پاکستان میں فارماسیوٹیکل تجارت کے فروغ کیلئے ڈیجیٹل کلیرنس گیٹ وے کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
اسلام آباد(اوصاف نیوز)پاکستان سنگل ونڈو (PSW) اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران باضابطہ طور پر ڈریپ کلیرنس گیٹ وے کا اجراء کیا۔عالمی ادارہِ صحت (WHO) کے نمائندہ، ڈاکٹر لو ڈاپنگ نے بطور مہمانِ خصوصی تقریب میں شرکت کی جس میں مختلف حکومتی اداروں، بین الاقوامی ڈویلپمنٹ پارٹنرز، اور فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے نمائندے بھی شریک تھے۔
ڈریپ کلیرنس گیٹ وے ایک جدید ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہے جس کا مقصد ریگولیٹری کمپلائنس کو آسان بنانا، غیرموئثر طریقوں کا خاتمہ، اور فارماسیوٹیکل سپلائی چین میں براہِ راست شفافیت فراہم کرنا ہے۔ انتظامی تاخیر کو کم کر کے اور ضروری ادویات کی کلیرنس کو تیز کر کے، یہ اقدام نہ صرف زندگی بچانے والی ادویات تک رسائی کو بہتر بناتا ہے بلکہ پاکستان کے تجارتی نظام کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ڈائریکٹر ڈریپ نے اس تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، “اس پلیٹ فارم کا اجراء ہمارے ریگلولیٹری عمل کو جدید بنانے اور پاکستان کے فارماسیوٹیکل سیکٹر میں اعتماد کو فروغ دینے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اقدام معیاری ادویات کی محفوظ، بروقت اور شفاف طریقے سے دستیابی کو یقینی بنانے کے ہمارے مشترکہ عزم کا ثبوت ہے۔”
ڈریپ کلیئرنس گیٹ وے کو اہم اسٹیک ہولڈرز، بشمول فارماسیوٹیکل کمپنیوں، ہیلتھ کیئر پروفیشنلز، اور تجارتی ماہرین سے مثبت آراء موصول ہوئی ہیں، جو اس کی صلاحیت کو پاکستان کے صت کے شعبے میں کارکردگی، اعتماد، اور جدت کو فروغ دینے کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔
یہ پاکستان میں فارماسیوٹیکل تجارت کے لیے ایک نیا معیار قائم کرتا ہے، جو عالمی تجارت میں ملک کی پوزیشن کو ایک قابل اعتماد پارٹنر کے طور پر مستحکم کرتا ہے اور ساتھ ہی اقتصادی ترقی اور جدت کے فروغ میں معاون ثابت ہوگا۔ ڈریپ اور پی ایس ڈبلیو کی ڈومین ٹیموں کے ماہرین نے باہمی تعاون سے 4 سال کی مدت میں اس پلیٹ فارم کو ڈیزائن کیا، جس دوران متعدد غیر ضروری دستاویزات اور طریقہ کار کی ضروریات کو ختم کیا گیا۔ ڈریپ کے ملازمین اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو بھی اس نظام کے استعمال پر وسیع تربیت دی گئی ہے۔
چیف ایگزیکٹو آفیسر پی ایس ڈبلیو، سید آفتاب حیدر نے اس اقدام کے مثبت اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا، “ڈریپ کلیئرنس گیٹ وے پاکستان کی فارماسیوٹیکل صنعت کے لیے ایک اہم سنگ میل کی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ریگولیٹری عمل کو ڈیجیٹل بنا کر، ہم قوانین پر عملدرآمد کو آسان بنا رہے ہیں اور فارما انڈسٹری کے کاروبار کرنے کے وقت اور لاگت کو کم کرنے میں مدد دے رہے ہیں، جس سے وہ عالمی سپلائی چین میں زیادہ بہتر پرفارم کر سکیں گے۔ پی ایس ڈبلیو جدت کے فروغ سے عالمی سطح پر مربوط ہیلتھ کیئر فریم ورک قائم کرنے کیلئے پرعزم ہے۔”
ڈریپ کلیئرنس گیٹ وے کا آغاز حکومت پاکستان کی فارماسیوٹیکل صنعت سے متعلق ریگولیٹری عمل کو ڈیجیٹل بنانے اور برآمدات کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرنے کی کوششوں کے مطابق ہے۔
پرانے کاغذی طریقوں کو جدید اور موثر ڈیجیٹل سسٹمز سے بدل کر، پی ایس ڈبلیو پاکستان کے سرحد پار تجارتی نظام کو تبدیل کر رہا ہے۔ یہ ترقی تجارتی رکاوٹوں اور آپریٹنگ لاگت کو کم کرتے ہوئے ریگولیٹری کمپلائنس کو بہتر بنائے گی اور بین الاقوامی منڈیوں کے ساتھ بلا رکاوٹ ہم آہنگی کو یقینی بنائے گی۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کے کرتا ہے کے لیے
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
پاکستان اور افغانستان نے باہمی فائدہ مند تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اعلیٰ سطح کے روابط کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحق ڈار نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی کے ساتھ تفصیلی ملاقاتیں کی۔ ان ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں بشمول سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون، کنکٹیویٹی اور عوامی سطح پر رابطوں سمیت تعاون بڑھانے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
