Juraat:
2025-04-22@14:22:13 GMT

رمضان سے پہلے گناہوں سے توبہ کریں!

اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT

رمضان سے پہلے گناہوں سے توبہ کریں!

مولانا محمد الیاس گھمن

٭قوم نوح نے اللہ کی نافرمانی کی نبی کے احکامات کی خلاف ورزی کی، طوفان کے عذاب میں مبتلا ہوئی ، تباہ ہوئی ٭احکامات الہٰیہ پر عمل کی دعوت اور منہیات الہیہ سے رکنے کی فکر ہر نبی نے اپنی قوم کو دی ہے

اللہ تعالیٰ ہمارے خالق بھی ہیں اور مالک بھی ہیں، خالق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم از خود نہیں بنے بلکہ اس ذات نے ہمیں وجود بخشا اور مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیں جس کام کا حکم دے اور جس بات سے رکنے کا کہے اس کی تمام باتوں کو ماننا ہمارے لیے ضروری ہے۔

دوسری بات یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ جن باتوں اور کاموں کا حکم دیتے ہیں ان میں خیر ہوتی ہے اور جن امور سے بچنے اور رکنے کا حکم دیتے ہیں ان میں شر ہوتا ہے، اگرچہ ظاہری طور پر دیکھنے کے اعتبار سے اس کے برخلاف بھی نظر آئے۔

جب تک کوئی قوم اللہ کے نازل کردہ احکامات پر چلتی رہتی ہے تب تک مجموعی طور اس پر تکالیف اور مصائب نہیں اترتیں لیکن جب اسی قوم کی اکثریت اللہ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی ہے تو خدا کی طرف سے مصائب و شدائد اس قوم کو گھیر لیتی ہیں،

قرآن کریم میں سابقہ امتوں کی تباہی، بربادی اور ہلاکت کے اسباب مذکور ہیں کہ فلاں قوم نے فلاں خدائی حکم سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر فلاں عذاب نازل فرمایا۔ شرک کے ساتھ سے بعض گناہ ایسے تھے جو ان قوموں میں موجود تھے ۔

٭قوم نوح نے اللہ کی نافرمانی کی نبی کے احکامات کی خلاف ورزی کی، طوفان کے عذاب میں مبتلا ہوئی ، تباہ ہوئی۔

٭قوم عاد نے اللہ کی نافرمانی کی تکبر کیا، تیز ہوا کے عذاب میں مبتلا ہوئی، تباہ ہوئی۔

٭قوم شعیب نے اللہ کی نافرمانی کی ناپ تول میں کمی کی، ان پر چیخ کا عذاب آیا، تباہ ہوئی۔

٭قوم ثمود نے اللہ کی نافرمانی کی لوگوں پر ظلم کیا چیخ کے عذاب میں مبتلا ہوئی، تباہ ہوئی۔

٭قوم لوط نے اللہ کی نافرمانی کی جنسی تسکین کا غیر فطری عمل کیا، پانی میں غرق،ان کی بستیوں کو الٹا دیا گیا اور پتھروں کے عذاب میں مبتلا ہوئی، تباہ ہوئی۔

٭بنی اسرائیل نے اللہ کی نافرمانی کی،دینی احکامات کی غلط تعبیرات کیں، ظالم بادشاہ کے مظالم کا شکار ہوئی، تباہ ہوئی۔

٭قوم سبا نے اللہ کی نافرمانی کی،ناشکری کی، ان پر سیلاب کا عذاب آیا، تباہ ہوئی۔

قرآن کریم محض قصے کہانیوں کی کتاب نہیں جس میں قصہ برائے قصہ ہو بلکہ یہ کتاب عبرت کا درس دیتی ہے، انسان کو سوچنے کی دعوت فکر دیتی ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی نافرمان قوموں کو ہلاک فرما دیتے ہیں، فلاں قوم نے فلاں حکم خداوندی کی خلاف ورزی کی، تو ان کو فلاں عذاب کے گھاٹ اتار دیاگیا، لہذا تم ان گناہوں سے خود کو بچانا۔

احکامات الہٰیہ پر عمل کی دعوت اور منہیات الہیہ سے رکنے کی فکر ہر نبی نے اپنی قوم کو دی ہے، خصوصاً جناب نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کی بہت تلقین فرمائی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے امت کو یہی تعلیم دی ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں:جب کسی قوم میں حرام مال عام ہو جائے، تو اللہ رب العزت ان کے دلوں میں خوف اور دہشت بٹھا دیتے ہیں، اور جب کسی قوم میں زنا(بدکاری)عام ہو جائے تو ان میں موت کی کثرت ہو جاتی ہے اور حادثاتی اموات پھیل جاتی ہیں، اور جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے تو ان کے رزق کوگھٹا دیا جاتا ہے اور جب کوئی قوم ظلم و ناانصافی کرنے لگے تو ان میں قتل و قتال عام ہوجاتا ہے، اور جب کوئی قوم وعدہ خلافی(عہد شکنی)کے جرم کا ارتکاب کرتی ہے تو ان پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔ (موطا امام مالک، رقم الحدیث: 1325)
حدیث مبارک کو بار بار پڑھیں اور پھر ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ آج وہ کون سا جرم ہے جو ہم نہیں کر رہے؟

