آئی وی ایف ، بے اولاد جوڑوں کو والدین بنانے میں مدد کی ٹیکنالوجی
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک —
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کئے ہیں جس کا مقصد بانجھ پن کے علاج کے لئے ان وٹرو فرٹلائزیشن یا آئی وی ایف کا طریقہ استعمال کرنےوالے خاندانوں کے لئے علاج کے اخراجات کوکم کرنا ہے۔
آئی وی ایف ایک ایسا میڈیکل پروسیجر ہے جس کی مدد سے بانجھ پن کا سامنا کرنے والے خاندانوں کو اپنے خاندان تشکیل دینے میں مدد کی جاتی ہے۔
حکم نامےمیں کہا گیا ہے کہ ،’’ امریکیوں کو آئی وی ایف تک مستند رسائی اور مزید سستے علاج کے طریقوں کی ضرورت ہے کیوں کہ ایک مکمل پروسیجر کرانے میں12ہزار ڈالر سے 25ہزار ڈالر تک خرچ ہوتے ہیں ‘‘۔حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ بانجھ پن کے سستے علاج ، ، ان کے بارے میں آگاہی اور ان تک رسائی میں مالی معاونت فراہم کرکے ان خاندانوں کو امید اور اعتماد کے ساتھ والدین بننے میں مدد کی جاسکتی ہے۔
بانجھ پن کے علاج کے لئے دن بدن بڑھتے ہوئے اس مہنگے طریقے کے بارے میں کچھ معلومات پیش ہیں ۔
فائل فوٹو
آئی وی ایف کیا ہے؟
یہ میڈیکل پروسیجر کسی بھی عورت کو اس وقت ایک ممکنہ حل فراہم کرتا ہے جب اسے حمل ٹھہرنے میں دشواری کا سامنا ہو رہا ہواور عام طور پر اسے اس وقت اپنانے کی کوشش کی جاتی ہے جب اولاد پیدا کرنے کے دوسرے سستے علاج ناکام ہو جائیں۔
اس علاج میں عورت کی بیضہ دانی یا بچےدانی سے بیضے نکالے جاتے ہیں اور انہیں لیبارٹری میں مرد کے سپرم کے ساتھ فرٹیلائز کیا جاتا ہے۔ یہ فرٹیلائزڈ بیضہ جنین کہلاتا ہے جسے پھر عورت کی بچہ دانی میں منتقل کیا جاتا ہے اس امید کے ساتھ کہ وہ وہاں پروان چڑھے گا۔
آئی وی ایف مرحلہ وار کیا جاتا ہے اور ایک سے زیادہ بار بھی کیا جا سکتا ہے ۔ اس پروسیجر میں جوڑے کے یا کسی ڈونر یا عطیہ دہندہ کے چند بیضے اور سپرم لیے جا سکتے ہیں ۔
لند ن کے ایک فرٹیلٹی کلینک میں آئی وی ایف کے پروسیجر کا ایک مرحلہ، فائل فوٹو
کیا انشورنس کمپنیاں اس علاج کا احاطہ کرتی ہیں ۔
آئی وی ایف اور بانجھ پن کے دوسرے علاجوں کی انشورنس کوریج کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ مریض کو انشورنس کون فراہم کرتا ہے۔
اب ان بڑی کمپنیوں میں اضافہ ہورہا ہے جو کارکنوں کو مائل کرنے کے لیے اس علاج کی کوریج کی پیش کش کررہی ہیں۔بہت سی کاروباری کمپنیاں بانجھ پن کی تشخیص کی کوریج کو مزید توسیع دے رہی ہیں اور ایل جی بی ٹی کیو، ( ہم جنس پرست ) جوڑوں اور تنہا عورتوں کو بھی اس کی پیش کش کررہی ہیں ۔
سرکاری فنڈز سے چلنے والے پروگرام، مثلاً میڈی کیڈ زیادہ تر بانجھ پن کی کوریج کو محدود کرتے ہیں ۔ نسبتاً چھوٹی کمپنیوں میں یہ کوریج کم ہوتی ہے ۔
نقاد کہتے ہیں کہ بڑےپیمانے پر کوریج کا فقدان ایک تفریق پیدا کرتا ہے اور علاج کو خاص طور پر ان لوگوں تک محدود کردیتا ہے جو اپنی جیب سے ہزاروں ڈالر ادا کر سکتے ہوں۔
آئی وی ایف سے پیدا ہونے والے دو بچے اپنے والدین کے ساتھ ، فائل فوٹو
آئی وی ایف کی تاریخ کیا ہے؟
