سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران  جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ تمام 5 ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ  کا 7 رکنی آئینی بینچ مقدمے کی سماعت  کر رہا ہے۔

سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کر دیا اور مؤقف اپنایا کہ فوجی عدالتوں کیخلاف پانچ رکنی بنچ کا ایک نہیں تین فیصلے ہیں، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے فیصلے لکھے۔

انہوں نے دلیل دی کہ تمام ججز کا ایک دوسرے کے فیصلے سے اتفاق تھا، ججز کے فیصلے یکساں اور وجوہات مختلف ہوں تو تمام وجوہات فیصلہ کا حصہ تصور ہوتی ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ  ججز نے اضافی نوٹ نہیں بلکہ فیصلے لکھے تھے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تمام پانچ ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔

فیصل صدیقی  نے مؤقف اپنایا کہ عذیر بھنڈاری نے انٹراکورٹ اپیل کا دائرہ اختیار محدود  ہونے کا موقف اپنایا، عذیر بھنڈاری کے مؤقف سے اتفاق نہیں کرتا، عذیر بھنڈاری کا انحصار پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں جسٹس منصور شاہ کے نوٹ پر تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر  نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر فیصلے میں ماضی سے اپیل کا حق مل جاتا تو 1973 سے اپیلیں آنا شروع ہو جاتیں، فیصل صدیقی نے استدلال کیا کہ اپیل کا دائرہ محدود کر دیا تو ہماری کئی اپیلیں بھی خارج ہوجائیں گی۔

 جسٹس امین الدین خان  نے کہا کہ نظرثانی فیصلہ دینے والا جب کہ انٹرا کورٹ اپیل لارجر بنچ سنتا ہے، لارجر بنچ مقدمہ پہلی بار سن رہا ہوتا اس لیے پہلے فیصلے کا پابند نہیں ہوتا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا آئینی بینچ پر مکمل اعتماد ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ اسی طرح دلائل دیتے رہے تو لگتا ہے آپکو تین ماہ تک سننا پڑے گا، فیصل صدیقی نے کہا کہ آئینی بینچ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم قرار دیے بغیر بھی سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دے سکتا ہے، سیکشن 94 کے تحت کمانڈنگ افسر کو ملزمان کی حوالگی کا صوابدیدی اختیار درست نہیں۔

جسٹس نعیم افغان  نے استفسار کیا کہ پہلے دن سے پوچھ رہا ہوں کہ اے ٹی سی جج کا ملزم حوالے کرنے کا کوئی باضابطہ حکم نامہ ہے؟ فیصل صدیقی  نے جواب دیا کہ حکم نامہ تو ہے لیکن اس میں وجوہات نہیں دی گئیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا عدالت کو خود دیکھنا ہوتا ہے کہ اسے اختیار سماعت ہے یا نہیں؟
  کیا لازمی ہے کہ کوئی فریق ہی دائرہ اختیار کا اعتراض کرے؟ جسٹس امین الدین خان  نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو خود اپنا دائرہ اختیار طے کرنا ہوتا ہے۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر کوئی مزار قائد کا قبضہ مانگ لے تو کیا عدالت یہ کہے گی کسی نے دائرہ اختیار پر اعتراض نہیں کیا؟ سویلین کو فوجی تحویل میں دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا، حوالگی فرد جرم عائد ہونے کے بعد ہی دی جاسکتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ضمانت کی درخواست دینے والے کو ملزم ہی کہا جاتا ہے، ملزم فرم جرم عائد ہونے سے قبل بھی ملزم ہی ہوتا ہے، مجرم نہیں بن جاتا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد ہی تعین ہوتا ہے جرم کی نوعیت آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے متعلقہ ہے، دیوان موٹرز کیس فیصلے میں آئینی بنچ نے اصول طے کیا اگر بنیاد غلط ہو تو ڈھانچہ برقرار نہیں رہ سکتا۔

فیصل صدیقی  نے مؤقف اپنایا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں ہماری عدالتی تاریخ سیاہ ہے،  ہماری عدالتی تاریخ بہت خوبصورت ہے، کئی جگہوں پر ہمارے ججز نے عوام کے حقوق کا دفاع کیا، 1980 میں ضیاء الحق وقت کا فرعون تھا چار پانچ ججز کھڑے ہوئے کتنے لوگوں کی زندگیاں بچائی، ایف بی علی کیس میں سپریم کورٹ نے بہت ریلیف دیا ہے، ایف بی علی پر دو چارجز تھے ایک چارج سازش کا بھی تھا۔

