UrduPoint:
2025-04-22@06:02:08 GMT

دو ٹکے کی نوکرانی چاکلیٹ کھائے گی؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

دو ٹکے کی نوکرانی چاکلیٹ کھائے گی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 فروری 2025ء) چاکلیٹ اور وہ بھی امپورٹڈ! ایک دو ٹکے کی ملازمہ کی یہ ہمت کہ مالکن کی بچی کی چاکلیٹ چرا کر کھائے؟ بچی تھی تو کیا؟ تھی تو کام والی نا! چاکلیٹ کھانے کے لیے ایک ملازمہ کا دل کیسے مچل سکتا ہے؟ اپنے گھروں میں انھیں ایک وقت کی روٹی نہیں ملتی نہ کہ یہ چاکلیٹ کھائیں؟ آج چاکلیٹ چرائی تھی کل نہ جانے گھر سے کیا کیا چرا لیتی؟ سزا تو دینی تھی۔

وہ تو تیسرا راڈ سر پر پڑتے ہی بے دم ہو کر گر پڑی تھی ورنہ مالکن کا پارہ تو آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔

کمسن ملازمین پر تشدد کرنے والے مالکان کی اکثریت اپنی وحشیانہ کارروائیوں کو ایسے ہی جواز مہیا کرتے ہیں.

چند روز قبل راولپنڈی کے رہائشی راشد قریشی اور اس کی بیوی کے ہاتھوں ایک 13 سالہ کمسن ملازمہ اقراء اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔

(جاری ہے)

لیکن یہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں اس سے قبل

راول پنڈی میں 7 سالہ زہرہ طوطے کا پنجرہ کھولنے پر ماری گئی!

لاہور میں معمولی غلطی سرزد ہونے پر سولہ سالہ عظمی بی بی کی لاش نہر برد کی گئی۔

لاہور ڈیفینس میں فریج سے کھانا نکال کر کھانے کی پاداش میں 6 سالہ رضوان کو شدید زخمی اور 12 سالہ کامران کو جان سے مار دیا گیا تھا۔

خیرپور کے علاقے رانی پور کی نو سالہ کمسن ملازمہ کے ساتھ آستانے کا پیر اسـ وقت تک آبروریزی کرتا رہا جب تک وہ اپنے خالق حقیقی سے نہ جاملی۔ جب کہ اسی دوران پیر کی بیوی بچی پر بہیمانہ تشدد بھی کرتی رہی تھی۔

لاہور کی غالب مارکیٹ میں مالک نے اپنے 14 سالہ گھریلو ملازم سنی کو کسی غلطی کی سزا پہلے بدفعلی اور پھر اسے قتل کر کے دی۔

اس کے علاوہ مالکان کے بہیمانہ تشدد کے باوجود زندہ بچ جانے والی طیبہ، رضوانہ، مہرین اور عطیہ جیسی نہ جانے کتنی کمسن بچیاں اور بچے اور ہوں گی جو اپنے بے حس اور ظالم مالکان کے ہاتھوں دن رات ظلم و بربریت سہتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور نہ ہی عوام تک ایسی گھناؤنی وارداتوں کی خبریں پہنچتی ہے ـ

ہر نیا پیش آنے والا واقعہ پچھلے سے زیادہ گھناؤنا اور رونگھٹے کھڑے کردیتا ہے اور تشویش ناک بات یہ ہے۔

ظلم و بربریت کی داستان رقم کرنے میں مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں بلکہ اکثر ایسے اندوہناک واقعات میں خواتین مالکان زیادہ جابر اور بے درد نظر آتی ہیں۔ دراصل ایسے صاحب استطاعت گھرانوں کی نظر میں نوعمر ملازمین کے یہ معمولی غلطیاں ناقابل معافی جرائم ہیں جن کی سزا کبھی سر مونڈھ کر، جسم داغ کر، جلا کر، سر پھاڑ کر اور بس چلے تو جان لے کر، دی جاتی ہے۔

