ترقی کی منزلیں طے کرواتے ہیں۔ لطیفہ قلب‘ ذکر کا مقام۔ لطیفہ روح ‘الہام و وحی کا مرکز۔ لطیفہ سر ‘ دل کی گہرائیوں کا راز۔ لطیفہ خفی و اخفی ‘ باطنی اسرار کی انتہا۔
مولانا روم فرماتے ہیں:تم کمرے کمرے پھر رہے ہو اس ہار کو تلاش کرنے کے لیے جو تمہارے گلے میں پہلے ہی ہے۔
تمہارا کام محبت کی تلاش نہیں، بلکہ ان رکاوٹوں کو ختم کرنا ہے جو تم نے اس کے خلاف کھڑی کی ہیں۔
طالبِ حق کے نام پیغام۔ اے سچے طالب!یہ راہ تیرے لیے ہے۔ نہ ان کے لیے جو دنیا چاہتے ہیں، بلکہ ان کے لیے جو قربِ الہی کے خواہاں ہیں۔
دل کی طرف لوٹ،باطن کو بیدار کر،اس نور کو جگا،جو اللہ نے تیرے اندر رکھا ہے۔خبردار! دلوں کا سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔ (سور ۃالرعد، 13:28؟)
آئو، ذکر کو اپنا ساتھی بنائو،لطائف کو روشن کرو،اور رب کی طرف بڑھو۔
اللہ ھو ۔ ھو کا ورد کرو پھر دیکھو دل میں اللہ کی محبت ا نور افضل الذکر لاا لہ ا لا اللہ۔

متعلقہ مضامین

  • ’طعنہ دینے ہمارے ووٹوں سے ہی صد بنے‘بلاول بھٹو کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا اللہ کا ردعمل
  • ن لیگ اور پی پی کا پانی کے مسئلے پر مشاورتی عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق
  • بحرین کے بے گناہ قیدیوں کی آواز
  • سابق ائیر وائس مارشل کا کورٹ مارشل، وزارت دفاع سے ریکارڈ طلب
  • بھارتی فلمساز انوراگ کشیپ کیخلاف متنازع بیان پر مقدمہ درج
  • بھارتی فلمساز انوراگ کشیپ کیخلاف متنازع بیان پر مقدمہ درج
  • ہم موجودہ حالات میں اپوزیشن اتحاد کے حق میں نہیں، حافظ حمد اللہ
  • پیپلز پارٹی کينالز کی حامی ہے، انہیں اقتدار اسی بنیاد پر ملا ہے، ایاز لطیف پلیجو
  • یہودیوں کا انجام
  • باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی