اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 فروری 2025ء) بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ضلع سندھو درگ مالوان میں پولیس نے ایک مسلم خاندان سے تعلق رکھنے والے 15 سالہ لڑکے اور اس کے والدین کو محض اس شکایت پر گرفتار کر لیا، کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان چیمپیئنز ٹرافی میچ کے دوران ان کے گھر سے مبینہ طور پر "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ لگانے کی آواز آئی تھی۔

ریاستی حکام نے مسلم خاندان کی کباڑی کی دوکان کو بھی فوری طور پر بلڈوزر سے مسمار کر دیا اور اس کے بعد پولیس حکام نے ایک بیان میں کہا انہیں ایک شکایت موصول ہوئی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مذکورہ لڑکے نے گزشتہ اتوار کو پاکستان بھارت کرکٹ میچ کے دوران "ملک مخالف" نعرے لگائے تھے اور اسی پر کارروائی کرتے ہوئے دوکان کو منہدم کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

کرکٹ: کوہلی کی شاندار سنچری، بھارت نے پاکستان کو ہرا دیا

پولیس نے کیا کہا؟

ضلع سندھو درگ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سوربھ اگروال نے بتایا کہ جب کرکٹ میچ جاری تھا، تو اسی دوران ایک شخص رات کو ساڑھے نو بجے کے آس پاس مذکورہ خاندان کے گھر کے پاس گزر رہا تھا اور اسی نے الزام لگایا ہے کہ اس نے لڑکے کو "ملک مخالف" نعرے لگاتے ہوئے سنا۔

پولیس کے مطابق اس شخص نے پولیس میں شکایت درج کروائی ہے کہ اسی مذکورہ خاندان کے ایک 15 سالہ بیٹے نے چیمپیئنز ٹرافی میچ کے دوران "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ لگایا تھا، جس پر یہ کارروائی کی گئی ہے۔

چمپئینز ٹرافی: ’پاکستان کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں‘

پولیس نے منگل کے روز بتایا کہ انہوں نے مالوان کے ہادی گاؤں کے سچن سندیپ ورادکر کی شکایت پر پیر کے روز مقدمہ درج کیا ہے۔

پولیس کے مطابق مقدمہ والدین اور نابالغ کے خلاف درج کیا گیا ہے اور ان کی شناخت کتب اللہ خان (38)، عائشہ خان (35) اور ان کے بیٹے کے طور پر کی گئی ہے۔

بھارت کے معروف اخبار دی ہندو نے علاقے کے ایک پولیس افسر کے حوالے سے اطلاع دی ہے، جس نے اخبار کو بتایا کہ لڑکے کو حراست میں لیا گیا تھا، جسے چھوڑ دیا گیا اور "ہم نے بڑوں کو گرفتار کیا ہے نابالغ لڑکے کو نہیں۔

" اخبار کے مطابق نابالغ لڑکے نے مبینہ طور پر "افغانستان زندہ باد"، "بھارت گیا بھاڑ میں" جیسے نعرے لگائے تھے۔

پاکستان اور بھارت کے کرکٹ میچوں کے چند متنازع لمحات

پولیس میں درج شکایت کے مطابق لڑکوں کا ایک گروپ پاکستان پر بھارت کی جیت کا جشن منا رہا تھا اور تبھی ان میں سے ایک نے مبینہ طور پر بھارت مخالف نعرے لگائے، جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔

عام طور پر اس طرح کے واقعات کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتے ہیں، تاہم اب تک اس واقعے کی ویڈیوز یا دیگر شواہد عوامی ڈومین میں دستیاب نہیں ہیں۔

دہلی میں جناح کا بنگلہ: ہندو تاجر نے خرید کر گنگا جل سے دھلوایا تھا

حقوق کے علم برداروں کی نکتہ چینی

اس دوران انسانی حقوق کے لیے سرگرم متعدد شخصیات نے پولیس کی اس کارروائی پر نکتہ چینی کی ہے۔

معروف سماجی کارکن اپوروا آنند نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا، "ایک راہگیر پاکستان زندہ باد سنتا ہے اور پھر والدین کے ساتھ لڑکے کو گرفتار کر کے اس کی دکان مسمار کر دی جاتی ہے۔ اس پر ایک وزیر خوش ہو جاتے ہیں: اسے پڑھ کر اب پرسکون نہیں رہا جا سکتا، یا تو پھر آپ نے انسانیت ترک کر دی ہے۔"

ایک اور صارف کرشنا نے اس پر سوال اٹھایا کہ پڑوسیوں نے سنا، تو آخر اس کا ثبوت کیا ہے؟

داخلی سیاست پر مبنی بھارتی خارجہ پالیسی ایک بڑی کمزوری ہے

انہوں نے لکھا، "نئے بھارت میں اگر آپ کو گھر کے اندر بھی بات کرنی پڑے تو بہت دھیمی آواز میں کریں۔

تمام کھڑکیاں اور دروازے بند کر دیں۔ آپ نہیں جانتے کہ پڑوسی کیا سن سکتا ہے، شکایت کر سکتا ہے، پولیس آپ کو گرفتار کر سکتی ہے، میونسپل کارپوریشن آپ پر بلڈوزر چلا سکتی ہے۔ کسی پر بھی بھروسہ نہ کریں۔"

اس دوران سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے وہ ویڈیو شیئر کی ہیں، جس میں میچ کے دوران وراٹ کوہلی کی سنچری کا جشن پاکستان میں مداحوں کو مناتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ادھر ایک ہندو رہنما اور ریاستی وزیر نیلیش رانے نے پولیس کی اس کارروائی کی یہ کہہ کر تصدیق کی ہے کہ انہوں نے ہی سول اداروں کو مسلم خاندان کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا تھا۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین فوجی تعاون پر بھارت کو گہری تشویش

انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا کہ ملزم کا کہنا ہے کہ وہ اتر پردیش سے ہیں، لیکن وہ کوئی پتہ نہیں دے رہے ہیں۔ "وہ 10 سال پہلے مالوان آئے تھے۔ پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ مالوان کیوں اور کیسے آئے۔"

اس دوران اطلاعات کے مطابق مقامی وکلاء نے ملزمان کے مقدمے کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میچ کے دوران سوشل میڈیا کے مطابق انہوں نے لڑکے کو اور اس

پڑھیں:

آٹزم کیا ہے؟

میری دوست کی بیٹی کو آٹزم تھا اور وہ عام بچوں سے مختلف تھی۔ انھیں اس بیماری کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا، لہذا وہ بچی اسکول میں تعلیم حاصل نہ کرسکی۔ والدین کو علاج سے لے کر سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

 آئیے! جانتے ہیں کہ آٹزم کیا ہے۔

آٹزم ایک اعصابی (neurological) اور نشوونما سے متعلق بیماری ہے جو بچوں میں ابتدائی عمر میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ کیفیت انسان کی بات چیت، سماجی روابط، رویوں اور دلچسپیوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ آٹزم ایک ’’ اسپیکٹرم ڈس آرڈر‘‘ (Spectrum Disorder) ہے، یعنی اس کی شدت مختلف افراد میں مختلف ہوتی ہے۔ کچھ افراد معمولی طور پر متاثر ہوتے ہیں جب کہ کچھ کی حالت شدید ہوسکتی ہے۔آٹزم جسے اب ’’آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر'' (ASD) کہا جاتا ہے، ایک نفسیاتی حالت ہے جو عموماً تین بڑی علامتوں سے پہچانی جاتی ہے۔

(الف) سماجی میل جول میں مشکلات۔

(ب) زبان اور بات چیت میں تاخیر یا غیر معمولی انداز

(ج) محدود، تکراری اور مخصوص دلچسپیاں یا رویے۔

آٹزم کی علامات عام طور پر 2 سے 3 سال کی عمر تک سامنے آ جاتی ہیں اور بعض اوقات ایک سال کی عمر میں ہی اندازہ ہو سکتا ہے کہ بچہ عام بچوں سے مختلف انداز میں ردعمل دے رہا ہے۔

آٹزم کی وجہ ابھی تک مکمل طور پر معلوم نہیں ہو سکی، مگر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مختلف جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل کا مجموعہ ہو سکتا ہے۔

بہت سے کیسز میں آٹزم موروثی (genetic) ہوتا ہے، اگر خاندان میں پہلے کسی کو آٹزم ہو تو بچوں میں اس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ آٹزم سے متاثرہ بچوں کے دماغ کی ساخت اور کام کرنے کا طریقہ عام بچوں سے مختلف ہوتا ہے، خاص طور پر وہ حصے جو سماجی روابط اور بات چیت سے متعلق ہیں۔