جسٹس مسرت ہلالی  نے کہا کہ بلوچستان میں ایک دفعہ حالات خراب تھے ہمیں رات کو بھی عدالت میں رکنا پڑا، جسٹس مسرت ہلالی نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہامید ہے آپ نے کبھی ایسے حالات نہیں دیکھے ہوں گے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہا تھا کہ قانون کالعدم کئے بغیر بھی سویلنز کا ٹرائل کالعدم ہوسکتا ہے، انسداد دہشتگردی قانون کے شیڈیول میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ شامل نہیں ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا فوجی عدالتوں میں ان دفعات پر ٹرائل ہوا جو اے ٹی سی کے زمرے میں آتی ہیں؟ فیصل صدیقی  نے جواب دیا کہ میرے خیال میں فوجی عدالتوں سے سزائیں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہوئی ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیے کہ ایسے تو آرمڈ آرڈیننس بھی انسداد دہشتگردی قانون کے شیڈیول میں نہیں ہے، قتل کےساتھ دفعات آرمڈ آرڈیننس کی دفعہ لگی ہو تو اے ٹی سی ہی ٹرائل کرتی ہے۔
 
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جن کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوچکا ان کا دوبارہ ممکن نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں فوجی عدالت سزا دیکر اے ٹی سی کو کیس بھیج دے، جسٹس محمد علی مظہر 

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ میں تو ایف آئی آر کا تصور ہی نہیں ہے، فیصل صدیقی  نے مؤقف اپنایا کہ ملزمان کی حوالگی کیلئے مجسٹریٹ جائزہ لے کر کیس انسداد دہشتگردی عدالت کو بھیجتا ہے۔

جسٹس امین الدین  نے ریمارکس دیے کہ اگر درخواست براہ راست آ جائے تو اے ٹی سی جج کو فیصلے میں وجوہات دینی چاہیے،  ملزم کی حوالگی ہو جائے تو اس کے پاس کیا قانونی آپشن ہوتے ہیں؟ 

فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر مجسٹریٹ کے چارج فریم کے بعد ملٹری اتھارٹیز کی درخواست آ جائے تو حوالگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر مجسٹریٹ کسی ملزم کی فوج کو حوالگی دے تو اس ملزم کو بھی اپیل کا حق ہوتا ہے،  پھر اپیل ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک آئے گی، 

فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کی محض ایف آئی آر کی بنیاد پر ملزم کو فوج کی تحویل میں دینا درست نہیں، اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

 

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس امین الدین خان جسٹس محمد علی مظہر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ نے مؤقف اپنایا فوجی عدالتوں دائرہ اختیار فوجی عدالت سپریم کورٹ مندوخیل نے اے ٹی سی اپیل کا ہوتا ہے نہیں ہو کیا کہ کے بعد

پڑھیں:

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ایک ہمہ جہت شخصیت

سائنس، فلسفہ، ادب اور فنونِ لطیفہ میں بیک وقت مہارت رکھنا صرف غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد کا امتیازی وصف ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت، ذہنی ساخت ، رجحانات اور مزاج کی وہ ہم آہنگی ہے جو کسی فرد کو بیک وقت مختلف علوم و فنون پر عبور عطا کرتی ہے۔

اگر اس پر مختلف زبانوں کا ادراک بھی شامل ہو جائے تو وہ شخص نہ صرف ایک انفرادی شناخت قائم کرتا ہے بلکہ علمی افق پر اپنے ان مٹ نقوش بھی چھوڑتا ہے۔اس مد میں اگر یونان کی سرزمین سے آغاز کریں تو ارسطو کی شخصیت سامنے آتی ہے، جو فلسفہ، سائنس، ادب اور منطق میں یکتائے روزگار تھا۔

اسی سلسلے کی کڑیاں عمر خیام، بو علی سینا، ابن الہثیم، گوئٹے، ٹیگور، آئن سٹائن اور پاکستان کے عظیم نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام جیسے نابغہ افراد تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ وہ ہستیاں تھیں جنھیں محض اپنے اپنے شعبے ہی سے رغبت نہ تھی بلکہ دیگر علوم و فنون سے بھی دلی لگاؤ تھا۔ ان کی علمی وسعت دراصل ان کے لامحدود تجسس، ذہنی جستجو اور ہمہ جہت دلچسپیوں کا مظہر ہے۔

