بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
پاک بنگلہ دیش تجارتی تعلقات کا آغاز ہوچکا ہے، پی این ایس سی کا جہاز سرکاری کارگو لے کر روانہ، بنگلہ دیش پاکستان نے ماہ جنوری میں ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق 5 ماہ سے 8 لاکھ ٹن چاول کی بنگلہ دیش برآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ گزشتہ برس بھارت کی جانب سے چاول برآمد پر جزوی پابندی عائد تھی کیونکہ بھارت میں چاول کی کھپت کے لیے ملکی پیداوار کی برآمد کو روکنا پڑا جس سے پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں چاول کی برآمد کے کافی آرڈرز موصول ہوئے تھے، لیکن اب ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں یعنی جولائی تا جنوری 2025 کے دوران چاول کی برآمدات سے ملک کو 1.
بنگلہ دیش کے قیام کے آغاز سے ہی بنگلہ دیش کی معیشت دنیا کی کمزور ترین معیشت بن کر ابھری تھی۔ دنیا کے بڑے بڑے ماہرین معاشیات اور معیشت پر گہری نظر رکھنے والی ایجنسیاں اس بات کو یقینی سمجھ رہی تھیں کہ بنگلہ دیش کی معیشت ایک طویل مدت تک اپنے پیروں پر لڑکھڑاتی رہے گی، لیکن یہاں کے محنتی عوام نے ملک میں رہ کر اور بڑی تعداد میں بیرون ملک جا کر زرمبادلہ کما کر اپنے وطن بھجوانا شروع کیا۔ بنگلہ دیشیوں کی عادت یہ ہے کہ وہ یہاں بھی دیار غیر میں جا کر معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں ان کی پہلی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح یہاں پر اپنے ہم وطنوں اپنے عزیزوں کو بلا لیا جائے۔ سعودی عرب، دبئی اور دیگر ہر علاقے میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے کمروں میں سات آٹھ یا دس افراد رہائش رکھتے ہیں اس طرح فی کس کرائے کا بوجھ انتہائی کم ہو جاتا ہے۔ بنگلہ دیشیوں کے برعکس پاکستانی اپنے ہم وطنوں کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش چاول کے علاوہ چائے کی پیداوار میں دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ غالباً 200 سال قبل چائے کا پودا چین سے ہندوستان آیا تھا اور بڑے پیمانے پر اس کی کاشت کاری شروع کر دی گئی تھی اور 170 سال سے زائد کا عرصہ ہوا کہ بنگلہ دیش میں چائے کی پیداوار کا آغاز ہوا۔ وہاں کے اداروں کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں چائے کے 167 باغات ہیں اور 2 لاکھ 80 ہزار ایکڑ رقبے پر چائے کی پیداوار ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان سے گئے ہوئے کئی تاجر ایسے تھے جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ضلع سلہٹ میں چائے کے باغات میں حصہ دار تھے۔
کراچی میں واقع کئی ٹی کمپنیاں بنگلہ دیش کے ساتھ چائے کی تجارت سے منسلک تھیں، لیکن 1971 کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا جسے اب دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بہت سے تاجر اور صنعت کار خاندان 1946 تک ہندوستان کے اس وقت کے سب سے بڑے تجارتی صنعتی شہر کلکتہ جا کر تجارت و صنعت کے کاروبار سے منسلک ہو گئے تھے۔
1946 میں کلکتہ میں مسلم کش فسادات کے بعد یہ لوگ ڈھاکا منتقل ہو گئے پھر قیام پاکستان کے بعد یہاں سے مسلسل روزگار کی تلاش میں لوگ بنگلہ دیش کے مختلف شہروں چٹاگانگ، کھلنا، راج شاہی، ڈھاکا منتقل ہونا شروع ہو گئے اور اکثریت وہاں تجارت سے وابستہ ہو گئی۔ اب وقت آیا ہے کہ ایسے خاندانوں کی موجودہ نسل کو یہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ وہاں جا کر اپنے لیے نئے مواقعے تلاش کریں۔ حال ہی میں جو تجارتی وفد بنگلہ دیش گیا جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ ڈھاکا میں اس کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔
بنگلہ دیش کی شرح پیداوار 1973074 میں 3.6 فی صد تھی اور غربت کی شرح 60 فی صد تھی اور فی کس آمدن 129 ڈالر تھی۔ اب اس کی برآمدات پاکستان سے دگنی ہیں اور 2035 کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس وقت بنگلہ دیش دنیا کی 25 ویں بڑی معیشت بن چکا ہوگا۔
گزشتہ دنوں 53 سالوں کے بعد پاکستان سے چینی کی ایک بڑی کھیپ بنگلہ دیش نے وصول کی۔ پاکستان کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ 6 لاکھ ٹن چینی برآمد کر دی جائے گی۔ اس سے قبل بنگلہ دیش بھارت سے چینی درآمد کرتا تھا۔ چینی برآمد کے فیصلے سے امید ہے کہ بنگلہ دیش کو مزید چینی برآمد کی جائے گی۔