کمسن ملازمین پر تشدد کے واقعات ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہے جس کے نتیجے میں غربت کا عفریت ازخود بے قابو ہو جاتا ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیں جہاں آٹھ دس بچے ہوں اور کمانے والا ایک شخص ہو تو پھر غربت کا راج کیسے نہ ہو؟ یہ مظلوم بچے اپنے اور اپنے خاندان کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے ملازمت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

غربت کے باعث جب والدین بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو انھیں لا محالہ اپنے بچوں کو کم عمری میں ہی کام پر لگانا پڑتا ہے۔ مالکان کے گھر کا ماحول کمسن بچے بچیوں کے لیے غیر محفوظ ہوتا ہے جہاں ان کا استحصال بھی آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان بچوں اور ان کے والدین کو عمر بھر اپنے ساتھ ہونے والے اس استحصال کا ادراک ہی نہیں ہوپاتا۔

گو کہ اس کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ تاہم بھوک و افلاس کے مارے معاشرے میں تعلیم کی عدم دستیابی ایک لازمی امر ہے۔ جہاں پیٹ بھر کھانا اور تن ڈھانپنا ہی مشکل ہو وہاں تعلیم کی افادیت پر بھاشن دینا چہ معنی دارد۔ تعلیم سے دوری کی بنا پر شعور کی کمی اور اپنے حقوق سے نابلد ہونا بچوں کو مزدوری کی طرف مائل کرتا ہے۔ اسکول جانے کی عمر میں اگر بچے اپنے خاندان کی کفالت کی ذمہ داریاں اٹھانے میں لگ جائیں گے تو انھیں اپنے حقوق سے آگاہی کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ لیکن یہ حکمت عملی ہماری اشرافیہ کے مفاد میں جاتی ہے اور وہ پوری شدومد سے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کے سدباب کے لیے کبھی سنجیدہ قدم نہیں اٹھاتے۔

دوسری جانب ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر شدت پسند ہے۔ ملک میں عمومی طور پر پرتشدد واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے سماجی رویے اور ہماری بیمار ذہنیت کمزور طبقے کو دبانے میں کافی معاون بھی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن جب یہ مالکان اپنے گھناؤنے کرتوت پر پکڑے جاتے ہیں تو کیمرہ دیکھ کر منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرے کے ایسے وحشی مرد و زن کی تصاویر سر عام میڈیا پر دکھائی جانی چاہیے تاکہ ان کا کڑا احتساب کیا جائے۔

لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔کچھ عرصہ تو میڈیا پر زوروشور سے ایسے گھناؤنے کرداروں کے خلاف مہم شروع ہوتی ہے تو ادارے بھی وقتی طور پر حرکت میں آجاتے ہیں۔ لیکن جہاں ذرا معاملہ ٹھنڈا پڑتا ہے مالکان اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے سزا سے بچ نکلتے ہیں۔

کمسن اور نوعمر ملازمین رکھنے کا رجحان اور پھر ان پر ہولناک تشدد کے واقعات کی تفصیلات دیکھ اور پڑھ کر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ بظاہر یہ صاحب استطاعت اور پڑھے لکھے گھرانے نارمل ہرگز نہیں بلکہ کسی شدید نفسیاتی عارضہ کا شکار ہیں۔

اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے سماج میں یہ تاثر عام ہے کہ گھریلو ملازمین کمتر ہوتے ہیں۔ جہاں ملازمین کے گلاس، کپ ساسر اور پلیٹیں الگ تھلگ رکھنا، باسی کھانا دینا اور بات بے بات گالم گلوچ کرنا معمول کی بات سمجھی جاتی ہو وہاں اقراء جیسے کمسن ملازمین پر تشدد کے واقعات کا پیش آنا کوئی اچھنبے کی بات کیسے ہو سکتی ہے؟

اکثر کہا جاتا ہے کہ ملازمین کے والدین بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔

بالکل بجا! لیکن غربت تعلیم اور شعور کی کمی کے باعث ہم انھیں پوری طرح مورود الزام نہیں ٹہرا سکتے کیونکہ ان کے حالات اس نہج پر ہوتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو خود سے بہتر سماجی اور تعلیمی پس منظر رکھنے والوں کے حوالے کرنے میں ہی اپنی اولاد کی بہتری سمجھتے ہیں۔ قصور تو سراسر ہم جیسے صاحب استطاعت گھرانوں کا ہے جو آج بھی گھریلو ملازمین کے ساتھ غلاموں والا سلوک کرتے ہیں۔

جن غریب والدین کی بچیاں مالکان کے ہاتھوں جان سے گئیں بیشتر نے انصاف پانے کے لیے مہینوں اور برسوں در در کی ٹھوکریں کھائیں لیکن جہاں ظالم مضبوط اور بارسوخ ہو وہاں احتساب کا فقدان بھی ہوگا اور قانون پر عملدرآمد بھی ناممکن ہوگا۔

کمسن گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات تب تک کم نہیں ہوں گے جب تک ریاستی سطح پر اس کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات نہ کیے جائیں گے۔

جس کے لیے سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر ملک سے غربت اور بے روزگاری کے عفریت سے چھٹکارا پانا ضروری ہے اور ملک کے بجٹ کو دفاع میں جھونکنے کے بجائے فلاحی کاموں پر خرچ کیا جانا چاہیے۔

کمسن ملازمین کے تحفظ کے لیے خصوصی مدد کے ادارے اور ہیلپ لائنز قائم کیے جانے چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے بیمار سماجی رویوں اور ذہنیتوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کم از کم یہ معصوم و کمسن بچے ایک محفوظ دنیا میں سکون سے جی تو سکیں۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ملازمین پر تشدد تشدد کے واقعات کمسن ملازمین ملازمین کے مالکان کے ہوتے ہیں کے لیے

پڑھیں:

عوام کا ریلیف حکومت کے خزانے میں

موجودہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے دعوے ویسے تو صبح وشام کرتی رہتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی مجبوریوں کا اظہار بھی کرتی رہتی ہے لیکن ریلیف دینے کا جب جب موقعہ میسر آتاہے وہ اس میں کٹوتی کرنے کی تدابیر بھی سوچنے لگتی ہے۔ایسا ہی اس نے ابھی چند دن پہلے کیا۔

وہ جانتی تھی کہ عوام عالمی سطح پر پیٹرول کی قیمتوں میں بڑی کمی کا ریلیف اپنے یہاں بھی دیکھنا چاہ رہے ہیں،لہٰذا اس نے بلوچستان میں اٹھنے والی شورش کو بہانہ بناکر وہاں ایک بڑی شاہراہ بنانے کی غرض سے یہ متوقع سارا ریلیف اپنے خزانے میں ڈال لیا۔یہ مجوزہ شاہراہ بنتی ہے بھی یا نہیں ،ابھی اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہاجاسکتاہے بلکہ خود حکومت کے مستقبل کے بارے میں بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ حکومت اپنے بقیہ چار سال پورے بھی کرپائے گی یانہیں۔ایک لیٹر پیٹرول پر حکومت نے ابھی ایک ماہ پہلے ہی دس روپے اضافہ کرکے لیوی کو ستر روپے کردیا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ پچھلی حکومت کے دور میں IMF نے اسی لیوی کو 35 روپے کرنے کو کہا تھااوروہ بھی قسطوں میں یکمشت نہیں۔مگر ابھی تو کسی عالمی مالیاتی ادارے نے ہم سے اس جانب کوئی مطالبہ بھی نہیں کیاتھامگر اس حکومت نے اپنے ڈیڑھ دو برسوں میں اسے ستر روپے سے بھی زائد کرکے اپنے بجٹ کا خسارہ کم کرنے کا بہت ہی آسان طریقہ ڈھونڈلیا۔