آئی وی ایف کے ذریعے پہلا بچہ 1978 میں انگلینڈ میں پیداہوا تھا ۔ لیکن امریکہ میں اس طریقے کی مدد سے پہلا بچہ 1981 میں نورفوک ، ورجینیا میں پیدا ہوا تھا اور وہ ایک بچی الیزبتھ کار تھی۔
ان کی والدہ جوڈتھ کار تین بار کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے حاملہ نہ ہوسکیں اور انہیں اپنی فیلو پین ٹیوبز نکلوا نی پڑیں جو سپرم کو عورت کے بیضے تک پہنچنے اور فرٹیلائز ڈ بیضے کو بچہ دانی میں منتقل کرتی ہیں ۔ اگر ان ٹیوبز میں کوئی رکاوٹ ہو یا کوئی دوسری اہم بے قاعدگی ہو تو عورت کو حاملہ ہونے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
نورفوک کلینک کو کھلنے سے پہلے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ جب اس نے 1979 میں ایک مطلوبہ ریاستی سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تو 600 سے زیادہ لوگوں نے ایک عوامی سماعت میں شرکت کی ۔ متعددخواتین نے آئی وی ایف کی حمایت میں آواز اٹھائی اور ایک خاندان شروع کرنے کی خواہش کے بارے میں گواہی دی ، جب کہ اسقاط حمل کے مخالف گروپس نےڈاکٹروں کی جانب سے انسانی تخلیق میں مداخلت اور جنین کو ضائع کیے جانے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔
کلینک کو روکنے کے ریاست کے مجوزہ قانون کے باوجود وہ 1980 میں یہ کلینک کھولا گیا اور اس کے فوراً بعد کیلی فورنیا، ٹینیسی اور ٹیکساس میں بھی ایسے کلینک کھل گئے ۔ 1988 تک 41 امریکی ریاستوں میں کم از کم 169 وٹرو سنٹرز کام کررہے تھے ۔
ہیوسٹن میں آئی وی ایف کی ایک لیبارٹری، فائل فوٹو
نیو جرسی کی رہگڑز یونیورسٹی میں تاریخ کی ایک پروفیسر مارگریٹ مارش کہتی ہیں کہ ،’ آئی وی ایف کا استعمال مسلسل بڑھتا رہا ، لیکن اسقاط حمل کی مخالف تحریک میں اس کے خلاف جذبات کبھی ختم نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہاکہ ، اسقاط حمل کے بہت سے مخالفین کسی نہ کسی طور بانجھ پن کے علاج کے لیے ٹیکنالوجی کو قبول کرنے پر تیار ہو گئے لیکن 2022 میں اسقاط حمل کے حق سے متعلق قانون کی منسوخی کے بعد سے آئی وی ایف کی مخالفت زور پکڑ گئی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا،’’ اسقاط حمل کی مخالف تحریک میں شامل ہر شخص ان تولیدی ٹیکنالوجیز کی مخالفت نہیں کرتا۔، لیکن بہت سے کرتے ہیں۔
آئی وی ایف سے جنین کیسے بنتے ہیں؟
اس علاج میں اکثر بیضہ دانی کو متحرک کرنے کے لیے ہارمونز کا استعمال کیا جاتا ہے اس لیے عورت کی بیضہ دانی میں ایک سے زیادہ بیضے پیدا ہوتے ہیں اور ایک سوئی کے ذریعے ان کو بیضہ دانی سے نکال لیا جاتا ہے ۔
اس کے بعد لیبارٹری میں ان بیضوں کے ساتھ مرد کے سپرم کو شامل کر کے انہیں فرٹیلائز کیا جاتا ہے ۔ یا پھر ہر بیضے میں ایک سپرم داخل کیا جا سکتا ہے ۔
ہیوسٹن میں تولیدی اینڈو کرائنولوجسٹ ڈاکٹر جیسن گریفتھ کہتے ہیں کہ فرٹیلائزڈ بیضے کو ابتدائی جنین بنانے کے لیے پانچ یا چھ دن میں پروان چڑھایا جاتا ہے اس کے بعد اسے یا تو عورت کی بیضہ دانی میں منتقل کر دیا جاتا ہے یااسے مستقبل میں استعمال کے لئے محفوظ کر لیا جاتا ہے ۔
آئی وی ایف کے عمل کا ایک مرحلہ، فائل فوٹو
جنین کو کیسے منجمد اور اسٹور کیا جاتاہے؟ .