طویل سرد مہری اور باہمی بد اعتمادی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں ایک نئی رمق پیدا ہوئی ہے، جہاں کابل میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر دونوں ملکوں کے وفود سیکیورٹی، تجارت اور عوامی رابطوں جیسے اہم مسائل پر مذاکرات میں مصروف ہیں۔
سیاسی مبصرین اس دورے کو دوطرفہ تعلقات میں جمود کو توڑنے کی سنجیدہ کوشش قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو سیاسی تناؤ سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے سیاست اور تجارت کو الگ الگ معاملات کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ممالک کو غیر معمولی سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تجارت اور معاشی تعاون کو درپیش سیاسی چیلنجز کے باوجود مسابقتی صلاحیت بڑھانے، ٹرانزٹ ٹریڈ کے مسائل حل کرنے اور تجارتی سہولیات کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک منظم طریقہ کار کے تحت جاری رکھنا ہوگا،دونوں ممالک کو ایک ڈیجیٹل دستاویزی نظام اپنانا چاہیے جو کاروباری مقاصد کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنائے۔ سرحد کے ساتھ تجارتی زون قائم کیے جاسکتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان ڈیوٹی فری تجارت کی اجازت دیتے ہوں۔
پاکستان کو یو این ایچ سی آر اورکابل کے تعاون سے وطن واپسی کی ہم آہنگ پالیسی اپنانے کی بھی ضرورت ہے جو غیر امتیازی اور انسانیت پسند ہو۔کابل کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ تجارت کے فروغ میں رکاوٹ دونوں ممالک کے درمیان بارڈرز تنازعات ہیں، اچانک راستے بند ہوجاتے ہیں،کنٹینرزکو پورٹ پر روک دیا جاتا ہے، گزشتہ برس ساڑھے 4 ہزارکنٹینرز کراچی کے پورٹ پر کھڑے رہے۔ تاجروں کا مال ایسے پڑا رہے تو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے، دراصل دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو بگڑتا جا رہا ہے۔
سرحد کی بندش سے روزانہ تقریباً 15 لاکھ ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی برقرار رہی ہے، جس کی وجہ سے اکثر سرحدیں بند کی جاتی رہی ہیں۔ طالبان نے باڑ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر کے اور ہٹا کر پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے، افغان طالبان نے جان بوجھ کر سرحدی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھی ہے تاکہ قوم پرست جذبات کو بھڑکایا جاسکے، خود کو پاکستان سے دور رکھا جاسکے اور مذہبی اور قوم پرست دونوں خطوط پر عوامی قانونی حیثیت حاصل کی جاسکے۔
صوبہ بلوچستان کو دو ممالک افغانستان اور ایران کی سرحدیں لگتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک تجارتی طور پر وطن عزیز کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ وسطی ایشیائی ممالک سے تجارتی معاملات میں افغانستان اور ایران سے ترکی و یورپ تک رسائی ممکن ہے۔ اس وقت بلوچستان تجارت کے حوالے سے اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے، صوبے کو علاقائی سطح پر جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جارہا ہے، جس کا مقصد وطن عزیز سمیت صوبائی ترقی میں ایک نئی تبدیلی کا تعین ہے۔ دوسری طرف بادینی ٹریڈٹرمینل جس جگہ واقع ہے، وہاں تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے سب سے پہلے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر انتہائی ضروری ہے، جسے ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جانا چاہیے، چونکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے یہ علاقہ انتہائی طویل فاصلے (تقریباً گیارہ گھنٹے) کی مسافت پر ہے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر سڑکوں کی تعمیر بھی اس طرح نہیں کہ فوری طور پر تجارتی سرگرمیاں شروع کی جائیں۔