اسی قبیل سے تعلق رکھنے والی ہمیں ایک ایسی عبقری ہستی نظر آتی ہیں جن کا سائنس اور آرٹس کے ساتھ نہ صرف باقاعدہ گہرا تعلق تھا بلکہ وہ ان میں یدِ طولی رکھتے تھے۔ یہ گم نام اور فراموش نابغہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر سلیم الزماں بیک وقت کیمیا دان، مصور، دانش ور، نقاد، ادیب، شاعر اور مترجم تھے۔ اس کے علاوہ موسیقی کے تال و سر، رقص اور دیگر فنون سے ان کی گہری وابستگی تھی۔ یوں آپ کی شخصیت سائنس اور آرٹس کے حسین امتزاج سے مزین نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اکتوبر 1897 کو بھارت ، لکھنو کے قریب قصبہ بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ لکھنو معاشرتی اور تہذیبی روایات کا نمائندہ رہا ہے اور صدیقی صاحب خود بتاتے ہیں کہ انھوں نے لکھنوی تہذیب کو اپنے اندر اس قدر جذب کیا کہ ساری عمر ان پر اس کا سایہ رہا۔ لکھنو ایک ایسا نگارخانہ اور زرخیز قطعہ عرض ہے جو ایرانی و ہندوستانی تہذیب کا حسین امتزاج اور مرکز تھا اور یہاں پر فنون لطیفہ کو خوب فروغ ملا اور پذیرائی حاصل ہوئی۔

یہ سب اوصاف آپ کے خاندان میں کوٹ کوٹ کر بھرے تھے۔جس کے اثرات کے واضح نقوش صدیقی صاحب کی شخصیت میں نظر آتے ہیں۔آپ کے والد شیخ محمد زمان اعلی پایہ کے وکیل اور کمشنر کے عہدے پر فائز رہے۔ نیز آپ اردو اور فارسی کے عمدہ شاعر بھی تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک بہترین خطاط کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا پورا خاندان شعر و ادب سے گہرا شغف رکھتا تھا جبکہ آپ کے نانا کا رجحان علمِ کیمیا میں تھا۔ صدیقی صاحب کے بقول انھیں شعر و ادب کا ذوق والد کی طرف سے اور سائنس کا رجحان ننھیال کی طرف سے ملا ہے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں کی دو شادیاں ہوئیں ، پہلی شادی ماموں زاد ’’شاکرہ بیگم‘‘ سے ہوئی۔ جبکہ دوسری شادی جرمن نژاد ’’اوتھلیے رنل بیل جی اوشنے‘‘ سے ہوئی۔یہ آپ کی پسند کی شادی تھی۔آپ اپنی بیگم کو پیار سے ’’ٹلے‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔

صدیقی صاحب نے کم عمری میں ہی گلستان و بوستان ، طلسم ہوش ربا اور عبدالحلیم شرر کے سبھی ناولوں سمیت شبلی کی المامون کا مطالعہ کر رکھا تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب آپ کے اندر شعر و ادب کا چراغ روشن ہوا اور آپ شعر بھی کہنے لگے۔آپ نے گنج ہائی سکول لکھنو سے 1914 میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔اس کے بعد آپ کا داخلہ علی گڑھ کالج میں ہوا یہاں آپ نے انٹر سائنس کے ساتھ پاس کیا۔آپ نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے فلاسفی اور فارسی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔

بعد ازاں 1920میں آپ انگلستان روانہ ہوگئے اور یونی ورسٹی کالج آف لندن میں میڈیسن کی تعلیم حاصل کی۔ اس کورس کے مکمل ہونے کے بعد آپ اپنے بھائی خلیق الزماں (تحریکِ آزادی کے اہم قائدین میں شامل) کے کہنے پر جرمنی چلے گئے اور یہاں آپ کا یونی ورسٹی آف فرینکفرٹ کے شعبہ کیمسٹری میں داخلہ ہوا۔ یہاں آپ باقاعدہ کیمسٹری کے ساتھ منسلک رہے اور الکلائیڈ کے موضوع پر اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ الکلائڈز قدرتی طور پر پائے جانے والے مرکبات کا ایک ایسا گروپ ہے جو پودوں اور کچھ فنجائی میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً کیفین، نیکوٹین ، مورفین اور کوکین وغیرہ۔ ان کے جانداروں پر مختلف اثرات ہوتے ہیں۔یہ درد سے نجات ، پْر سکون نیند ، ملیریا اور دیگر امراض میں شفا بخش ثابت ہوتے ہیں۔

ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بعد آپ واپس بھارت چلے آئے اور یہاں بر عظیم کے مشہورِ زمانہ حکیم ،حکیم مسیح الملک اجمل خان کے کہنے پر دہلی میں یونانی طب اور آیورویدک پر تحقیق کے ادارے قائم کیے۔ اس سلسلے میں آپ کو حکیم اجمل خاں جیسے غیر معمولی حکیم کی خصوصی رہنمائی حاصل رہی۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ایک کہنہ مشق اور باریک بین کیمیا دان تھے آپ نے پودوں سے کئی الکلائڈ کشید کیے اور انھیں ادویات میں استعمال کیا اور اپنی ایجاد کردہ ادویات کا نام حکیم اجمل خان کے نام پر رکھا جیسے کہ اجملین ، جو ان کی ایجاد کردہ مقبول دوا ہے۔

جو ہائی بلڈ پریشر، ہسٹریا اور دیوانگی کے علاج میں بہت مقبول ہے۔یہ دوا یورپ میں بھی مذکورہ امراض کا تیر بہ ہدف علاج تسلیم کی جاتی ہے۔ اسی طرح انھوں نے مزید پودوں سے ایسے الکلائیڈ حاصل کیے جو پیچس اور امراض قلب کے لیے دوا ثابت ہوئے۔ یوں ڈاکٹر سلیم الزماں نے دوا سازی میں انقلاب بپا کیا۔ یاد رہے کہ عام انتخابات میں ان مٹ سیاہی جو انتخابات کے دوران ووٹروں کی شہادت کی انگلی پر لگائی جاتی ہے تاکہ انتخابی دھوکہ دہی جیسے دوہرے ووٹنگ کو روکا جا سکے ، وہ ڈاکٹر سلیم الزماں نے پہلی مرتبہ لیبارٹری میں تیار کی اور یہی سیاہی پاک و ہند کے عام انتخابات میں استعمال ہوتی آرہی ہے۔

سائنس کے میدان میں آپ کی ایسی کئی خدمات اور کارنامے قابل تحسین ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق آپ نے تین سو تحقیقی مقالے اور قریباً پچاس ادویات کے فارمولے تیار کیے۔ آپ کی سائنسی شخصیات سے بہت اچھی رفاقت تھی اور انھوں نے آپ کی سائنسی خدمات کا اعتراف بھی کیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام اس حوالے سے ایک اہم نام ہیں جنھوں نے آپ کو رائل سوسائٹی آف لندن کا فیلو بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی سال آپ کو ’’سوویٹ اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کی جانب سے گولڈ میڈل عطا ہوا۔ یورپ کے ممتاز تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے آپ نے کئی اہم اعزازات اپنے نام کیے۔آپ کا شمار ان سائنس دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے سماج سے سائنسی محرومیوں کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے سائنس اور سائنسی شعور کے فروغ کا چراغ روشن کیا۔

سائنس کے علاوہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی آرٹس کے میدان میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ کا خاندان علم و ادب اور تخلیقی فنون کا گہوارا تھا۔ ڈاکٹر سلیم الزماں مصوری کے میدان میں کمال مہارت رکھتے تھے اور یہ فن انھیں ورثہ میں ملا تھا۔ آپ کے والد ایک عمدہ خطاط اور آپ کے بڑے بھائی سمیع الزماں صدیقی بھی اسی فن سے وابستہ تھے جو بذاتِ خود رابندر ناتھ ٹیگور کے شاگردوں میں سے تھے۔

اس طرح آپ نے اس روایت کو مستحکم رکھا اور مصوری کے ایوان میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ صدیقی صاحب تجربہ گاہ میں کیمیائی مادوں اور کیمیائی شیشیوں سے فرصت کے بعد مصوری کی مشق میں مصروف ہو جاتے۔ ان کی مصوری کی نمائش پاک و ہند سمیت بیرون ممالک میں بھی منعقد ہوئی۔پہلی دفعہ آپ کی پینٹنگ کی نمائش فرینکفرٹ (جرمنی) میں ہوئی۔ انھوں نے اپنی پہلی کمائی مصوری سے حاصل کی۔