منجمد کیے ہوئے جنین کو مستقبل میں حمل ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اکثریت نارمل حالت میں لانے کے عمل میں بچ جاتی ہے ۔
منجمد جنین کو کسی اسپتال کی لیبارٹری میں یا کسی تولیدی میڈیسن سنٹر میں مائع نائٹروجن والے ٹینک میں اسٹور کیا جاتا ہے ۔ گریفتھ کہتے ہیں کہ انہیں صحت کی دیکھ بھال کے مرکز کے ساتھ معاہدے کے حامل مراکز میں بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے ، خاص طور پر جب وہ کئی برس کے لیےاسٹور کیے جائیں۔ منجمد جنین کو دس سال یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے بحفاظت اسٹور کیا جاسکتا ہے۔
گریفتھ نے کہا کہ ان مراکز میں حالات کی نگرانی کی جاتی ہے اور بجلی کی بندش کی صورت میں ٹینکوں اور بیک اپ جنریٹرز کی حفاظت کے لیے فزیکل سیکیورٹی میکانزم موجود ہوتے ہیں ۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: آئی وی ایف کی کیا جاتا ہے کے بارے میں بانجھ پن کے کا سامنا سے زیادہ جاتی ہے عورت کی علاج کے اس علاج جنین کو کے ساتھ ہیں کہ کیا جا کے لیے کے لئے ہے اور
پڑھیں:
سندھ کے بیشتر سرکاری اسپتالوں میں قواعد کیخلاف تعیناتیاں، مریضوں کو علاج میں دشواریاں
کراچی کے بعض اور اندرون سندھ کے بیشتر اسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکز کے سربراہاں کی تعیناتی حکومت کے طے شدہ اور مروجہ قواعد کے خلاف کی گئی ہیں، ایسے اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں قواعد و ضوابط کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے من پسند اور ناتجربے کار افسران کو سربراہ کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔
محکمہ صحت سندھ کے اس طریقہ کار کی وجہ سے محکمہ کا انفرا اسٹرکچر بھی شدید متاثر ہوکر رہ گیا ہے، اس صورتحال کے سبب اسپتالوں میں علاج کے لیے آنے والے مریضوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
صوبے سندھ کے اسپتالوں اور ضلعی و بنیادی صحت کے مراکز میں 2022 سے قبل سربراہان کی تعیناتی گریڈ 20 اور جنرل کیڈر کے ڈاکٹروں میں سے کی جاتی تھی تاہم ہائی کورٹ کے حکم نامے کے مطابق اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں ایسے ڈاکٹروں کو سربراہ بنایا جائے گا جس نے ایم بی بی ایس کے بعد (ایم پی ایچ) ماسٹر آف پبلک ہیلتھ کی ڈگری حاصل کی ہو۔
مذکورہ فیصلے کے بعد صوبائی محکمہ صحت نے اپریل 2022 میں ایک نوٹیفیکشن جاری کیا جس میں یہ طے پایا تھا کہ آئندہ اسپتالوں میں ایم بی بی ایس کے بعد (ایم پی ایچ) ماسٹر آف پبلک ہیلتھ کے حامل گریڈ 20 کے ڈاکٹروں کو کسی بھی سرکاری اسپتال یا ضلعی صحت کے مرکز کا سربراہ بنایا جائے گا۔ ایم پی ایچ وہ ڈگری ہوتی ہے جس میں اسپتال کا سربراہ مریضوں کی بیماریوں اور علاج اور اسپتال کا نظم و نسق چلانے کے لیے حکمت عملی طے کرتا ہے۔