ستر روپے فی لیٹر ہی کچھ کم نہ تھاکہ اب اس میں مزید آٹھ روپے کاسراسر ناجائز اضافہ کردیا۔دیکھا جائے توامریکا کی جانب سے ٹیرف میں اضافے کے بعد عالمی مارکیٹوں میں تیل کی قیمت میں بیس فیصد تک کمی ہوئی ہے لیکن ہماری دردمند حکومت نے صرف تین فیصد یعنی آٹھ روپے ہی کم کرکے اسے بلوچستان کے عوام سے ہمدردی کے نام پراپنے خزانے میں منتقل کردیے۔یہ مجوزہ سڑک اورشاہراہ نجانے کب بنتی ہے کسی کو نہیں پتا۔ ایک طرف بلوچستان کے عوام سے اظہارہمدردی کرکے اوردوسری طرف ترقی وخوشحالی کے دعوے کرکے یہ ایک بڑا ریلیف عوام کی پہنچ سے دور کردیا۔دیکھا جائے تو تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو ملنا چاہیے تھااورساتھ ہی ساتھ بجلی کی قیمتوں میںبھی مزید کمی کی جانی چاہیے تھی مگر سرکاری ہیرا پھیری نے یہ سارا ریلیف اپنے ذاتی ریلیف میں تبدیل کرلیا۔ایک لٹر پیٹرول پر78 روپے لیوی شاید ہی کسی اورملک میں لی جاتی ہو۔

یہ لیوی جس کامطالبہ IMF نے بھی نہیں کیامگر ہماری حکومت نے اپنے طور پراپنے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کی غرض سے لاگو کردیا۔ اُسے لمحہ بھر کے لیے عوام کی کسمپرسی اورمفلوک الحالی کا بھی خیال نہیں آیا کہ وہ کس حال میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں اگر عالمی سطح پرپھرسے بڑھیں تو حکومت اُسے اپنے یہاں بڑھانے میں ذراسی بھی دیریا غفلت نہیںکرے گی۔

حکومت نے اپنے پارلیمانی ساتھیوں کے معاوضے میںتو یکمشت پانچ سو فیصد تک اضافہ کردیا مگر عوام کو دس بیس روپے کا ریلیف دینے سے بھی انکار ی ہے۔ حکومت اپنے ایسے کاموں سے اپنی وہ کارکردگی اورستائش ضایع کردیتی ہے جو اس نے اگر کچھ اچھے کاموں سے حاصل کی ہوتی ہے۔ بجلی کی قیمت کم کرنے والا حکومتی اقدام اگرچہ ایک اچھا اقدام تھا مگر اسکی تشہیر کا جو طریقہ اپنایا گیا وہ کسی طور درست نہیںتھا۔ ہرٹیلی فون کال پروزیراعظم کی آواز میں قوم کو اس احسان کی یاد دہانی درست نہیں۔ سوشل میڈیا پر اس طریقہ کا مذاق بنایا گیا ۔پچھتر برسوں میں ہم نے پہلے کبھی کسی بھی حکمراں کی طرف سے ایسا کرتے نہیں دیکھا تھا۔

حکومت نے بے شک اس مختصر عرصے میں اچھے کام کیے ہیں جن کااعتراف اور پذیرائی بھی بہرحال عوام کی طرف سے کی جارہی ہے لیکن یاد رکھاجائے کہ ابھی بہت سے اور بھی کام کرنے ہیں۔بجلی کی حالیہ قیمتیں اب بھی بہت زیادہ ہیں، اسے مزید کم ہونا چاہیے۔IPPs سے مذاکرات کرکے اسے مزید کم کیاجاسکتا ہے۔ ان کمپنیوں سے اس داموں بجلی بنانے کے معاہدے بھی ہماری دوسیاسی پارٹیوں کی حکومتوںنے ہی کیے تھے ۔ اپنی ان غلطیوں کا ازالہ موجودہ حکومت اگر آج کررہی ہے تو یقینا یہ قابل ستائش ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ قوم کو صبح وشام گوش گزار کرکے اپنی تشہیر کی جائے۔سابقہ دور میں غلط کاموں کی تصحیح بہرحال ایک اچھا اورصائب قدم ہے اوراسے مزید جاری رہنا چاہیے۔ بجلی کی قیمت میںمزید کمی ہونی چاہیے ۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ اس مد میں بھی عوام کو ملناچاہیے۔ بلوچستان کے لوگوں کا احساس محرومی صرف ایک سڑک بنانے سے ہرگز دور نہ ہوگا۔وہاں کے لوگوں کی تشویش کئی اور وجوہات سے بھی ہے ہمیں اُن وجوہات کا ازالہ بھی کرنا ہوگا۔ سارے ملک کے لوگوں سے پیٹرول کی مد میں 20روپے نکال کراسے سات آٹھ روپے ظاہرکرکے بلوچستان میںسڑک بنانے کے لیے رکھ دینے سے وہاں کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ ہمیں اس مسئلے کا سنجیدہ بنیادوں پرحل تلاش کرنا ہوگا ۔ ایسالگتا ہے حکومت کو اب بھی وہاں کی اصل صورتحال کاادراک ہی نہیں ہے یاپھر وہ جان بوجھ کراسے نظر انداز کررہی ہے ۔

