قومی اسمبلی کا پہلا سال، پلڈاٹ نے کارکردگی رپورٹ جاری کردی
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کی کارکردگی کی سالانہ جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ موجودہ اسمبلی کے کام کا دورانیہ، اوقات اور ایام کے حوالے سے گزشتہ اسمبلی کے مقابلے میں کم رہا تاہم اس دوران اہم قانون سازی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا جن میں سے زیادہ تر قوانین کو بغیر جانچ پڑتال اور غور و خوض کے منظور کیا گیا۔
موجودہ اسمبلی کا 29 فروری 2024 کو افتتاحی اجلاس منعقد ہوا اور پہلے پارلیمانی سال کی مدت 28 فروری 2025 کو ختم ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پلڈاٹ نے وفاقی وزرا کی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کردی، کون سب سے آگے رہا؟
16ویں قومی اسمبلی کے 93 اجلاس منعقد ہوئے اور موجودہ اسمبلی نے 212 گھنٹے کام کیا جبکہ اس کے مقابلے میں 15ویں قومی اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کے دوران 96 اجلاس منعقد ہوئے اور اسمبلی نے 297 گھنٹے کام کیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے جبکہ موجودہ اسمبلی کی کارکردگی گزشتہ اسمبلی کے مقابلے میں واضح حد تک کم ہے۔
اسمبلی اجلاس پر فی گھنٹہ لاگت کتنی؟واضح رہے کہ 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں ایک گھنٹہ کام کرنے کی لاگت تقریباً 60.
تاہم 16 ویں قومی اسمبلی کی کارکردگی قانون سازی کے حوالے سے نمایاں طور پر گزشتہ اسمبلی سے بہتر رہی۔ اس کے پہلے سال میں 47 بل منظور کیے گئے جبکہ 15 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران منظور کیے گئے بلوں کی تعداد صرف 10 ہے جو کہ گزشتہ اسمبلی کے مقابلے میں 370 فیصد زیادہ ہے۔ اس تیز تر قانون سازی کی سرگرمیوں میں اہم قوانین اور 26ویں آئینی ترمیم شامل ہے جن میں سے زیادہ تر کو اسمبلی کی طرف سے مناسب وقت اور جانچ پڑتال کے بغیر فوری طور پر منظور کیا گیا۔
مزید پڑھیے: عام انتخابات کا سال مکمل: 8 فروری 2024 سے 2025 تک کیا کچھ ہوتا رہا؟
مزید برآں متعدد قوانین بشمول 9 انتہائی اہم قوانین کو ممبران اسمبلی کی جانب سے نظرثانی کی پرواہ کیے بغیر اور متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیجے بغیر منظوری کے لیے جلد بازی کی گئی۔
اراکین کی حاضریپلڈاٹ رپورٹ کے مطابق ممبران اسمبلی کی حاضری بھی 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں اوسطاً 66 فیصد تک کم ہو گئی ہے جو 15ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں 73 فیصد تھی۔
واضح رہے کہ 16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران ٹیکس دہندگان کے لیے فی ممبر قومی اسمبلی پر 37.9 ملین روپے لاگت آئی۔ پلڈاٹ اس بات کی تگ و دو کر رہا ہے کہ ممبران اسمبلی کی حاضری ریکارڈ کرنے کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نظام 5 منٹ تک اجلاس میں شریک ہونے والے ممبر اور 5 گھنٹے تک موجود دوسرے ممبر میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ حاضری کے نظام کے ساتھ ایک اور مسئلہ کورم کی نشاندہی اور کورم کی کمی کی وجہ سے ملتوی ہونے والی نشستوں کی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے حالانکہ ان نشستوں میں موجود ممبران اسمبلی کی تعداد مطلوبہ کورم سے کہیں زیادہ ہے۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: 2024 میں علی امین گنڈاپور حکومت کی کارکردگی کیسی رہی؟
16 ویں قومی اسمبلی نے ایجنڈا آئٹمز کی منصوبہ بندی اور نمٹانے کے معاملے میں نسبتاً کمزور کارکردگی دکھائی ہے۔ اس کے پہلے سال کے دوران طے شدہ ایجنڈا آئٹمز کا 49.18 فیصد باقی رہ گیا جس سے پتا چلتا ہے کہ مقرر کردہ کارروائی کا اہم حصہ قومی اسمبلی میں نامکمل ہے۔
