Islam Times:
2025-04-22@14:24:16 GMT

دیر قانون گاوں کا روشن ستارہ

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

دیر قانون گاوں کا روشن ستارہ

اسلام ٹائمز: یہ سرزمین سید ہاشم صفی الدین کی یادیں لیے ہوئے ہے۔ جنوبی لبنان کا ایک گاوں جو آج ایسے مرد سے الوداع کے مناظر پیش کر رہا ہے جو نہ صرف حزب اللہ لبنان بلکہ پورے اسلامی مزاحمتی بلاک میں ایک تھم کی حیثیت رکھتا تھا۔ سید ہاشم کا زرد رنگ کا تابوت عوام کے سمندر میں بہتا جا رہا ہے۔ چہرے غمگین ہیں لیکن ان کا دکھ سرتسلیم خم کرنے والا نہیں ہے۔ یہاں آنسووں کا مطلب اختتام نہیں بلکہ ایک قسم کی بیعت ہے۔ ایسا عہد جو شہداء کے خون سے باندھا گیا ہے۔ دیر قانون النہر ایسے مرد کی جائے پیدائش ہے جو کئی سالوں سے حزب اللہ کی پہلی صف میں کھڑا رہا۔ وہی عوام جو جنگوں اور محاصروں میں اسلامی مزاحمت کے ساتھ تھے اب اس کے ایک کمانڈر کے سوگ میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان لمحات میں دیر قانون کے کوچوں میں لبیک یا حسین کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔ تحریر: عبدالرضا ہادی زادہ
 
کل صبح ہم جنوبی لبنان کی جانب روانہ ہوئے، ایسی سرزمین جس کا چپہ چپہ مزاحمت کی خوشبو دیتا ہے، وہ جگہ جہاں کچھ عرصہ پہلے اسرائیل کی آمدورفت جاری تھی لیکن آج اسے وہاں سے قریب آنے کی جرات بھی نہیں ہے۔ جنوب کی بل کھاتی سڑکیں ایسی کہانی لیے ہوئے ہیں جن کا ذکر کتابوں میں کم ہوا ہے۔ ایسی سرزمین کی کہانی جو 1980ء کے عشرے میں اسرائیلی مرکاوا ٹینکوں کی آماج گاہ بنی ہوئی تھی لیکن آج اسلامی مزاحمت کی طاقت کی برکت سے سرحدی علاقے دشمنوں کے خوف اور اور ناامنی کی علامت بن چکے ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ شہداء، سید حسن نصراللہ، سید ہاشم صفی الدین اور سید عباس موسوی سے لے کر عماد مغنیہ اور ایسے شہداء کی تصاویر لگی تھیں جنہیں آسمانے والے زمین والوں سے کہیں زیادہ بہتر پہچانتے ہیں۔
 
یہاں اسلامی مزاحمت محض ایک سیاسی تصور یا فوجی گروہ کا نام نہیں بلکہ ایسی ثقافت کا نام ہے جو عوام کی رگوں میں جاری و ساری ہے۔ چھوٹے دیہاتوں سے لے کر اسٹریٹجک اہمیت کے حامل شہروں جیسے بنت جبیل اور مارون الراس تک آپ جسے بھی دیکھیں گے وہ گویا جنگ کی ایک یاد، مزاحمت کا ایک قصہ اور تاریخ سے ایک درس اپنے دل میں سمویا ہو گا۔ ہم مقبوضہ فلسطین کی سرحد کے قریب مارون الراس والے علاقے میں پہنچتے ہیں، یہ وہ جگہ ہے جو ایران پارک کے نام سے معروف ہے۔ ہم نے مقبوضہ فلسطین کی سرحد کے قریب ایران کا نام اور پرچم دیکھ کر فخر کا احساس کیا۔ یہ احساس بھی امام خمینی رح کی وحدت بخش آواز کے باعث تھا جس میں انہوں نے کہا: "اے رسول اللہ کے فرزندو، کیا آپس میں متحد ہونے کا وقت نہیں آیا؟"
 
سرحد کے اس پار اسرائیل کے واچ ٹاور صاف دکھائی دے رہے تھے۔ ایک دن وہ بھی تھا جب اسی جگہ اسرائیلی فوجی آسانی سے آمدورفت کرتے نظر آتے تھے۔ لیکن آج حتی اپنے فوجی اڈوں میں بھی بہت زیادہ احتیاط سے آتے جاتے ہیں۔ وہ اسرائیل جو خود کو خطے کی طاقتور ترین فوج کا مالک گردانتا تھا اس وقت اسلامی مزاحمت کے مجاہدین کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتا، وہ بھی ایسے وقت جب اسلامی مزاحمت کے اہم مرکزی رہنما شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج اپنے مورچوں تک پیچھے ہٹ گئی ہے۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ سرحدی علاقے کی صورتحال تقریباً غزہ کی صورتحال جیسی ہو گئی ہے۔ رہائشی عمارتیں اور دیگر انفرااسٹرکچر پوری طرح تباہ ہو گیا ہے اور مٹی کا ڈھیر بن گیا ہے۔ اگرچہ تباہ شدہ علاقے اپنی وسعت کے لحاظ سے غزہ سے قابل موازنہ نہیں ہیں۔
 
سرحد سے کچھ ہی فاصلے پر تباہی کے مناظر میں بہت حد تک کمی آ جاتی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے ذرائع کے بقول ابھی 80 شہداء کے جنازے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ جنوبی لبنان ایک حقیقت ثابت کرنے کی حقیقی تجربہ گاہ ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ سازباز ہر گز راہ حل نہیں ہے اور آئندہ بھی نہیں ہو گا۔ مزاحمت ہی صرف وہ زبان ہے جسے اسرائیل سمجھتا ہے۔ وہ جو ایک دن "زمین کے بدلے صلح" کا نعرہ لگاتے تھے آج لبنان کے تجربے پر اس حقیقت کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اسرائیل صرف اس صورت میں پیچھے ہٹتا ہے جب اپنے سے برتر طاقت اس کے مقابلے میں اترتی ہے۔ 2000ء میں جب اسرائیلی فوجیوں نے کسی معاہدے کے بغیر لبنان سے فرار کیا سے لے کر 2006ء کی جنگ تک اسرائیل حتی ایک فوجی کامیابی بھی حاصل نہیں کر پایا ہے۔
 
ابھی چند دن پہلے ہی انہوں نے فرار کرنے کو مقابلہ کرنے پر ترجیح دی ہے اور یہ حقیقت اب تک بارہا دہرائی جا چکی ہے۔ جنوبی لبنان میں زندگی جاری و ساری ہے لیکن خوف و ہراس کے سائے تلے نہیں بلکہ اقتدار کی سائے تلے۔ عوام شاید اقتصادی لحاظ سے مشکلات کا شکار ہوں لیکن سلامتی اور عزت کے ساتھ ان کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اس سرزمین کے بچے مقبوضہ فلسطین میں اپنے ہم عمر بچوں کے برعکس ایسے اسکول جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں جو اسرائیل کے زیر کنٹرول نہیں بلکہ آزاد شدہ سرزمین میں واقع ہیں۔ جنوبی لبنان نے ثابت کر دیا ہے کہ آزادی دی نہیں جاتی بلکہ اسے جنگ کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت وہ دو خواتین اور ایک مرد بیان کر رہے ہیں جو اپنا تباہ شدہ گھر دیکھنے کے لیے مارون الراس آئے ہوئے ہیں۔
 
ہم سردی سے بچنے کے لیے ویگن میں پناہ حاصل کرتے ہیں تاکہ اسلامی دنیا کے ایک معروف ہیرو کی جائے پیدائش کا سفر کر سکیں۔ یہ سرزمین سید ہاشم صفی الدین کی یادیں لیے ہوئے ہے۔ جنوبی لبنان کا ایک گاوں جو آج ایسے مرد سے الوداع کے مناظر پیش کر رہا ہے جو نہ صرف حزب اللہ لبنان بلکہ پورے اسلامی مزاحمتی بلاک میں ایک تھم کی حیثیت رکھتا تھا۔ سید ہاشم کا زرد رنگ کا تابوت عوام کے سمندر میں بہتا جا رہا ہے۔ چہرے غمگین ہیں لیکن ان کا دکھ سرتسلیم خم کرنے والا نہیں ہے۔ یہاں آنسووں کا مطلب اختتام نہیں بلکہ ایک قسم کی بیعت ہے۔ ایسا عہد جو شہداء کے خون سے باندھا گیا ہے۔ دیر قانون النہر ایسے مرد کی جائے پیدائش ہے جو کئی سالوں سے حزب اللہ کی پہلی صف میں کھڑا رہا۔ وہی عوام جو جنگوں اور محاصروں میں اسلامی مزاحمت کے ساتھ تھے اب اس کے ایک کمانڈر کے سوگ میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان لمحات میں دیر قانون کے کوچوں میں لبیک یا حسین کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی مزاحمت کے نہیں بلکہ ایسے مرد سید ہاشم حزب اللہ نہیں ہے گیا ہے رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

بلوچستان کو خیرات نہیں، بلکہ حقوق دیں، مولانا ہدایت الرحمان

جعفر آباد میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا کہ ہم اسمبلی کے اندر ہو یا باہر عوام کے حقوق کے تحفظ، لاپتہ افراد کی بازیابی، کاروبار روزگار، بارڈر کھولنے اور ترقی و خوشحالی کی جدوجہد کرتے رہینگے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی بلوچستان و رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں عوام کے ووٹوں اور عوام کے منتخب نمائندوں کے بجائے ڈنڈے کی حکمرانی ہے۔ بلوچستان کے عوام کو غیرت و ایمانداری اور اخلاص کیساتھ وسائل، چادر و چار دیواری کے تحفظ اور حقوق کے حصول، لاپتہ افراد کی بازیابی کی لڑائی لڑنی ہے۔ بلوچستان کو بند کرکے ریگستان بنانا دانشمندی نہیں، طاقت کے بل بوتے پرعوام کے دل نہیں جیتے جاسکتے اور نہ ہی حکمرانی ممکن ہے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی،بے گناہ قیدیوں کی رہائی، روزگار کاروبار کے تحفظ کیلئے ہم لڑیں گے۔ ہم اسمبلی کے اندر ہو یا باہر عوام کے حقوق کے تحفظ، لاپتہ افراد کی بازیابی، کاروبار روزگار، بارڈر کھولنے اور ترقی و خوشحالی کی جدوجہد کرتے رہیں گے۔ کسی کا ڈکٹیشن دباؤ قبول کریں گے نہ ضمیر کا سودا کرکے بدعنوانی کر سکتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جعفرآباد میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کنونشن سے نائب امیر جماعت اسلامی بلوچستان پروفیسر محمد  ایوب منصور، میر خرم فتح بھنگر و دیگر نے خطاب کیا۔ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ بلوچستان کے وسائل شیر مادرسمجھ کر لوٹے جارہے ہیں اورہمیں اپنے وسائل دینے کیلئے تیار نہیں۔ خیرات و بچت کے بجائے جائز حقوق دیئے جائیں۔ چادر و چار دیواری کا سودا نہیں کرنے دیں گے۔ پی ایس ڈی پی کے فنڈز کیلئے کسی صورت خاموش نہیں رہیں گے۔ سخت بات کرنے پر فنڈز رکھوانے کی باتیں سن رہا ہوں۔ فنڈز بند ہوں گے یا کوئی اور دھمکی دیں گے، غیرت و ہمت اور تحفظ پر کوئی کمپرومائزن ہیں کرونگا۔ عوام اور سرزمین کیلئے جان دینے کیلئے تیار ہوں۔ جماعت اسلامی سرداروں ظالموں سرمایہ داروں اورخاندان کی موروثی پارٹی نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لبنان: اسرائیلی ڈرون حملے میں جماعت اسلامی کے رہنما شہید
  • غیر مسلم آبادی والے ملک میں اسلامی تدفین کا قانون نافذ
  • یہ سونا بیچنے کا نہیں بلکہ خریدنے کا وقت ہے، مگر کیوں؟
  • غیر مسلم آبادی والے ملک میں اسلامی تدفین کا قانون نافذ 
  • بچوں کے روشن مستقبل کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائیگا :  پولیو کے مکمل خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے : وزیراعظم : لاہور سے باکو پیآئی اے کی براہ ست پر وازوں کا آگاز سفارتی فتح قرار
  • تحریک طالبان پاکستان کا بیانیہ اسلامی تعلیمات، قانون، اخلاقیات سے متصادم قرار
  • بلوچستان کو خیرات نہیں، بلکہ حقوق دیں، مولانا ہدایت الرحمان
  • یہودیوں کا انجام
  • ہمارے حکمران اور سیاستدان اُمت مسلمہ سے نہیں ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 
  • جواہر لال نہرو سے صرف خاندانی وراثت نہیں بلکہ سچائی اور حوصلے کا سبق بھی ملا، راہل گاندھی