رکی پونٹنگ نے پاکستان کے چیمپئنز ٹرافی سے باہر ہونے پر 2 کھلاڑیوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
لاہور:دنیا بھر کے کھلاڑیوں، ٹیموں اور میچز پر گہری نظر رکھنے والے سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ نے پاکستان ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے ابتدا میں ہی باہر ہونے کی وجوہات بتادیں۔
ٹورنامنٹ میں بطور میزبان اور دفاعی چیمپئن داخل ہونے کے باوجود پاکستان چیمپئنز ٹرافی 2025 سے باہر ہونے والی پہلی ٹیم ہے۔
پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی میں اپنا پہلا میچ کراچی میں نیوزی لینڈ کے خلاف جب کہ دوسرا میچ دبئی میں روایتی حریف بھارت کے خلاف کھیلا اور دونوں میچز میں شکست کھائی۔
رکی پونٹنگ نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا پاکستان ٹیم بابر اعظم اور محمد رضوان کی صلاحیتوں کو صحیح انداز میں استعمال کر رہی ہے؟
اُنہوں نے کہا کہ ٹیم کی حکمتِ عملی اپنے سب سے بڑے اثاثوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی، بابر اعظم اور محمد رضوان بہترین کارکردگی نہیں دکھا سکے، ان دونوں کو آگے بڑھ کر زیادہ رنز بنانے چاہیے تھے لیکن یہ دونوں ٹورنامنٹ کے پہلے 2 میچز میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔
رکی پونٹنگ نے کہا کہ یہ ہی پاکستان ٹیم کے سیمی فائنل میں نہ پہنچنے کی وجہ ہو سکتی ہے۔
سابق بیٹنگ ماسٹر نے ہائی پریشر میچوں میں ڈیلیور کرنے پر ہندوستانی اسٹار ویرات کوہلی کی بھی تعریف کی اور کہا کہ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ بڑے میچ جیتنے کے لیے بڑے کھلاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور بھارت کے لیے سب سے بڑا مقابلہ پاکستان کےخلاف میچ تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ کی ساکھ اس بات پر بنتی ہے کہ آپ بین الاقوامی اسٹیج پر سب سے بڑے مقابلوں میں کس طرح پرفارم کرتے ہیں، اس لیے یہ میرے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ کوہلی نے ایسی کارکردگی دکھائی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: چیمپئنز ٹرافی رکی پونٹنگ نے
پڑھیں:
پاکستان کی سنگاپور میں منعقد ہونے والے ’’تھنک ایشیا‘‘فورم میں شرکت
پاکستان کی سنگاپور میں منعقد ہونے والے ’’تھنک ایشیا‘‘فورم میں شرکت WhatsAppFacebookTwitter 0 20 April, 2025 سب نیوز
سنگارپور: سنگاپور میں “تھنک ایشیا” فورم 2025 کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا۔ چین، سنگاپور، جاپان، بھارت، تھائی لینڈ، آذربائیجان، فلپائن، پاکستان، انڈونیشیا اور دیگر ایشیائی ممالک کے 40 سے زائد تھنک ٹینک کے ماہرین اور اسکالرز نے عالمی گورننس پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
چین اور سنگاپور سے سرکاری اداروں، تھنک ٹینکس، جامعات ، کاروباری اداروں اور دیگر تنظیموں کے تقریباً 200 مہمانوں نے فورم میں شرکت کی۔فورم میں شریک بیشتر ماہرین نے اتفاق کیا کہ ایشیائی ممالک عالمگیریت اور علاقائی اقتصادی تعاون کو فعال طور پر فروغ دے رہے ہیں۔ آسیان اور چین کی مرکزیت پر مبنی علاقائی اقتصادی انضمام کو گہرا کیا گیا ہے، اور آر سی ای پی جیسے میکانزم نے مؤثر طریقے سے تجارتی سہولت اور صنعتی ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے، مغربی منڈیوں پر انحصار کو کم کیا ہے اور علاقائی آزاد انہ ترقیاتی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے.
سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں، مصنوعی ذہانت سمیت ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں تعاون تیزی سے بڑھا ہے۔ چین اور آسیان نے ٹیلنٹ کی تربیت، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور ٹیکنالوجی کی شمولیت میں مثبت پیش رفت کی ہے. فورم کے شرکاء کا ماننا تھا کہ مستقبل میں ایشیائی ممالک کو اسٹریٹجک باہمی اعتماد کو مزید مستحکم کرنا چاہیے، ادارہ جاتی جدت طرازی اور گورننس کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا چاہیے، “ایشیائی دانش” اور “ایشیائی حل” کے ساتھ دوبارہ عالمگیریت کے عمل کی قیادت کرنی چاہیے اور ایک نیا بین الاقوامی نظام تشکیل دینا چاہئے جو زیادہ جامع، متوازن اور مشترکہ طور پر فائدہ مند ہو۔