یہاں یہ بات قابلِ اعتنا ہے کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نہ صرف اعلی و ارفع مصور تھے بلکہ فنِ مصوری کے زبردست نقاد بھی تھے۔ مصوری اور مجمسہ سازی کی تاریخ ، ارتقا ، عروج و زوال اور مصر سے لے کر ہندوستان کے نام ور مصوروں پر آپ کی عمیق نظر تھی۔ جن سے ان کے تنقیدی شعور کا پتہ ملتا ہے۔

فن مصوری پر آپ کے مضامین تقریروں کی صورت ریڈیو کے سلسلوں میں ملتے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کا ایک مضمون ریڈیو پر تقریر کی صورت ایک اہم ہندوستانی مصور ’’جامینی رائے‘‘ پر ملتا ہے جو فن مصوری میں شاندار تخلیقی نمونوں کے سبب مقبول تھا اور اس فن میں ٹیگور کا شاگرد رہا۔ بڑے بڑے مصوروں نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے فن مصوری کو نہ صرف سراہا بلکہ انھیں اساتذہِ فن کا درجہ بھی دیا جن میں احمد پرویز، منصور راہی، صادقین اور امام علی وغیرہ شامل ہیں۔

ڈاکٹر سلیم الزماں متنوع صلاحتیوں کی دولت سے مالا مال تھے۔ ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ادیب، شاعر اور مترجم کی حیثیت سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ شعر و ادب سے انھیں خاص شغف تھا۔ وہ خود بھی شعر کہتے تھے۔ مصوری کی طرح یہ فن بھی انھیں وراثت میں ملا۔ صدیقی صاحب کو اردو، انگریزی، فارسی، عربی اور جرمن زبان پر عبور حاصل تھا۔اس بات سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ انھوں نے جرمنی کے مشہور شاعر رلکے کی منتخب نظموں کا براہ ِ راست ترجمہ کیا اور اس کی شاعری کو اردو زبان میں منتقل کیا۔

ترجمے کے ساتھ ساتھ رلکے کی شاعری پر آپ کی تنقیدی بصیرت کا راز بھی کھلتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک عمدہ نقاد بھی تھے اور اس تنقیدی بحث کو ہم ریڈیو پر محفوظ ان کے ادبی مباحثوں اور تقریروں میں سن سکتے ہیں۔ صدیقی صاحب کا علمی و ادبی مطالعہ بہت وسیع تھا۔آپ نے فارسی اور اردو شعرا سمیت مغربی شاعروں کا مطالعہ بھی کر رکھا تھا۔ڈاکٹر سلیم الزماں ، غالب اور میر کے عشاق میں سے ایک تھے۔

فکرِ غالب پر پروفیسر ممتاز حسین کی میزبانی میں، مجنوں گورکھ پوری کے ساتھ ایک ادبی مباحثہ صدیقی صاحب کی غالب فہمی پر دال ہے۔ غالب کے سائنسی شعور کے حوالے سے آپ کئی اشعار کی سائنسی تعبیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ لوگ مجھ سے ایک سائنس دان کی حیثیت سے غالب اور اقبال پر سائنسی نقطہ نظر سے کچھ کہنے کی فرمائش کرتے ہیں تو میں فکرِ غالب کو سائنسی تناظر میں بھی دیکھتا ہوں اور ساتھ وہ اشعار کی مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح غزل اور دیگر اصناف سمیت قافیہ و ردیف اور استعارے پر ان کے ادبی مذاکرے سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ (راقم نے جن مضامین، تقاریر اور علمی و ادبی مباحثوں کا تذکرہ کیا وہ بحوالہ یوٹیوب پر ’’خورشید عبد اللہ :آواز خزانہ‘‘ چینل پر موجود ہیں)