مال کمانے میں حلال حرام کی تمیز اٹھ چکی ہے، جائز اور ناجائز سب کچھ چلتا ہے، سود، رشوت، ناحق غصب، لوٹ کھسوٹ، چوری چکاری، ڈکیتی اور فراڈ بازی عام ہے، ہر شخص دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے دلوں میں بزدلی، مرعوبیت، خوف اور دہشت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

زنا تو ہمارے معاشرے کا ایک فیشن بن چکا ہے، زانی شخص اسے اپنے لیے فخر کی بات سمجھتا ہے، دوستوں میں بیٹھ کربڑی دیدہ دلیری سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کہ میں نے فلاں سے العیاذ باللہ زنا کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر مصیبت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتا ہے، ساری زندگی کے لیے اس کے خاندان کو کہیں منہ دکھانے کا نہیں چھوڑتا، اس کا مستقبل برباد کر دیتا ہے۔ کسی کی عزت کو داغدار کرنا ہی بہت بڑا جرم ہے، خدانخواستہ اگر کبھی عورت کے دل میں شیطان غلبہ پالے اور وہ باوجود پیکر عفت ہونے کے از خود اس گناہ کی دعوت دے تو شریعت کا حکم ہے اس وقت اس سے کہا جائے کہ انی اخاف اللہ۔ میں اس بارے اللہ سے ڈرتا ہوں۔ بہت صبر آزما مرحلہ ہے لیکن اس کی جزا بہت بڑی ہے چنانچہ قیامت کے دن جب سورج بہت ہی قریب ہوگا اور روز حشر کی گرمی لوگوں کو جھلسا رہی ہو گی اس وقت اللہ کریم ایسے شخص کو اپنے عرش کا سایہ فراہم کریں گے۔

زنا سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اسباب زنا چھوڑ دے، نامحرم کو دیکھنا، ملنا ملانا، میسجز کرنا، کال کرنا، میل ملاپ رکھنا، فلمیں، ڈرامے، موسیقی، گانے، غزلیں سننا اور دیکھنا۔ اپنی آنکھوں کی حفاظت کرے، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں اور زنا جیسی لعنت سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔ جب تک انسان بدنظری نہیں چھوڑتا؛ زنا سے بچنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس گناہ کی نحوست اور لازمی نتیجہ کثرت سے اموات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ باہمی لڑائیاں، بیماریاں اور قدرتی آفات پھیل جاتی ہیں اور حادثاتی طور پر مرنے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

حرص و ہوس ایسا مرض ہے جو انسان کو گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ شروع میں یہ ایک نفسانی خواہش ہوتی ہے پھر دھیرے دھیرے اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے وہ اس کی زندگی کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔ اس کی طبیعت اور فطرت لالچ بن جاتی ہے۔
حدیث مبارک میں دراصل تاجروں کی ایک گندی خصلت کا تذکرہ ہے کہ وہ چند روپوں کی خاطر ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، خرید و فروخت کے وقت جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں، دھوکہ دہی سے کام لیتے ہیں۔ مال تو بک جاتا ہے لیکن مال کے بکنے سے پہلے انسان کا ایمان بھی بک چکا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے گھروں میں خیر باقی نہیں رہتی۔ مال کی کثرت کے باوجود اس میں برکت نظر نہیں آتی۔ اسباب تعیش کے باوجود راحت مقدر نہیں بن سکتی۔