محکمہ صحت حکومت سندھ کے اپریل 2022 میں جاری کردہ نوٹیفکیشن سندھ ہیلتھ مینیجمنٹ سروس رول 2022 میں واضح طور پر یہ کہا گیا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز سندھ، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر، اسپتالوں کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ اور ایڈیشنل میڈیکل سپریٹنڈنٹ، سیکریٹری سندھ بلڈ ٹرانسفیوزن اتھارٹی، پولیس سرجن سمیت مختلف اسامیوں پر لازمی طور پر ہیلتھ مینیجنمنٹ کیڈر گریڈ 20 کے ڈاکٹروں کو تعینات کیا جائے لیکن اس وقت محکمہ صحت میں سیاسی اثرورسوح، من پسند اور گریڈ 20 کے جنرل کیڈر ڈاکٹروں کی قواعد وضوابط کے خلاف تعیناتیاں جاری ہیں۔
سندھ کے بیشتر سرکاری اسپتالوں اور ضلعی صحت کے مراکز میں ہیلتھ مینیجمنٹ کیڈر کے بجائے جنرل کیڈر کے ڈاکٹر تعینات ہیں جبکہ بیشتر اسپتالوں میں جنرل کیڈر کے سربراہان تعینات ہیں، اندرون سندھ کے دو اضلاع کے علاوہ 28 اضلاع میں ہیلتھ مینجمنٹ کیڈر کے بجائے جنرل کیڈر 19گریڈ کے افسران تعینات ہیں جس کی وجہ سے شعبہ صحت کا انفرا اسٹرکچر شدید متاثر ہو رہا ہے۔
محکمہ صحت حکومت سندھ نے اپنے ہی قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے 24دسمبر 2024 کو سندھ گورنمنٹ سعودآباد اسپتال میں تعینات محکمہ صحت کے سینیئر ترین گریڈ 20 اور ہیلتھ مینیجمنٹ کیڈر کے افسر ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی کو بلاجواز ان کے اس عہدے سے ہٹا کر ایک ایسی جگہ تعینات کر دیا جہاں پبلک ہیلتھ کا کوئی شعبہ سرے سے موجود ہی نہیں اور محکمہ صحت حکومت سندھ نے ان کی جگہ گریڈ 19کے جونیئر ترین اور جنرل کیڈر کے ڈاکٹر آغا عامر کو تعینات کر دیا۔ ڈاکٹر آغا عامر گریڈ 19 کی سینارٹی لسٹ میں 140 ویں نمبر پر ہیں جبکہ ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی گریڈ 20 کی سینارٹی لسٹ میں 5ویں نمبر پر ہیں۔
محکمہ صحت نے ناتجربہ کار ڈاکٹر اسپتال کا ایم ایس بنا دیا جس کی وجہ سے اسپتال کا انتظامی امور شدید متاثر اور مریض کو حصول علاج میں دشواریوں کا سامنا بھی ہو رہا ہے۔ اسپتال میں گریڈ 19 کے موجودہ سربراہ کے ماتحت اسپتال میں گریڈ 20 کے افسر کام کر رہے ہیں جو کہ ایک المیہ ہے۔ اسپتال کے ایک افسر کے مطابق سندھ گورنمنٹ سعود آباد اسپتال میں غیر قانونی بلڈ بینک بھی قائم ہے جبکہ اسپتال میں مریضوں کو ادویات کی عدم فراہمی کی شکایات بھی مسلسل موصول ہو رہی ہیں۔
اسی طرح، سندھ گورنمنٹ نیو کراچی اسپتال کے ایم ایس گریڈ 20 کی اسامی پر گریڈ 19 جنرل کیڈر کے ڈاکٹر کو تعینات کر رکھا ہے جبکہ سندھ گورنمنٹ قطر اسپتال میں بھی جنرل کیڈر گریڈ 19 کے افسر کی تعیناتی ہے۔ سندھ گورنمنٹ ابراہیم حیدری اسپتال میں بھی جنرل کیڈر گریڈ 19 تعینات ہیں۔
اس وقت کراچی میں ضلع کورنگی کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر گریڈ 20 کی اسامی پر گریڈ 19 اور جنرل کیڈر کے ڈاکٹر کو تعینات کر رکھا ہے جبکہ ضلع جنوبی میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر راج کمار کو Expanded Program of Immunization میں پروجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا جس کے بعد یہ اسامی خالی پڑہی ہے۔ کراچی میں ضلع غربی میں بھی گریڈ 19 کے ڈاکٹر کو تعینات کیا گیا ہے۔
