حسن نصراللہ کا جنازہ، پیغام کیاہے؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
حسن نصراللہ اسرائیل اور دیگر توسیع پسند ملکوں کے خلاف مزاحمت کی علامت تھے۔ انہوں نے کئی دہائیوں سے اسرائیل سمیت دیگر سامراجی طاقتوں کا بھرپور مقابلہ کیا۔ توسیع پسندوں کے خلاف مزاحمتی تحریک کی علامت بن چکے تھے۔ تاہم اگر اسرائیل کا یہ خیال ہے کہ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے خلاف مزاحمت ختم ہوجائے گی تویہ ایک خیام خیال ہے۔لبنان کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی پالیسیاں نہ صرف امن کے خلاف ہیں بلکہ وہ عظیم تر اسرائیل بنانے کی بھرپور کوشش کررہاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وقفے وقفے سے لبنان سمیت مشرق وسطیٰ کے بعض ملکوں پرحملہ کرتارہتاہے۔ اسرائیل کی اس سوچ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں ہنوز امن قائم نہیں ہوسکاہے۔ بلکہ لبنان سمیت پورا مشرق وسطی اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے غیر محفوظ ہوگیاہے۔
حسن نصراللہ کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کرکے یہ ثابت کردیا کہ مرحوم نے اسرائیل سمیت ان تمام سامراجی طاقتوں کے خلاف جو مزاحمتی تحریک شروع کی تھی ‘ وہ جاری رہے گی۔ دراصل اسرائیل کے خلاف حسن نصراللہ اوران کے ساتھیوں کی تحریک گریٹر اسرائیل کو روکنے کی تحریک تھی اور دیگر سامراج کے توسیع پسندانہ اقدامات کو موثر طور پر روکنا مقصود تھا۔ ہرچندکہ سامراجی طاقتوں نے حسن نصراللہ کو شہید کردیا اور اپنے تئیں یہ جاناہے کہ اب سامراج کے خلاف تحریک رک جائے گی‘ شاید ایسا نہیں ہوگا‘ سامراجی طاقتوں کے خلاف مزاحمتی تحریک جاری رہے گی۔
حسن نصراللہ کے جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت اس بات کی غماز ہے کہ سامراجی طاقتوں خصوصیت کے ساتھ اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں جارحانہ پالیسیوں کے خلاف عوام کی جانب سے مزاحمتی تحریک جاری رہے گی۔ دراصل اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ان تمام مزاحمتی طاقتوں کو’’ ختم‘‘ کرناچاہتاہے۔ جو سامراج کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں اور امن کیلئے جدوجہد کررہے ہیں تاکہ انسانی حقوق کو کسی طرح تحفظ حاصل ہوسکے اور طاغوتی قوتوں کاحوصلہ پست ہوسکے۔لیکن اسرائیل کی تمام تر جارحانہ پالیسیوں کے باوجود مشر ق وسطیٰ کے کئی علاقوں میں مزاحمتی تحریک جاری وساری ہے۔ اس تحریک کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میںابھی تک اسرائیل اور ان کے حمایتوں کو کسی طرح کی فتح حاصل نہیں ہوسکی ہے جبکہ ایک سازش کے تحت حسن نصراللہ کو شہید کیا گیاہے ۔ اسرائیل کے خلاف مزاحمت مزید طاقت پکڑنے کی اور مشرق وسطیٰ کا امن مستقل سوالیہ نشان بنارہے گا۔
دراصل مشرق وسطیٰ میں امن قائم رکھنے میں امریکہ کا اہم رول ہے۔کیونکہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں جواقدامات اٹھارہاہے اس کی پشت پناہی امریکہ کررہاہے۔ اگر امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کرنا ترک کردے یا پھر عربوں اور اسرائیل کو امن کی خاطر ایک میز پربٹھاکر مشرق وسطیٰ سے متعلق کوئی پائیدار حل نکالے تو اس خطے یعنی مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم ہوسکتاہے‘ ورنہ یہ خطہ نہ صرف غیر محفوظ رہے گا بلکہ یہاں جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔ جوکسی بھی صورت میں چھوٹی بڑی جنگ کا باعث بن سکتے ہیں۔
