غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کیلئے قاہرہ میں مذاکرات کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
مصر نے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے مذاکرات قاہرہ میں شروع ہو گئے ہیں۔ ہفتے کے روز 42 روزہ ابتدائی جنگ بندی کا باضابطہ اختتام ہو رہا ہے تاہم دوسرے مرحلے کے نفاذ پر تاحال کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا۔ اسلام ٹائمز۔ صہیونی حکومت اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے سلسلے میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات قاہرہ میں شروع ہو گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مصر نے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے مذاکرات قاہرہ میں شروع ہو گئے ہیں۔ ہفتے کے روز 42 روزہ ابتدائی جنگ بندی کا باضابطہ اختتام ہو رہا ہے تاہم دوسرے مرحلے کے نفاذ پر تاحال کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا۔ مصری حکام کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے تاکہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے شرائط طے کی جا سکیں۔ قبل ازیں اسرائیلی وزیر خارجہ گدعون ساعر نے کہا تھا کہ ایک اسرائیلی وفد مصر کا دورہ کرے گا تاکہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کے امکانات پر غور کیا جا سکے جو دو دن میں ختم ہونے والی ہے۔
مصری حکام نے میڈیا کو بتایا کہ اسرائیل پہلے مرحلے کی جنگ بندی میں توسیع کا خواہاں ہے اور ہر ہفتے تین اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرنے پر آمادہ ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ اگر ہفتے کے روز جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ختم ہو گیا اور کسی معاہدے پر اتفاق نہ ہوا تو صورتحال کس رخ اختیار کرے گی۔ دوسری طرف اسرائیل میں عوام جنگ بندی جاری رکھنے اور یرغمالیوں کی رہائی پر زور دے رہے ہیں جکہ دائیں بازو کے شدت پسند عناصر غزہ میں جنگ شروع کرنے اور فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے حق میں ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اور حماس کے درمیان دوسرے مرحلے کے کے دوسرے مرحلے جنگ بندی کے قاہرہ میں
پڑھیں:
اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط
ایک اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹ نے اتوار کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے چار ناقابل قبول اسرائیلی شرائط کا انکشاف کیا۔ اسلام ٹائمز۔ آج بروز اتوار، ایک اسرائیلی میڈیا چینل نے غزہ میں نسل کشی کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی چار ناقابلِ قبول شرائط کو بے نقاب کیا۔ فارس نیوز مطابق، اسرائیلی چینل i24NEWS نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کا خاتمہ اسرائیل کی درج ذیل چار شرائط کی تکمیل پر منحصر ہے، تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، حماس کا مکمل طور پر اقتدار سے دستبردار ہونا، غزہ پٹی کا مکمل غیر مسلح ہونا اور حماس کے درجنوں رہنماؤں کو ملک بدر کرنا۔ یہ شرائط ایسے وقت میں پیش کی جا رہی ہیں جب حماس کئی بار واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی جنگ کے خاتمے سے مشروط ہے، اور وہ مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے یا اپنے رہنماؤں کو وطن سے نکالنے کی شرائط کو قبول نہیں کرے گی۔
اس سے قبل، حماس کے ایک رہنما نے المیادین ٹی وی کو بتایا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا اور اس کی غزہ میں واپسی کو روکنا اسرائیل کے پیش کردہ جنگ بندی کے منصوبے کا مرکزی نکتہ ہے، جبکہ اس میں مستقل جنگ بندی یا اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی جیسے بنیادی مطالبات شامل نہیں ہیں۔ اسرائیل صرف حماس سے قیدیوں کا کارڈ چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔ حماس نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ ایک جامع قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ جنگ مکمل طور پر بند کی جائے، اسرائیلی فوج غزہ سے نکل جائے، باریکے کی تعمیر نو کا آغاز ہو، اور محاصرہ ختم کیا جائے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم نے گزشتہ شب مظاہروں اور طوماروں کے باوجود جن پر عام شہریوں، ریزرو فوجیوں اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں نے دستخط کیے تھے تاکہ قیدیوں کی واپسی کے لیے جنگ بندی کی جائے کہا کہ ہمارے پاس فتح تک جنگ جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم ایک نازک مرحلے میں ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حماس نے زندہ قیدیوں میں سے نصف اور کئی ہلاک شدگان کی لاشوں کی رہائی کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہ دعویٰ ایسی حالت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے جمعرات کی شب اعلان کیا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ فوری طور پر ایک جامع پیکیج مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
اس پیکیج میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، متفقہ تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، مکمل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی انخلاء، تعمیر نو کی بحالی اور محاصرہ ختم کرنا شامل ہیں۔ خلیل الحیہ، جو مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ غزہ سے متعلق جزوی معاہدے دراصل نیتن یاہو کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں، جو جنگ، نسل کشی اور بھوک کے تسلسل پر مبنی ہے۔