بعض سائنسی نظریات کے مطابق دورانِ حمل کچھ ماحولیاتی اثرات جیسے وائرس، ماں کی صحت یا دواؤں کا استعمال بھی بچے کے دماغی نشوونما کو متاثر کر سکتی ہے۔ دیکھا جائے تو آٹزم کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے، لیکن مناسب تھراپی، تعلیمی رہنمائی اور ماہرین کی مدد سے بہتری لائی جا سکتی ہے۔ علاج کا مقصد علامات کو کم کرنا، بچے کی صلاحیتوں کو بڑھانا اور خود مختاری کو فروغ دینا ہوتا ہے۔

(ABA Therapy):یہ تھراپی بچوں کے رویے بہتر بنانے اور مہارتیں سکھانے میں مدد دیتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے انعامات دے کر مثبت رویے کو فروغ دیا جاتا ہے۔

اسپیچ تھراپی:جن بچوں کو بولنے یا بات چیت کرنے میں مشکل ہو، ان کے لیے اسپیچ تھراپی بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے۔

آکیوپیشنل تھراپی:یہ تھراپی بچوں کو روزمرہ کی سرگرمیاں جیسے کپڑے پہننا، کھانا کھانا اور لکھنا سکھاتی ہے۔

خصوصی تعلیم (Special Education)

ہر بچے کے لیے الگ تعلیمی منصوبہ بنایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیت کے مطابق ترقی کر سکے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ والدین کیا کریں؟ آٹزم سے متاثرہ بچوں کی پرورش ایک چیلنج ہو سکتا ہے، لیکن والدین اگر صبر، سمجھ بوجھ اور علم سے کام لیں تو یہ سفر آسان بن سکتا ہے۔ والدین کو آٹزم کے بارے میں جتنا زیادہ علم ہوگا، وہ اتنی ہی بہتر انداز میں اپنے بچے کی مدد کر سکیں گے۔اسپیچ تھراپسٹ، ماہر نفسیات اور خصوصی تعلیم کے ماہرین کے ساتھ رابطے میں رہنا ضروری ہے۔آٹزم کے بچوں کو مخصوص روٹین سے سکون ملتا ہے، اس لیے روزمرہ زندگی کو ترتیب دینا مددگار ہو سکتا ہے۔

بچے کی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ ان میں خود اعتمادی بڑھے۔ بچوں کو بار بار ٹوکنے سے ان میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ نہ انھیں حد سے زیادہ توجہ دینی چاہیے، جس کی وجہ سے بچے خود انحصاری نہیں سیکھتے۔ بچوں کے لیے باغ اور کھلی فضا بے حد ضروری ہے۔ ایسے گروپس والدین کو نہ صرف جذباتی مدد فراہم کرتے ہیں بلکہ تجربات کا تبادلہ بھی ممکن ہوتا ہے۔

اگر بروقت تشخیص ہو جائے اور مناسب تھراپی و تعلیم فراہم کی جائے تو آٹزم کے کئی بچے عام زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ جنھیں بچپن میں آٹزم تشخیص ہوا تھا، بعد میں کامیاب پیشہ ور، مصنف، سائنسدان یا آرٹسٹ بنے ہیں۔ مثال کے طور پر، آٹزم کے حامل کچھ افراد میں غیر معمولی صلاحیتیں بھی پائی جاتی ہیں، جیسے میوزک، میتھ یا آرٹس میں مہارت۔

ترقی یافتہ ممالک میں آٹزم سے متاثرہ بچوں اور ان کے والدین کے لیے مختلف سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں حکومت آٹزم کے شکار بچوں کے والدین کو مالی امداد فراہم کرتی ہے تاکہ وہ علاج، تعلیم اور ضروری تھراپیزکا بندوبست کر سکیں۔ایسے اسکول اور ادارے موجود ہیں جو صرف آٹزم کے بچوں کی تربیت اور تعلیم کے لیے بنائے گئے ہیں۔ آٹزم سے متاثر بچوں کو قانونی طور پر تعلیم، علاج اور سماجی شرکت کے مساوی مواقعے فراہم کرنے کے لیے قوانین موجود ہیں۔