اسی طرح سندھ گورنمنٹ لیاقت اسپتال جامشورو میں گریڈ 20 کی اسامی پر 19 گریڈ جنرل کیڈر کے ڈاکٹر کو تعینات کر رکھا ہے۔ محکمہ صحت کے ایک افسر کے مطابق اندرون سندھ کے 28 اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران گریڈ 19 جنرل کیڈر کے تعینات ہیں، گریڈ 19 اور جنرل کیڈر ڈاکٹروں کی تعیناتیوں کی وجہ سے انتظامی امور درہم برہم جبکہ عوام کو پبلک ہیلتھ کی سہولتیں بھی کم ہو رہی ہیں۔
واضع رہے کہ محکمہ صحت میں ہیلتھ منیجمنٹ کیڈر رول 2022 سے قبل محکمے میں جنرل کیڈر گریڈ 20 کے افسر کو اسپتال کا سربراہ مقرر کیا جاتا تھا، ہیلتھ منیجمنٹ کیڈر ان افسران کو کہا جاتا ہے جو ایم بی بی ایس کے بعد ماسٹر آف پبلک ہیلتھ یا اسپتال منیجمنٹ ڈگری حاصل کی ہوئی ہو۔ ماسٹر آف پبلک ہیلتھ ڈگری کے حامل افسران اپنے اپنے ضلع میں کسی بھی ممکنہ وباء یا مختلف بیماریوں پر قابو پانے کے حوالے سے موثر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بیماریوں سے نمٹنے اوربیماریوں کے تدارک اور ان کی روک تھام کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
کراچی سمیت سندھ کے عوام 12 مہینے مختلف بیماری اور وائرس کی زد میں رہتے ہیں، ہر مہینے کوئی نہ کوئی وائرس سر اٹھاتا ہے جبکہ مختلف اقسام کے انفیکشن اور موسمی بیماریاں بھی عام ہیں، عوام ان ہی غیر صحت مندانہ ماحول میں زندگی گرارنے پر مجبور ہیں۔ ایسی صورت میں عوام مختلف بیماریوں کے ماحول میں رہتے ہیں۔
کراچی سمیت سندھ میں ڈینگی، ملیریا، غذائی قلت اور بچوں میں خسرہ ٹائفائیڈ سمیت دیگر بیماریاں عام ہیں، ان بیماریوں کا سدباب آج تک نہیں کیا جا سکا جس کہ وجہ نا تجربے کار افسران کی تعینایاں، سیاسی اور من پسند افسران کو انتظامی امور کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
ماہر صحت ڈاکٹر اکرم سلطان نے بتایا کہ اندرون سندھ عوام صحت کے مسائل سے دوچار ہیں، اندرون سندھ کے اسپتالوں میں ناتجربے کار انتظامی افسران کی وجہ سے اسپتالوں میں ہر وقت متعدد مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ او اور اسپتال کا سربراہ ہیلتھ کسٹوڈین Health Custodian ہوتا ہے، ایسے افسران کو اسپتالوں اور ضلعی صحت کے مراکز میں تعینات کرنا چاہیے جو مختلف بیماریوں کی روک تھام اور صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے موثر حکمت عملی پر کام کرے۔
ماہر صحت نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران اپنے اپنے ضلع میں صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے اگر کوشش کریں تو صحت کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے صحت کے افسران کی کسی بھی بیماری کے خاتمے کے لیے کوشش نظر نہیں آتی اور نہ ہی کوئی مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے جبکہ عوام کی صحت کے نام پر ہر سال اربوں روپے بجٹ مختض کیے جاتے ہیں لیکن آج بھی اندرون سندھ کے اسپتالوں میں پیچیدہ امراض کے علاج کے لیے مریضوں کو کراچی لایا جاتا ہے۔
اندورن سندھ صحت کے مراکز اور اسپتالوں میں دوائیاں ناپید ہوتی ہیں، ہیلتھ کا کوئی میکینزم وہاں موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اندرون سندھ کے عوام حصول علاج کے لیے پریشان نظر آتے ہیں۔