تجارتی سرگرمیوں کا انحصار اس کی لوازمات پر ہوتا ہے، افغانستان سے منسلک یہ سرحدی علاقہ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے میں واقع ہے اور اس پوائنٹ سے افغانستان چمن سرحدی علاقے سے قریب پڑتا ہے، تاہم ضروری لوازمات کے بغیر تجارتی سرگرمیوں کی بحالی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس تجارتی ٹرمینل کے روٹ کے لیے ایک خطیر رقم جلد فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی تمام متعلقہ اداروں کو آن بورڈ لیتے ہوئے اس پر ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنے اور اِن فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو یقینا دونوں ممالک کے مابین تجارت کو نہ صرف فروغ ملے گا بلکہ اس علاقے سے جڑے ہوئے لوگوں کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلی آئے گی۔
پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تعلقات سے متعلق معاملات میں بات چیت کو ترجیح دی ہے، پاکستان افغانستان کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتا ہے تاہم اپنے شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ پاکستان کا موقف اس معاملے میں خاصا واضح ہے، چونکہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے، اس لیے وہ مکمل آزادی کے ساتھ افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حملہ کر کے واپس اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے، اعداد و شمار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی توقعات کے برعکس کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں کمی کے بجائے اِن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے، جن کے تانے بانے افغانستان میں موجود تنظیموں سے ملتے ہیں۔ اگرچہ طالبان حکومت نے بارہا یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، مگر عملی طور پر صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔
افغانستان کے معاملے میں ایک اور اہم پیش رفت امریکا کی حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ ماضی میں امریکا نے طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے پاکستان کو انگیج کیا، لیکن اب وہ خلیجی ممالک کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ اپنا ایک یرغمالی بھی امریکا خلیجی ممالک کے توسط سے رہا کروا کے لے گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا پاکستان پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے، جو کہ پاکستان کے لیے ایک سفارتی چیلنج ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو مزید موثر بنائے اور افغانستان کے ساتھ براہ راست تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔
اگر پاکستان، افغانستان تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس کے مثبت اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ، اقتصادی تعاون، راہداری منصوبے، تجارتی معاہدے اور عوامی روابط دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ایک مستحکم افغانستان کی حمایت کی ہے اور اب یہ طالبان حکومت پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو دورکرے اور بھارتی مداخلت سے دور رہے۔ دوسری جانب عالمی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات بہتر ہوں بلکہ عالمی طاقتیں تو افغانستان پر مسلط ہونا چاہتی تھیں۔ ان حالات میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارے عوام کے لیے بہترکیا ہوگا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سفارتی اور سیکیورٹی کی سطح پر مشترکہ کوششیں ناگزیر ہیں۔ پاکستان نے مثبت قدم اٹھاتے ہوئے افغانستان کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کی ہے، لیکن یہ یکطرفہ عمل نہیں ہونا چاہیے۔
افغانستان کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو سنجیدگی سے لے اور عملی اقدامات کرے،اگر دونوں ممالک مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک خوش آیند پیش رفت ہوگی۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور قومی یکجہتی، دونوں ہی دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں۔ خطے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے، اگر افراتفری کی کیفیت ہوگی تو اس کے اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ ہر معاملے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے، یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