کرکٹ اسٹیڈیم کے گراؤنڈ میں داخل ہونے والوں کو کیا سزا ہو سکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
پاکستان میں چیمپیئنز ٹرافی کے میچز کا انعقاد ہو رہا ہے، اس سے قبل لاہور کے قذافی، کراچی کے جناح اور راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کا کام کیا گیا تھا اور بعض جگہ پر خندقیں بھی بنائی گئی تھیں، تا کہ کوئی بھی تماشائی کرکٹ گراؤنڈ میں داخل نہ ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں:’یہ کونسی اولمپکس میں لانگ جمپ لگاتا رہا ہے؟‘، قذافی اسٹیڈیم میں تماشائی میدان میں داخل
تاہم 2 دنوں میں لاہور کے قذافیا سٹیڈیم اور راولپنڈی اسٹیڈیم میں 2 ایسے واقعات ہو چکے ہیں کہ جب نوجوان گراؤنڈ میں داخل ہو گئے اور میچ میں خلل پیدا ہوا، بعد ازاں دونوں نوجوانوں کو گرفتار کر کہ آنے کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے۔
وی نیوز نے قانونی ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان نوجوانوں کے خلاف درج مقدمات میں کون سی دفعات شامل کی گئی ہیں اور ان نوجوانوں کو کون سی سزا ہو سکتی ہے؟
نواجون کیخلاف 186 اور 447 کا استعمالماہر قانون عمران شفیق ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے گراؤنڈ سے حراست میں لیے گئے فتح جنگ سے تعلق رکھنے والے عبدالقیوم کے خلاف دفعہ 186 اور 447 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
دفعہ 186 کے مطابق اس نوجوان نے سیکیورٹی پر مامور اہلکار کی ڈیوٹی میں مداخلت کی ہے، اس جرم کی سزا 3 ماہ سے ایک سال قید اور 5 سے 50 ہزار روپے تک کا جرمانہ ہے، جبکہ یہ جرم قابل ضمانت ہے۔
عمران شفیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ مقدمے میں درج دوسری دفعہ 447 ہے، جس کے مطابق یہ نوجوان غیر قانونی طور پر کسی جگہ پر داخل ہو گیا ہو، اس جرم کی سزا بھی 3 ماہ ہی ہے اور اور ساتھ میں 3 ہزار روپے جرمانہ بھی ہو سکتا ہے جبکہ یہ جرم بھی قابل ضمانت ہے، اگر یہ نوجوان مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہو ضمانت کے مچلکے جمع کروائے جائیں تو مجسٹریٹ اس کو ضمانت پر گھر بھیج گا۔
ماہر قانون نے کہا کہ دفعہ 186 کے مطابق اگر کوئی شخص کسی سرکاری ملازم کو اپنے ڈیوٹی کے انجام میں مداخلت کرے تو اس کو 3 ماہ سے ایک سال تک سزا اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں افغانستان اور انگلینڈ کے درمیان چیمپیئنز ٹرافی کے میچ کے اختتام پر افغانستانی ٹیم جیت کی خوشی مناتے ہوئے ایک تماشائی گراؤنڈ میں گھس آیا تھا جسے سیکیورٹی اہلکاروں نے اس تماشائی کو حراست میں لے کر وہاں سے لے گئے تھے۔
2 روز قبل راولپنڈی میں پولیس نے نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کے درمیان آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کرکٹ میچ کے دوران راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں داخل ہونے والے تماشائی کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی تھی۔
تماشائی کی شناخت اٹک کے علاقے فتح جنگ سے عبدالقیوم کے نام سے ہوئی تھی جس نے میر بخش انکلوژر کے لیے 1000 روپے کا ٹکٹ خریدا تھا لیکن بعد میں یاسر عرفات انکلوژر چلا گیا اور وہ رکاوٹ عبور کر کے گراؤنڈ میں داخل ہوا تھا جسے سیکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کر لیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کرکٹ اسٹیڈیم اسٹیڈیم میں میں داخل ہو کے خلاف
پڑھیں:
وقف قانون کی مخالفت میں "آئی پی ایس" افسر نور الہدیٰ نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دیا
اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ اور مسلم تنظیموں کیجانب سے سپریم کورٹ میں وقف قانون کے خلاف عرضی داخل کی گئی تھی، جسکے بعد سپریم کورٹ نے مودی حکومت کو 7 دنوں کے اندر جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست بہار کے رہنے والے اور 1995ء بیچ کے ایک سینیئر "آئی پی ایس" افسر نور الہدیٰ نے وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انڈین پولیس سروس سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اپنی دیانتداری اور ایمانداری کی شناخت رکھنے والے آئی پی ایس نور الہدیٰ سماجی کاموں میں بھی گہرائی سے شامل رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق نور الہدیٰ اپنے آبائی گاؤں میں تقریباً 300 محروم بچوں کو مفت میں تعلیم فراہم کرتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ تعلیم حقیقی طور پر بااختیار بنانے کی کنجی ہے۔ اپنے شاندار کیریئر کے دوران نور الہدیٰ نے کئی حساس اور ہائی پریشر والے علاقوں میں کام کیا، جن میں دھنباد، آسنسول او دہلی ڈویژن شامل ہیں۔ ریلوے سیکورٹی، نکسل کنٹرول اور جرائم کی روک تھام میں اختراعی حکمت عملیوں کو نافذ کرنے کا سہرا انہیں کے سر جاتا ہے۔
ان کی مثالی خدمات کے لئے انہیں دو مرتبہ "باوقار وششٹ سیوا میڈل" اور دو بار "ڈائریکٹر جنرل چکر" سے نوازا گیا۔ کئی دہائیوں تک وردی میں خدمات انجام دینے کے بعد، سینیئر آئی پی ایس افسر نور الہدیٰ نے اب سیاست میں آکر عوامی زندگی میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہے۔ واضح رہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ اور مسلم تنظیموں کی جانب سے سپریم کورٹ میں وقف قانون کے خلاف عرضی داخل کی گئی تھی، جس کے بعد سپریم کورٹ میں 16 اور 17 اپریل کو ہوئی سماعت کے بعد مودی حکومت کو 7 دنوں کے اندر جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جبکہ قانون کے نفاذ سے متعلق عبوری حکم دیتے ہوئے کسی بھی تقرری پر پابندی عائد کردی ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت سپریم کورٹ میں اپنا کیا جواب داخل کرتی ہے اور پھر اس کے خلاف عرضی داخل کرنے والے لیڈران اور تنظیمیں کیا حکمت عملی تیار کرتی ہیں، لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ عدالت نے جو رویہ اختیار کیا ہے، اس سے حکومت اور عرضی گزاروں دونوں کو سخت سوال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