ویب ڈیسک:سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ قانون کی بالادستی نہیں ہو گی تو ملکی معیشت نہیں چلے گی۔

 اسلام آباد میں اپوزیشن اتحاد قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمیں میچ کیلئے پورا پاکستان بند کرنا پڑتا ہے، حکومت کو اتنا خوف ہے کہ آئین پر بات کے لیے ایک کانفرنس نہیں کرنے دے رہی۔

 انہوں نے کہا کہ ہم نے وینیو چنا تو کہا گیا یہاں کانفرنس نہیں ہو سکتی، دوسرا وینیو کرکٹ ٹیم سے 10کلو میٹر دور رکھا، وہاں بھی انتظامیہ پہنچ گئی کہ کانفرنس نہیں ہو سکتی، آئین کے معاملے پر کانفرنس کی جا رہی ہے۔

بلدیاتی انتخابات میں تاخیر؛ پنجاب حکومت کی جلد قانون سازی کی یقین دہانی

 ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک زمانے میں جمہوریت کے داعی تھیں، آج اقتدار کے داعی ہیں، آج آئین کے نام پر ایک کانفرنس بھی ممکن نہیں، جمہوریت اور آئین کی بالا دستی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

 سابق وزیراعظم نے کہا کہ جمہوریت نہیں ہو گی تو ملک نہیں چلے گا اگر قانون کی بالادستی نہیں ہو گی تو ملکی معیشت نہیں چلے گی۔ انہوں نے کہا کہ اظہار رائے کو دبانے کیلئے قانون بنایا گیا،ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے آپس میں اختلافات اور تحفظات ہوتے ہیں، آئین، قانون، جمہوریت اور عدلیہ پر بات ہو گی تو سب اکٹھے ہوں گے۔

لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ, بری ہونے والے افراد کا نام کریکٹر سرٹیفکیٹ پر ظاہر نہیں ہوگا

.

ذریعہ: City 42

پڑھیں:

پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ

لاہور:

پاکستان میں پیچیدہ ٹیکس نظام اور ہر سطح پر رشوت خوری غیر دستاویزی معیشت کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں.

جب کوئی بھی کاروباری شخص اپنے کاروبار کو رجسٹر کرانا چاہتا ہے تو اس کو بار بار دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور پھر ہر سطح پر رشوت دینی پڑتی ہے، جس کی وجہ سے تاجر اپنے کاروبار کو رجسٹر کرانے میں دلچسپی نہیں لیتے. 

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں غیر رسمی معیشت کا حجم رسمی معیشت سے ڈبل ہے، جو کہ تقریبا 400 سے 500 ارب ڈالر بنتا ہے، ریئل اسٹیٹ میں اس کا حجم تقریبا 70 فیصد تک ہے.

مزید پڑھیں: ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلیے ایف بی آر نے ہفتے کی چھٹی ختم کردی

چھوٹے کاروبار اور ریٹیل دکانوں کا نمبر دوسرا ہے، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (SDPI) کے ایک حالیہ مطالعے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کا 40% ریٹیل سیکٹر غیر رسمی طور پر کام کرتا ہے، جس سے حکومت کو سالانہ 1.5 ٹریلین روپے سے زائد کا نقصان ہوتا ہے.

چھوٹے کارخانے بھی اس میں پیچھے نہیں ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے قوانین کو آسان بنانا، چھوٹے کاروباروں کے لیے شرحوں کو کم کرنا، اور عوامی خدمات کو بہتر بنانا لوگوں کو رسمی معیشت میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتا ہے. 

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی ایف بی آر اور وزرا کو 34 ارب 50 کروڑ روپے کی ریکوری پر شاباش

ماہرین کے مطابق جب تک کہ رسمی نظام زیادہ قابل رسائی اور قابل اعتماد نہیں ہو جاتا، غیر رسمی معیشت ترقی کرتی رہے گی، جس سے پاکستان کم آمدنی اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے چکر میں پھنسا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 
  • ملکی معیشت کا انحصار برین ڈرین اور ترسیلات زر پر ہے
  • معاشی اثاثہ
  • ہمارے خلاف منصوبے بنتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں آؤ ہم سے بات کرو، سلمان اکرم راجہ
  • ہمیں معیشت کی بہتری کا جھوٹا بیانیہ دیا گیا، سلمان اکرم راجہ
  • چیف جسٹس ایس سی او جوڈیشل کانفرنس کیلئے آج چین جائیں گے
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • عمران خان جمہوریت اور آئین کی حکمرانی کیلئے بات کریں گے، اعظم سواتی
  • بلوچوں کا مطالبہ سڑکوں کی تعمیر نہیں لاپتہ افراد کی بازیابی ہے، شاہد خاقان عباسی