پاکستان کی جمہوریت کی درجہ بندی میں نیچے ،دنیا کے 10 بدترین کارکردگی دکھانے والے ممالک میں شامل، رپورٹ دیکھیں
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
پاکستان کی جمہوریت کی درجہ بندی 2024 میں چھ درجے نیچے گر گئی ہے اور اسے ”دنیا کے 10 بدترین کارکردگی دکھانے والے ممالک“ میں شامل کیا گیا ہے۔
اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی جانب سے جاری کردہ جمہوریت کے انڈیکس کی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔
رپورٹ میں 165 آزاد ریاستوں اور 2 علاقوں میں جمہوریت کے رجحانات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ انڈیکس پانچ اہم شعبوں پر مبنی ہے، انتخابی عمل اور کثرتیت، حکومت کی کارکردگی، سیاسی شرکت، سیاسی ثقافت، اور شہری آزادیوں کا تحفظ۔ ہر ملک کو اس کے اسکور کے مطابق چار قسم کے نظاموں میں تقسیم کیا گیا ہے، یعنی مکمل جمہوریت، عیب دار جمہوریت، ہائبرڈ نظام یا آمرانہ حکومت۔
رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر جمہوریت میں مجموعی طور پر کمی دیکھی گئی اور پاکستان کو عالمی درجہ بندی میں 124 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے جس کا مجموعی اسکور 2.
عالمی انڈیکس میں کمی کی وجہ ”آمرانہ حکومتوں کے اسکور میں مزید خرابی“ کو قرار دی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ حالیہ برسوں میں یہ رجحان واضح ہوا ہے کہ آمرانہ حکومتیں وقت کے ساتھ مزید آمرانہ بنتی جا رہی ہیں۔
رپورت میں کہا گیا ہے کہ ہمارے انڈیکس کے مطابق دنیا کی ایک تہائی (39.2 فیصد) آبادی آمرانہ حکمرانی کے تحت زندگی گزار رہی ہے اور یہ تناسب حالیہ برسوں میں بڑھ رہا ہے۔ اب 60 ممالک کو ’آمرانہ حکومتیں‘ قرار دیا گیا ہے۔
ای آئی یو کی رپورٹ میں علاقائی تجزیہ بھی شامل تھا جس میں کہا گیا کہ ایشیا اور آسٹریلیشیا میں اوسط انڈیکس اسکور 2024 میں مسلسل چھٹے سال کم ہو کر 5.41 سے 5.31 ہوگیا۔ بنگلہ دیش نے سب سے زیادہ تنزلی کا سامنا کیا، جب کہ جنوبی کوریا اور پاکستان میں بھی اہم کمی دیکھی گئی۔
”بنگلہ دیش، جنوبی کوریا اور پاکستان بدترین کارکردگی دکھانے والے ممالک تھے جن کی عالمی درجہ بندی میں بالترتیب 25، 10 اور 6 درجے تنزلی آئی۔“
رپورٹ کے مطابق دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی نے گزشتہ سال 70 سے زائد ممالک میں انتخابات میں حصہ لیا جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ آمرانہ حکومتوں میں دھاندلی جیسے مسائل کو خاص طور پر عام قرار دیا گیا۔
”ان میں سے کئی ممالک جیسے آذربائیجان، بنگلا دیش، بیلاروس، ایران، موزمبیق، پاکستان، روس اور وینیزویلا میں آمرانہ حکومتوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا۔“
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بنگلا دیش، بھارت، پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک کو انتخابی دھاندلی، فرقہ وارانہ سیاست اور سیاسی افراتفری جیسے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔
”جنوبی ایشیا میں 2024 کے انتخابات میں دھاندلی اور تشدد کا سامنا رہا۔ […] پاکستان کے عام انتخابات میں سیاسی دباؤ اور حکومتی مداخلت کے الزامات سامنے آئے۔“
رپورٹ میں کہا گیا کہ جنوبی ایشیا میں جمہوریت کے امکانات غیر یقینی ہیں اور مزید جموہریت کی ترقی کا انحصار سول سوسائٹی کے دباؤ اور سیاسی اداروں کی بڑھتی ہوئی کثرتیت اور شمولیت پر ہے۔
ڈیموکریسی انڈیکس کی ڈائریکٹر جوان ہوئے نے کہا،”اگرچہ آمرانہ حکومتیں طاقتور ہو رہی ہیں، جیسا کہ انڈیکس کے رجحان سے ظاہر ہوتا ہے، دنیا کی جمہوریتیں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔“
انہوں نے مزید کہا، ”اس طویل جموہری کمی کی وجوہات پیچیدہ ہیں اگر بغاوت کرنے والے اقتدار میں آکر حکمرانی میں بہتری لانے اور شہریوں کے لیے نمایاں بہتری لانے میں ناکام ہو جائیں تو سیاسی پولرائزیشن اور ناراضگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔“
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں کہا گیا کیا گیا ہے کہا گیا کہ رپورٹ میں کے مطابق کا سامنا
پڑھیں:
پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی ازسرنو تشکیل، علی امین گنڈاپور شامل نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی سیاسی کمیٹی کی ازسرنو تشکیل کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، جس میں سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا نام شامل نہیں ہے، کمیٹی کی تشکیل بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا اور رہنما فردوس شمیم نقوی نے کی۔
نوٹیفکیشن کے مطابق پی ٹی آئی کی نئی سیاسی کمیٹی میں مجموعی طور پر 23 سینئر رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے،کمیٹی کی قیادت چیئرمین گوہر علی خان اور سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا کریں گے۔
فہرست میں شامل نمایاں شخصیات میں فردوس شمیم نقوی، شیخ وقاص اکرم، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف علامہ راجا ناصر عباس، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف محمود خان اچکزئی اور سابق قومی اپوزیشن لیڈر عمر ایوب شامل ہیں۔
اسی طرح سابق سینیٹ اپوزیشن لیڈر شبلی فراز، پنجاب اسمبلی اپوزیشن لیڈر معین قریشی، سابق اپوزیشن لیڈر پنجاب ملک احمد خان بھچر، اوورسیز چیپٹر کے سیکریٹری سجاد برکی، پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ، جنید اکبر، حلیم عادل شیخ اور داؤد کاکڑ کو بھی کمیٹی کا حصہ بنایا گیا ہے۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی نمائندگی خالد خورشید اور سردار قیوم نیازی کریں گے جبکہ سابق اسپیکر اسد قیصر، چیف وہپ قومی اسمبلی عامر ڈوگر، سینیٹ کوآرڈینیٹر فوزیہ ارشد، خواتین ونگ کی صدر کنول شوزب اور اقلیتی ونگ کے صدر لال چند ملہی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ سیاسی کمیٹی پارٹی کا اعلیٰ ترین فیصلہ ساز فورم ہوگی، جو تمام پالیسی سازی، اہم سیاسی فیصلوں اور پارلیمانی پارٹیوں کے لیے رہنما اصول مرتب کرے گی، ضرورت کے مطابق کمیٹی میں نئی شمولیت یا اسمیں تبدیلیاں بھی کی جا سکتی ہیں۔
نئی فہرست میں علی امین گنڈاپور کی عدم موجودگی نے اندرونی سیاسی حلقوں میں اہم سوالات کو جنم دیا ہے، پارٹی ذرائع کے مطابق مزید نام کمیٹی میں شامل ہونے کا امکان موجود ہے۔