یہاں پر ایک بات اور عرض کرنی ہے کہ 200 سال ہوئے چائے کی کاشت بھارت سے شروع کر دی گئی اس وقت انگریز اس کی کاشت پاکستان کے علاقوں میں بھی کرنا چاہتے تھے لیکن بوجوہ انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ البتہ برصغیرکے مشرقی علاقوں بنگلہ دیش وغیرہ میں 170 برس قبل چائے کی پیداوار شروع ہو گئی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد کئی سروے رپورٹس تیار ہوئیں اور ہزارہ ڈویژن کے کئی علاقوں کے بارے میں بتایا گیا کہ چائے کی پیداوار کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس قسم کا سروے پوٹھوہار کے علاقے میں بھی کرایا جائے۔ جہاں چھوٹے چھوٹے پہاڑ واقع ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش کے کے بارے میں پاکستان سے میں بتایا میں چاول کی برآمد چاول کی کی کاشت ہوتی ہے کے بعد
پڑھیں:
کاٹی میں نمائش شاندار،پاکستان سے تجارت کے دروازے کھل رہے ہیں، ایرانی قونصل جنرل
کراچی میں نمائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں اکبر عیسیٰ زادے نے بتایا کہ پاکستان کی زرعی اور فوڈ مصنوعات ایران کو ایکسپورٹ ہوتی ہیں جبکہ ایران مختلف صنعتی و انجینئرنگ مصنوعات پاکستان سے درآمد کرسکتا ہے، اس طرح کی سرگرمیاں دونوں ملکوں کے کاروباری تعلقات کو نئی سمت دیتی ہیں اور تجارتی حجم میں اضافے کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) میں قازوین چیمبر آف کامرس ایران کے تعاون سے تین روزہ سنگل کنٹری نمائش کا افتتاح کردیا گیا، جس کا افتتاح ایران کے قونصل جنرل اکبر عیسیٰ زادے اور پیٹرن ان چیف کاٹی ایس ایم تنویر نے مشترکہ طور پر کیا۔ نمائش میں ایرانی مصنوعات، صنعتی شعبوں میں جدت اور فوڈ و انجینئرنگ سیکٹر سے متعلق اسٹالز نے شرکاء کی توجہ حاصل کی، جبکہ دونوں ممالک کی کاروباری برادری نے اسے دوطرفہ تجارت کے فروغ کے لیے اہم سنگ میل قرار دیا۔ ایران کے قونصل جنرل اکبر عیسیٰ زادے نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ نمائش انتہائی مؤثر اور شاندار ہے اور اس کے ذریعے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کے نئے دروازے کھلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 3 ارب ڈالر ہے جس میں مزید اضافے کی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی زرعی اور فوڈ مصنوعات ایران کو ایکسپورٹ ہوتی ہیں جبکہ ایران مختلف صنعتی و انجینئرنگ مصنوعات پاکستان سے درآمد کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی سرگرمیاں دونوں ملکوں کے کاروباری تعلقات کو نئی سمت دیتی ہیں اور تجارتی حجم میں اضافے کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پیٹرن ان چیف کاٹی ایس ایم تنویر نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ تجارت میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس نمائش کا انعقاد اس سلسلے میں مثبت پیشرفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بین الاقوامی حالات میں پاکستان کے پاسپورٹ کی عزت میں اضافہ ہوا ہے جو حکومتی پالیسیوں، خصوصاً فیلڈ مارشل اور وزیراعظم کے اقدامات کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ایران کے مسائل حل کرنے کے لیے بھی موثر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور امید ہے کہ ایران مستقبل میں پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار بنے گا۔ ایس ایم تنویر نے مزید کہا کہ افغانستان بارڈر بند ہونے کے بعد پاکستان کے پھل اور سبزیاں بڑی تعداد میں ایران جارہی ہیں جو تجارت کو وسعت دینے کا باعث بن رہا ہے۔
کاٹی کے صدر محمد اکرام راجپوت نے اپنے خطاب میں کہا کہ کاٹی نے سنگل کنٹری نمائش کا انعقاد کرکے ایک نیا ٹرینڈ متعارف کرایا ہے جس سے نہ صرف دوطرفہ تجارت کو فروغ ملے گا بلکہ مقامی صنعتوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت بارٹر سسٹم کے تحت جاری ہے، تاہم مستقبل میں اس نظام کو مزید مضبوط اور مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔ اکرام راجپوت نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تجارتی حجم بڑھا کر 10 ارب ڈالر تک پہنچانے کیلئے دونوں جانب سے بھرپور اقدامات کئے جارہے ہیں اور اس سلسلے میں کاٹی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ صدر کاٹی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دیگر ممالک کے قونصل جنرلز سے بھی ملاقاتیں کریں گے اور انہیں کاٹی میں سنگل کنٹری نمائش کے انعقاد کی دعوت دیں گے۔