پاکستان میں آٹزم کے حوالے سے شعورکم ہے، اور سہولیات کی شدید کمی ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں کچھ نجی ادارے اور اسپیشل ایجوکیشن سینٹرز وجود میں آئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ آٹزم کے حوالے سے قومی سطح پر مہم چلائے، سرکاری سطح پر ادارے قائم کرے اور والدین کو مالی امداد فراہم کرے۔

 پاکستان میں 3 لاکھ 50 ہزار بچے آٹزم کا شکار ہیں، جب کہ کراچی میں آٹزم کے شکار بچوں کی تعداد تقریباً 40 ہزار ہے، لیکن بچوں کے اعداد و شمار کے حوالے سے کوئی باقاعدہ کام نہیں کیا گیا۔ ملک میں آٹزم سے متاثرہ بچوں کے لیے خصوصی اسکولوں کا قیام نہایت ضروری ہے تاکہ ان کی تعلیمی، سماجی اور نفسیاتی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کیا جا سکے۔ ان اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ، تھراپی سیشنز اور جدید تدریسی طریقے ہونے چاہئیں جو بچوں کی انفرادی صلاحیتوں کے مطابق ہوں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے بچوں کو خصوصی وظیفے فراہم کرے تاکہ ان کے والدین مالی بوجھ سے آزاد ہو کر بہتر تعلیم اور علاج پر توجہ دے سکیں۔ اس کے علاوہ ایسے بچوں کی رجسٹریشن کا ایک قومی نظام ہونا چاہیے تاکہ ہر بچے کی ترقی اور ضروریات کو مؤثر طریقے سے مانیٹر کیا جا سکے۔

مزید برآں، آٹزم سے متاثرہ بچوں کے لیے مخصوص کھیلوں کے کلب اور تفریحی مراکز قائم کیے جائیں جہاں وہ محفوظ ماحول میں دوسروں کے ساتھ گھل مل کر اپنی سماجی صلاحیتیں بہتر بنا سکیں۔ ان کلبوں میں اسپیشل ایجوکیٹرز اور سائیکالوجسٹ کی موجودگی ضروری ہو تاکہ بچوں کو ان کے مزاج اور رویوں کے مطابق سرگرمیوں میں شامل کیا جا سکے۔ میڈیا اور نصاب میں آگاہی شامل کر کے معاشرے میں آٹزم سے متعلق شعور اجاگرکیا جائے، تاکہ والدین، اساتذہ اور عام لوگ ان بچوں کے ساتھ بہتر سلوک کر سکیں۔ آٹزم میں مبتلا بچوں کے لیے ایپلیکیشنز بھی بنائی جاسکتی ہیں۔

والدین کی آگہی کے لیے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر پروگرام ترتیب دیے جانے چاہئیں۔ آٹزم ایک پیچیدہ مگر قابل فہم حالت ہے، جس کا بروقت ادراک اور صحیح رہنمائی سے بہتر طور پر سامنا کیا جا سکتا ہے۔ والدین، اساتذہ، ماہرین اور حکومت اگر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو آٹزم کے شکار بچوں کو ایک باوقار، خوشحال اور خود مختار زندگی فراہم کی جا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری، مزید  30 دن کی توسیع کردی گئی
  • ہنگو میں پولیس سرچ اینڈ سٹرائیک آپرپشن ,4 ملزمان سمیت 21 مشتبہ افراد کو گرفتار
  • منگنی کا سوٹ وقت پر تیار نا کرنے پر شہری دوکاندار کے خلاف عدالت پہنچ گیا
  • کینال کا معاملہ صدر زرداری سے ضرور ڈسکس ہوا ہو گا: مصطفیٰ کمال
  • بھارت، مدھیہ پردیش میں بڑھتی ہوئی ہندو مسلم کشیدگی، فورسز کی بھاری نفری تعینات
  • راولپنڈی میں کراؤڈ نے ہمارے خلاف نعرے لگائے: شائے ہوپ
  • آٹزم کیا ہے؟
  • بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آئندہ ہفتے دو روزہ دورے پر سعودی عرب جائیں گے
  • لاہور: لڑکے سے زیادتی کی کوشش، ملزم گرفتار
  • مستقبل کے ‘فیب فائیو’ کون ہوں گے؟ کین ولیمسن نے بتا دیا