حسن نصراللہ نے کھل کر اسرائیل اور ان کی حمایت کرنے والے ملکوں کی مزاحمت کی ا ورد نیا کو یہ باور کرانے کی کشوش کی جب تک اسرائیل کی جانب سے توسیع پسندانہ پالیسیوں کو روکا نہیں جائے گا مشرق وسطیٰ میں کبھی بھی امن قائم نہیں ہوسکے گا۔ مشرق وسطیٰ میں امن کا قیام دنیا میں پائیدار امن کے قیام سے مشروط ہے۔تاہم یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ عالمی طاقتیں مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی ہیں‘ بلکہ ان کا جھکائو اسرائیل کی جانب ہے جس کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ اسرایل خود اس خطے میں امن کے قیام میں سنجیدہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح وہ اس خطے میں اپنی چودہراہٹ قائم کرلے اور لبنان سمیت دیگر عرب ملکوں پرپالیسیاں مسلط کردے ۔ جوکہ میرے خیال کے مطابق ممکن نہیں ہوسکے گا۔
اس وقت اسرائیل ابھی تک اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر قائم ہے۔ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد مشرق وسطیٰ مزید امن کے پس منظر میں غیر محفوظ ہوگیاہے۔ اگر اسرئیل اوران کے حمایتی یہ سوچ رہے ہیں کہ مزاحمت کی تحریک ختم ہوجائیگی۔فی الحال ممکن نہیں ہوسکے گا۔ مشرق وسطیٰ میں امن کا قیام اسرائیل کی پالیسیوں سے مشروط ہوچکاہے‘ کیونکہ جب تک اسرائیل اپنی پالیسیوں سے متعلق Review نہیں کر ے گا اس خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں ہوسکے گا۔ نیزجب تک اسرائیل اور ان کے حمایتی اس خطے میں عربوں کے مفادات کو نظرانداز کرتے رہیںگے‘ امن کا قیام ممکن نہیں ہوسکے گا۔ عرب کے بعض اہم ممالک اسرائیل سے جنگ نہیں کرناچاہتے بلکہ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود امن سے رہناچاہتے ہیں۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کا دارومدار اسرائیل اور امریکہ کے رویے پر مبنی ہے۔ نیز اگر اسرائیل اور عربوں کے درمیان سفارتی سرگرمیوں کو فعال کردیاجائے تو مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ ذرا سوچیئے!
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: توسیع پسندانہ پالیسیوں ممکن نہیں ہوسکے گا سامراجی طاقتوں کے خلاف مزاحمت مزاحمتی تحریک حسن نصراللہ اسرائیل اور پالیسیوں کے امن کا قیام امن کے قیام تک اسرائیل اسرائیل کی
پڑھیں:
اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کرنے پر پاکستانیوں کے مشکور ہیں، حماس رہنما
کراچی:فلسطین کی مزاحمت کار تنظیم حماس کے رہنما نے اسرائیلی بربریت اور مظلموں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے پر پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق شاہراہ قائدین پر مرکزی مسلم لیگ کی جانب سے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی بربریت کے خلاف کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
کانفرنس میں حماس کے رہنما ناجی الضہیر نے شرکت کی اور شرکا سے خطاب میں کہا کہ پاکستانی بھائیوں کا فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی پر شکریہ اداکرتے ہیں۔
انہوں نے پُراعتماد لہجے میں کہا کہ فتح فلسطین عوام کا مقدر ہے، اسرائیل مجرم اورانسانیت کا قاتل ہے اور اس کے خلاف فلسطینی عوام کی جدوجہد جاری رہے گی۔
ناجی الظہیر نے کہا کہ پاکستانی عوام اسرائیل جبر کی مذمت اور اہل غزہ کے ساتھ یکجہتی کررہے ہیں جس پر ہم اُن کے مشکور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اہل غزہ نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں کمزوری نہیں دکھائی، اسرائیل کے مقابلے میں ہمارے حوصلے آج بھی بلند ہیں۔ تمام تر مظالم کے باوجود ہم استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اُن کا مزید کہان تھا کہ غزہ میں جاری جنگ صرف فلسطینیوں کی جنگ نہیں یہ مسلم امہ کی جنگ ہے، ہم مسجد اقصٰی اور قبلہ اول کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرآن میں اللہ کہتا ہے کہ جب تم کو جہاد کے لیے پکارا جائے تو تم کیوں زمین سے چمٹ جاتے ہو، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ظلم کے لیے چھوڑتا ہے۔
کانفرنس سے سیف اللہ خالد، قاضی احمد نورانی، مرکزی مسلم لیگ سندھ کے صدر فیصل ندیم سمیت دیگر مقررین نے خطاب کیا جبکہ شرکا نے فلسطینیوں کے حق اور اسرائیلی مظالم کے خلاف نعرے لگائے۔