 ہم یہاں حکومت کو یہ باورکروانا چاہتے ہیں کہ وہ اگرکچھ اچھے کام کررہی ہے تو خلوص نیت اورایمانداری سے کرے ۔ پیٹرول کی قیمت جو ہماری کرنسی کی وجہ سے پہلے ہی بہت زیادہ ہے اُسے جب عالمی صورتحال کی وجہ سے کم کرنے کا موقعہ غنیمت میسر ہوتو پھر اُسے فوراً عوام کو منتقل کرناچاہیے ناکہ اُسے حیلے بہانوں سے روک لیناچاہیے۔پیٹرول جب جب دنیا میں مہنگا ہوتا ہے تو حکومت فوراً اسے اپنی مجبوری ظاہرکرکے عوام پر منتقل کردیتی ہے لیکن جب کچھ سستا ہوتو یہ ریلیف اپنے خزانوں میں ڈال دیتی ہے ۔

عوام کی تنخواہوں میں اضافے کی ہر تجویز IMFکے ساتھ ہونے والے معاہدے سے نتھی کرکے ٹال دیاجاتا ہے جب کہ اپنے پارلیمانی ساتھیوں کی مراعات میں کئی کئی سوفیصد اضافہ کرتے ہوئے اُسے IMF کی یہ شرائط یاد نہیں آتی ہیں۔یہ دورخی پالیسی سے عوام بددل ہوجاتے ہیں۔حکمرانوں کو اپنے ان طور طریقوں پرغور کرنا ہوگا۔سب کچھ اچھا ہے اورعوام اس سے خوش ہیں ۔اس خام خیالی سے باہر نکلنا ہوگا۔اپنے ساتھیوں کی مداح سرائی کی بجائے ذرا باہر نکل کربھی دیکھیں عوام کس حال میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

سات روپے بجلی سستی کرکے یہ سمجھ لینا کہ عوام ان کی محبت میںسرشار ہوچکے ہیں اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ قوم سے ہربرے وقت میں قربانی مانگنے کی بجائے اب خود بھی کوئی قربانی دیں۔اس مشکل وقت میںپچاس پچاس وزیروں کی بھلاکیا ضرورت ہے اور وہ بھی بھاری بھرکم تنخواہوں پر۔یاد رکھیں عوام اب مزید قربانیاں دینے کوہرگز تیار نہیں ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا اقدام، ایک لاکھ ملازمین کی نوکریاں خطرے میں
  • خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال کیلیے بجٹ کی تیاری شروع کر دی
  • آغا راحت کی سرکاری ملازمین پر تنقید مناسب نہیں، انجینیئر انور
  • پنجاب میں تنخواہ دار ملازمین پر ٹیکس شکنجہ کسنے کی تیاری، بل آج پیش کیا جائے گا
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • ملازمین کی سائیکلوجیکل پروفائلنگ کیلئےسافٹ ویئر تیار
  • پنجاب ریونیو اتھارٹی کے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کر دیا گیا
  • خاندان کی موت، 4 سالہ بچی کئی دن تک چاکلیٹ کھا کر زندہ رہی
  • دبئی کا وائرل چاکلیٹ، دنیا بھر میں پستوں کی قلت پیدا ہوگئی
  • عوام کا ریلیف حکومت کے خزانے میں