گزشتہ اسمبلییوں کے اجلاسوں میں وزرائے اعظم کی شرکت کی شرح16ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کل 93 اجلاسوں میں سے صرف 17 اجلاسوں میں شرکت کی یا کل اجلاسوں کے صرف 18 فیصد میں شامل ہوئے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے اور وزیر اعظم کی حاضری کا یہ کمزور ریکارڈ افسوسناک طور پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی حاضری سے مطابقت رکھتا ہے جنہوں نے 15 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال میں 96 میں سے صرف 18 یا 19 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی تھی جبکہ ان کے پیشرو وزیر اعظم نواز شریف نے 14ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے 103 میں سے صرف 7 اجلاسوں میں شرکت کی تھی۔
ریکارڈ ٹاک ٹائم کس قائد حزب اختلاف کا رہا؟ان کے مقابلے میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے سال میں 62 اجلاسوں میں شرکت کی جو کہ گزشتہ اسمبلی کے پہلے سال میں قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف نے 53 اجلاسوں میں اپنی حاضری یقینی بنائی تھی۔ عمر ایوب خان نے 16 ویں قومی اسمبلی کے پہلے سال کے دوران 13 گھنٹے اور 28 منٹ کے ریکارڈ شدہ ٹاک ٹائم کے ساتھ سب سے زیادہ بولنے والے ممبر اسمبلی بھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: مریم نواز کے لیے بطور وزیراعلیٰ پنجاب سال 2024 کیسا رہا؟
16ویں قومی اسمبلی نے بھی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل سے متعلق اپنے اصول کو نظرانداز کیا اور اس کی خلاف ورزی کی۔
قومی اسمبلی میں قواعد و ضوابط اور طرز عمل کا قاعدہ 200 یہ حکم دیتا ہے کہ محکمہ جاتی قائمہ کمیٹیوں کے ارکان کا انتخاب اسمبلی کے ذریعے قائد ایوان کے انتخاب کے بعد 30 دنوں کے اندر کیا جانا چاہیے جس نے ایسا کرنے کی آخری تاریخ 3 اپریل 2024 کو مقرر کی تھی۔ تاہم 17 مئی 2024 تک کمیٹیوں کو فعال نہیں کیا گیا اور کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے انتخاب میں مزید تاخیر ہوئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسمبلی کا پہلا سال اسمبلی کا پہلا سال کیسا رہا اسمبلی کی کارکردگی رپورٹ پلڈاٹ کارکردگی رپورٹذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسمبلی کا پہلا سال اسمبلی کی کارکردگی رپورٹ پلڈاٹ کارکردگی رپورٹ اجلاسوں میں شرکت کی ممبران اسمبلی کی گزشتہ اسمبلی کے کارکردگی رپورٹ موجودہ اسمبلی کے مقابلے میں کی کارکردگی اسمبلی نے اسمبلی کا کی حاضری کے لیے
پڑھیں:
اسپیکر کے پی اسمبلی کو کرپشن الزامات میں کلین چٹ دینے پر پی ٹی آئی احتساب کمیٹی میں اختلافات
اسپیکرخیبرپختونخوا اسمبلی بابرسلیم سواتی کو اسمبلی میں بھرتیوں سے متعلق بدعنوانی کے الزامات میں کلین چٹ دینے پر پی ٹی آئی کی احتساب کمیٹی میں اختلافات سامنےآگئے۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اندرونی احتساب کمیٹی کے تینوں ارکان کا مذکورہ رپورٹ پر آپس میں عدم اتفاق ہے، مذکورہ رپورٹ کمیٹی نے نہیں بلکہ کمیٹی کے ایک رکن نے جاری کی ہے۔
ذرائع کے مطابق ایسے معاملات میں اندرونی رپورٹس پبلک نہیں کی جاتیں بلکہ پارٹی سربراہ کو بھجوائی جاتی ہیں، مذکورہ رپورٹ کمیٹی نے پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کو ارسال کرنی تھی جسے قبل ازوقت پبلک کردیا گیا۔
ذرائع کے مطابق رکن احتساب کمیٹی نے کہا کہ مذکورہ رپورٹ پراس وقت کوئی کمنٹس نہیں دے سکتے، اس سلسلے میں بانی چیئرمین سے مشاورت کرنے کے بعد ہی بات کی جائے گی۔
کمیٹی رکن کا کہنا تھا کہ یہ کمیٹی بانی چیئرمین نے تشکیل دی، ،ہر معاملے کی رپورٹ بھی انھیں ہی پیش کی جائے گی، رپورٹ وہی ہوسکتی ہے جس پر تینوں ارکان کے دستخط ہوں ، ایک رکن کی رپورٹ ، رپورٹ نہیں ان کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے۔