ظلم اور ناانصافی اس وقت ہمارے پورے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ شمار کیا جاتا ہے۔ انسان میں ظلم و انصافی کا مرض اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ طاقت اور اقتدار کے نشے میں مست ہو جاتا ہے اور خوف خدا اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ غلبہ و دبدبہ کا زعم اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کردیتا ہے۔ مخلوق خدا کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کرنا شروع کر دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ تو مخالفین کے ساتھ معاملات کے نازک موقع پر بھی عدل کا حکم دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:کسی قوم سے دشمنی تمہیں عدل و انصاف کی خلاف ورزی پر مجبور نہ کرے۔ عدل کرو۔ لیکن جب ظلم پل کر جوان ہوتا ہے تو وہ معاشرے سے امن و سکون، عدل و انصاف، راحت و سرور اور خوشحالی و ترقی کو مار ڈالتا ہے۔ اس کے دست ستم سے معاشرہ زخموں سے بری طرح گھائل ہو جاتا ہے، قتل و قتال عام ہو جاتا ہے۔ بالخصوص جب کسی شخص کو فریقین کے درمیان قاضی یا جج بنایا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ انصاف اور عدل سے کام لے، ظلم و انصافی سے گریز کرے۔ ورنہ اس کا یہ جرم صرف اس کی ذات کی حد تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا وبال پورے معاشرے پر پڑے گا۔ آج کی دنیا انسانی تمدن و اخلاقیات کو بھلائے جا رہی ہے، ستم یہ ہے کہ بدعہد شخص خود کو چالاک شاطر اور چرب لسان سمجھ کر دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے، اپنی بات سے پھر جانا ایک معمول سا بنتا جا رہا ہے۔ انسانی اقدار اور اخلاقی قدریں اس قدر کھوکھلی ہو چکی ہیں دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے دیندار وضع قطع والے لوگ اس زوال کو اپنا کمال سمجھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مجھے، آپ کو اور پوری امت مسلمہ کو عذاب کے اسباب سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسی تمام باتوں سے محفوظ فرمائے جو بندے کو عذاب کا مستحق بنا دیتی ہیں۔ رمضان المبارک آ رہا ہے اس میں پوری قوم اللہ کے حضور معافی مانگے، تمام گناہوں سے سچی توبہ کرے اور گناہوں کی وجہ سے آنے والے تمام مصائب و عذاب سے پناہ مانگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: نے اللہ کی نافرمانی کی کے عذاب میں مبتلا ہوئی کی خلاف ورزی احکامات کی اللہ تعالی تباہ ہوئی دیتے ہیں کوئی قوم یہ ہے کہ کے ساتھ جاتا ہے کی دعوت ہوتا ہے ہے اور اور جب عام ہو کا حکم

پڑھیں:

یہودیوں کا انجام

دنیا ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں حق اور باطل کی جنگ واضح ہو چکی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر بہنے والا معصوم خون، بچوں کی لاشیں، ماں کی آہیں اور بے گھر ہوتے خاندان ہمیں ایک بار پھر اس یاد دہانی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اللہ کی پکڑ بھی قریب آ جاتی ہے۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور ایمانی آزمائش بھی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق یہودیوں کا ماضی، حال اور مستقبل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی سرکشی، ان کی نافرمانیاں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے ساتھ ان کے سلوک کا بارہا ذکر آیا ہے۔ ان کی فطرت میں دھوکہ، فریب، اور سازش شامل ہے۔ انہوں نے نہ صرف اللہ کے انبیا ء کو جھٹلایا بلکہ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک وقت کی نشاندہی فرمائی ہے جب یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ اس وقت حق اور باطل کا آخری معرکہ ہو گا جسے ’’ملحمہ کبریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس معرکے میں مسلمان غالب آئیں گے اور اللہ کے وعدے کے مطابق زمین پر عدل اور انصاف قائم ہو گا۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں، اور مسلمان انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے مگر وہ درخت اور پتھر بھی پکار اٹھیں گے: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آئو اور اسے قتل کرو، سوائے ’’غرقد‘‘ کے درخت کے، کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔(صحیح مسلم: 2922)
یہ حدیث نہ صرف مستقبل کے ایک یقینی واقعے کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہودیوں کا انجام عبرتناک ہو گا۔ وہ جہاں بھی چھپیں گے قدرت انہیں بے نقاب کر دے گی۔یہ حدیث ہمیں نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ یہودیوں کا انجام تباہی ہو گا بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اس معرکے میں اللہ کی قدرت براہِ راست کام کرے گی۔ یہاں تک کہ جمادات(درخت اور پتھر) بھی بول اٹھیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک الہامی سچائی ہے جس پر ہمیں کامل یقین رکھنا ہے کیونکہ یہ بات بات دنیا کے سب سے عظیم ، سچے انسان اور خاتم النبیین جناب محمد الرسول اللہ نے ارشاد فرمائی ہے۔
فلسطین میں ہونے والی نسل کشی انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن چکی ہے۔ ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام، ہسپتالوں، مساجد اور سکولوں پر بمباری، اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنگ صرف زمینی نہیں بلکہ ایمانی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ وہ طاقت کب، کہاں اور کیسے مسلمانوں کو حاصل ہو گی جس کے ذریعے وہ یہودیوں کو شکست دیں گے؟ اس کا جواب بھی قرآن اور سنت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں’’ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم‘‘ (سورۃ محمد: 7)
ترجمہ: اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔یعنی جب مسلمان دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوں گے، جب وہ فرقوں، تعصبات، اور دنیاوی لالچ سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے تب ہی اللہ کی نصرت نازل ہو گی۔میرا رب وہ ہے جو تقدیر بھی بدلتا ہے اور حالات بھی۔ غم کا موسم کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ مگر یہ معرکہ جسے ہم دیکھ رہے ہیں اس نے نہ صرف دشمن کو بے نقاب کیا ہے بلکہ ہمارے اپنے مسلمان حکمرانوں کو بھی۔ وہ حکمران جن کی زبانیں خاموش، ضمیر مردہ اور آنکھیں بند ہیں۔ جن کے محلات تو چمک رہے ہیں مگر ان کے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ وہ یہودیوں کے سامنے اس لیے جھک چکے ہیں کیونکہ انہیں مسلمانوں کی جانیں اور عزتیں نہیں بلکہ اپنی بادشاہتیں، اپنی دولت اور دنیاوی آسائشیں عزیز ہیں۔یہی معرکہ ہم عام مسلمانوں کے ایمان کا بھی امتحان ہے۔ اربوں کی تعداد میں ہم مسلمان دنیا بھر میں بستے ہیں مگر افسوس کہ ہمارا طرزِ زندگی، ہماری خریداری، ہماری ترجیحات سب اسرائیل کی مدد کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہم ان ہی یہودی مصنوعات کو خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیل کے فوجی بجٹ میں شامل ہوتا ہے۔ہم میں سے کتنے ہی افراد روزانہ یہودی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم انہی کمپنیوں کی چیزیں خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیلی فوج کے اسلحہ اور بارود پر خرچ ہوتا ہے۔ ہم اپنی لاعلمی، غفلت یا لاپرواہی کے باعث اس ظلم میں شریک ہو رہے ہیں۔ ہم خود اپنے ہاتھوں سے ان ظالموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو ہمارے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں۔افسوس، صد افسوس! کہ ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹس اور احتجاج تک محدود ہو چکے ہیں جبکہ عمل کے میدان میں ہماری موجودگی ناپید ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے خود کو بدلیں، اپنی ترجیحات کو ایمان کی روشنی میں دیکھیں، اور ہر وہ قدم اٹھائیں جو ظالم کی طاقت کو کمزور کرے۔اللہ کی مدد صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جو خود کو اس کے دین کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ہمیں آج سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم صرف باتوں سے نہیں، بلکہ عمل سے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اپنے گھر سے، اپنی خریداری سے، اپنی دعائوں سے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہوں گے۔دنیا اس وقت ظلم، فتنہ اور نفاق کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر جو خون بہایا جا رہا ہے جو لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور جو بچے ماں کی گود سے چھینے جا رہے ہیں تاریخِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک منظم نسل کشی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دنیا بالخصوص مسلم حکمران تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔یہودیوں کا انجام اللہ کے فیصلے کے مطابق ہونا ہے۔ مگر وہ دن کب آئے گا؟ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان کب جاگتے ہیں؟ کب ہم دنیا کی محبت اور موت کے خوف کو ترک کر کے اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں؟ کب ہم قرآن کو صرف ثواب کے لیے نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے پڑھنا شروع کرتے ہیں؟یقین رکھیں! وہ وقت ضرور آئے گا جب ہر درخت اور پتھر بھی گواہی دے گا، اور مظلوموں کے آنسو ظالموں کے لیے آگ بن جائیں گے۔یہودیوں کا انجام طے شدہ ہے لیکن اس انجام کو لانے کے لیے ہمارا کردار کیا ہو گا؟ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ضرورت ہوئی تو مزید قانون سازی کریں گے ،وزیر قانون
  • تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے پر مذاکرات میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے.بھارتی وزیراعظم اورامریکی نائب کی ملاقات
  • نئے پوپ کا انتخاب کیسےکیا جاتا ہے؟
  • بنگلہ دیش کی ٹیم اپنے ہی میدان پر ریت کی دیوار ثابت
  • نظام کی بہتری کے لیے 26 ویں ترمیم کی گئی، ضرورت ہوئی تو مزید قانون سازی کریں گے، وزیر قانون
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • ہمارے خلاف منصوبے بنتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں آؤ ہم سے بات کرو، سلمان اکرم راجہ
  • یہودیوں کا انجام
  • ستاروں کی روشنی میں آج بروزاتوار،20اپریل 2025 آپ کا کیرئر،صحت، دن کیسا رہے گا ؟
  • لیسکو چیف رمضان بٹ کا دورہ ’’نوائے وقت دفتر‘‘ ایم ڈی رمیزہ نظامی سے ملاقات