مزید براں آپ کے حلقہ احباب میں ادبا و شعرا کی ایک اہم فہرست شامل تھی۔جن کے ساتھ آپ علمی و ادبی مذاکروں میں شامل ہوتے اور تبادلہ خیال کرتے۔ فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے ان کو خاص رغبت تھی۔فیض کی وفات کے بعد صدیقی صاحب نے فیض پر ایک مضمون ’’فیض کی یاد میں‘‘ بھی قلم بند کیا۔ جہاں تک موسیقی کی بات ہے ، تو ان کی ایک جہت موسیقار کی حیثیت سے بھی ہے۔اس سلسلے میں آپ اورینٹل اور یورپین کلاسیکل میوزک سے منسلک رہے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں ، ہمہ گیر شخصیت کے مالک اور مشرقی تہذیب کے نمائندہ فرزند تھے۔ علمی و ادبی مذاکروں میں ، ان کی مسحور کن گفتگو ، شائستہ و دل آویز لہجہ ، بر جستہ و برمحل اشعار کے حوالے، بذلہ سنجی اور دلچسپ لطیفوں سے ان کی نستعلیق شخصیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی پاک و ہند میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ تقسیم ہند کے بعد آپ پاکستان چلے آئے اور یہاں آپ نے میں پاکستان کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ ادارہ قائم کیا۔ 1966 میں آپ جامعہ کراچی کے شعبہ کیمسٹری سے وابستہ ہوگئے اور یہاں اپنے قائم کردہ تحقیقی ادارے حسین ابراھیم جمال (Hej) سے آخری دم تک منسلک رہے اور علم و تحقیق میں طلبہ کی رہنمائی کرتے رہے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کو ملک اور بیرون ملک کئی اعزازات ملے۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا۔

مگر انھیں مقتدر اور سرکاری افسروں سے کچھ گلے شکوے رہے۔اس حوالے سے جناب عمران اختر اپنے تحقیقی مضمون ’’ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی ادبی خدمات‘‘ میں بتاتے ہیں کہ آپ کو ہمیشہ یہی گلہ رہا کہ ارباب ِ اختیار نے ان کی صلاحیتوں سے ہمیشہ رو گردانی کی اور خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ کیا۔ سائنس اور آرٹس کے میدان کا یہ شہوار اور دلِ درد مند 14 اپریل 1994 کو ستانوے سال کی عمر میں انتقال کر گیا اور آپ کو جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ایک طرف ڈاکٹر عبدالسلام جیسا عالمی شہرت کا حامل سائنس دان ہے جسے اپنے ہی وطن میں تسلیم نہیں کیا گیا اور دوسرے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ہیں جن کی سائنس و فنون سے متعلقہ خدمات کو فراموش کردیا گیا۔ ہمارے ہاں جینوئن شخصیات کو قعرِ گمنامی میں پھینک دیا جاتا ہے اس لیے آج نسل نو ان نابغہ روزگار شخصیات کی خدمات تو دور کی بات ہے۔

 ان کے نام تک سے واقف نہیں۔ ہر سماج اور معاشرے کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جن کے سبب وہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک کی ترجیحات علمی و ادبی اور سائنسی نوعیت کی نہیں اور ایسے مثالی کردار آہستہ آہستہ محض تاریخ کی کتابوں تک محدود رہتے ہیں۔ ریاست اور تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے حوالے سے کانفرنسز اور سیمینار کا انعقاد کرے تاکہ ان سے شناسائی ہونے کے ساتھ ساتھ نسل نو کے دل میں تحقیق اور جستجو کی امنگ پیدا ہو اور ہمارے سماج میں سائنسی شعور کا احیا و فروغ ممکن ہو سکے۔ 

متعلقہ مضامین

  • ریلوے ٹریک بحال ہونے کے 9 ماہ بعد سبی سے ہرنائی پہلی ٹرین کی کامیاب آزمائش
  • اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ
  • ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ایک ہمہ جہت شخصیت
  • جو مرضی کر لیں این آر او نہیں ملے گا، فیصل کریم کنڈی
  • ضروری سیاسی اصلاحات اور حسینہ واجد کے ٹرائل تک انتخابات قبول نہیں، جماعت اسلامی بنگلہ دیش
  •   تمام صوبائی وزیر کرپشن کر رہے ہیں، گورنر کی گواہی
  • اسلام آباد سمیت تمام ہائی کورٹس میں مستقل چیف جسٹس تعینات کرنے کا فیصلہ
  • خیبرپختوںخوا حکومت کے تمام ادارے، وزرا کرپشن میں ملوث ہیں، گورنر پختونخوا
  • اسلام آباد سمیت تمام ہائی کورٹس میں مستقل چیف جسٹس تعینات کرنے کا فیصلہ
  • آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز کیلئے، سویلین کو لانا ہوتا تو الگ سے ذکر کیا جاتا: جسٹس نعیم