جنوبی افریقہ، کولمبیا اور ملائشیا کے سربراہان نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو نسلی صفائی قرار دیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
امریکی میگزین "فارن پالیسی” کی طرف سے شائع ہونے والے مشترکہ مضمون میں تینوں رہنماؤں نے غزہ کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کو "نسلی صفائی” اور بین الاقوامی قانون کی بنیادوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ اسلام ٹائمز۔ جنوبی افریقہ، کولمبیا اور ملائشیا کے سربراہان نے ایک مشترکہ بیان میں غزہ کو عالمی نظام کا قبرستان قرار دیا ہے۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم، کولمبیا کے صدر گسٹاو پیٹرو اور جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی تباہی کی جنگ بین الاقوامی نظام کی ناکامی کو ثابت کرتی ہے۔امریکی میگزین "فارن پالیسی” کی طرف سے شائع ہونے والے مشترکہ مضمون میں تینوں رہنماؤں نے غزہ کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کو "نسلی صفائی” اور بین الاقوامی قانون کی بنیادوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ رہنماؤں نے اپنے مضمون کا آغاز ایک سوال کے ساتھ کیا کہ "بین الاقوامی نظام میں کیا بچا ہے؟ بیان میں کہا گیا ہے کہ 500 دنوں سے زیادہ عرصے سے اسرائیل جسے طاقتور ممالک کی حمایت حاصل ہے وہ سفارتی کور، فوجی ساز و سامان اور سیاسی مدد فراہم سے غزہ میں منظم طریقے سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملی بھگت نے اقوام متحدہ کے چارٹر کی سالمیت اور انسانی حقوق، ریاستوں کے درمیان خود مختار مساوات، اور نسل کشی کی ممانعت سے متعلق اس کے بنیادی اصولوں کو ایک تباہ کن دھچکا پہنچایا ہے۔ ملائیشیا، کولمبیا اور جنوبی افریقہ کے رہنماؤں نے زور دے کر کہا کہ جو حکومت (غزہ میں) 61,000 لوگوں کے قتل کی اجازت دیتی ہے اسے محض ناکام قرار نہیں دیا جا سکتا، وہ پہلے ہی ناکام ہو چکی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بین الاقوامی جنوبی افریقہ قرار دیا
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کی فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول پر تنقید ‘مارکیٹ میں ڈالر کی قدرمیں نمایاں کمی
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )امریکی سٹاک مارکیٹ اور ڈالر کی قدر میں ایک بار پھر گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی مرکزی بینک کے سربراہ کو شرح سود میں کمی نہ کرنے پر ایک مرتبہ پھر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ایک شکست خوردہ اورنقصان پہنچانے والا شخص قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹانے کی بات کی. صدر ٹرمپ نے ”ٹروتھ“پر اپنی پوسٹ میں فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول سے مطالبہ کیا کہ وہ معیشت کو فروغ دینے میں مدد کے لئے شرح سود میں پیشگی کمی کریں کیونکہ معیشت اس وقت تک سست روی کا شکار رہے گے کہ جب تک معیشت کو نقصان پہنچانے والے ”مسٹر ٹو لیٹ“ شرح سود میں کمی نہیں کرتے.(جاری ہے)
ٹرمپ کی جانب سے پاول کے امریکی معیشت کو سنبھالنے کے طریقہ کار پر تنقید ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب محصولات کے حوالے سے ان کے اپنے منصوبوں کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان بڑھ گیا ہے امریکی صدر اور امریکی مرکزی بینک کے سربراہ کے درمیان جاری کشمکش نے نے مارکیٹ میں افراتفری میں اضافہ کر دیا ہے واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران فیڈرل ریزرو کی قیادت کے لیے جیروم پاول کو نامزد کیا تھا.
ڈالر انڈیکس کے مطابق یورو سمیت کئی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں 2022 کے بعد اب تک کی سب سے کم ترین ترین سطح پر آگیا ہے امریکی حکومت کے قرضوں پر شرح سود میں بھی اضافہ ہوا ہے پاول پر ٹرمپ کی تنقید ان کی پہلی مدت صدارت سے شروع ہوئی تھی جب انہوں نے مبینہ طور پر انہیں برطرف کرنے کے بارے میں بھی بات کی تھی. انتخابات جیتنے کے بعد صدر ٹرمپ نے پاول پر زور دیا ہے کہ وہ شرح سود میں کمی کریں امریکی صدر کی جانب سے پاول کو اب تنقید کا سامنا اس وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر کے حالیہ محصولات کے حوالے سے سامنے آنے والے احکامات سے متعلق متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ کے درآمدی ٹیکسوں سے قیمتوں میں اضافہ اور معیشت سست پڑنے کا امکان ہے. صدرٹرمپ نے گزشتہ ہفتے عوامی سطح پر پاول کو برطرف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا بیان جاری کیا تھا کہ پاول کی برطرفی میں جلد بازی سے کام نہیں کا جاسکتا پاول نے گزشتہ سال صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ صدر کے پاس انہیں برطرف کرنے یا عہدے سے ہٹانے کا کوئی قانونی اختیار ہے لیکن امریکی صدر ٹرمپ کے ایک اعلیٰ اقتصادی مشیر نے اس بات کی تصدیق کی کہ حکام کی جانب سے پچھلے ہفتے کے اختتام پر اس آپشن کا جائزہ بھی لیا جا چکاہے. اگرچہ ڈالر اور امریکی حکومت کے بانڈز کو عام طور پر مارکیٹ میں مندی اور افراتفری کے وقت انتہائی محفوظ تصور کیا جاتا ہے لیکن اس موجودہ صورتحال میں ا نہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کی قدر میں بھی کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ ایک طرف امریکی اتحادیوں کی ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کی وجہ سے ناراضگی ہے تو دوسری جانب اضافی محصولات کے نفاذ سے سرمایہ کاروں میں بے یقینی پائی جارہی ہے جبکہ ٹرمپ انتظامیہ ابھی تک امریکا میں دنیا کی بڑی کارپوریشنزسے ٹیکسوں کی وصولی اور سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے حوالے سے کوئی پالیسی سامنے نہیں لاسکی اور نہ ہی صدر ٹرمپ یا ان کی حکومت کے عہدیداروں کی جانب سے کوئی عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ دنیا کی 90فیصد سے زائددولت پر قابض ان عالمی کاپوریشنزکے حوالے سے کوئی پالیسی اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.