Daily Ausaf:
2025-04-22@06:12:27 GMT

آئی ایم ایف اورپاکستان کی سیاست،ایک پیچیدہ تعلق

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

سپریم کورٹ سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق آئی ایم ایف کے چھ رکنی خصوصی وفدنے جوئل ٹرکیوٹزکی قیادت میں منگل(11فروری)کی دوپہرسپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ملاقات کی ہے۔وفدنے پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کاتحفظ،معاہدوں کی پاسداری اورپراپرٹی حقوق کے بارے سوالات پوچھے جس کے جواب میں عدالتی اصلاحات اور کارکردگی کوبڑھانے کے لئے جاری کوششوں کاجائزہ پیش کیاگیا۔چیف جسٹس نے وفد کو یقین دہانی کروائی کہ ’’پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے اور ادارے(سپریم کورٹ)کاسربراہ ہونے کے ناطے عدلیہ کی آزادی کاتحفظ ان کی ذمہ داری ہے‘‘۔
صحافیوں سے غیررسمی گفتگوکرتے ہوئے چیف جسٹس نے بتایاکہ ’’میں نے آئی ایم ایف کے وفد کو نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ایجنڈے کا بتایا ہے کہ ماتحت عدلیہ کی نگرانی ہائیکورٹس کرتی ہیں۔چیف جسٹس نے آئی ایم ایف وفدکے اراکین کوواضح کیاکہ عدلیہ ایسے مشنز(وفود)کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں کرتی،لیکن فنانس ڈویژن کی درخواست پریہ ملاقات ہورہی ہے۔ ہم نے آئین کے تحت عدلیہ کی آزادی کاحلف اٹھارکھاہے،یہ ہماراکام نہیں ہے آپ کوساری تفصیلات بتائیں‘‘۔
چیف جسٹس نے وفد کوبتایاکہ وہ اپنے تبصروں پاکستان کی تنظیم نوشامل ہے۔سپریم کورٹ فروری کے آخری ہفتے میں متوقع آئندہ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی(این جے پی ایم سی)کے اجلاس کے لئے ایک اہم ایجنڈے کوحتمی شکل دے رہی ہے جومختلف سٹیک ہولڈرزکی مشاورت سے تیارکیاجارہاہے۔مجوزہ ایجنڈے میں کسی بھی تجویزکوشامل کرنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ انہوں نے مشن کو اس ضمن میں تجویزشیئرکرنے کی دعوت بھی دی۔ ملاقات کے دوران عدالتی احتساب اورججوں کے خلاف شکایات کے ازالے کے طریقہ کارپربھی بات چیت ہوئی۔
آئی ایم ایف کے وفدنے قانونی اورادارہ جاتی استحکام کوبرقراررکھنے میں عدلیہ کے کردارکوتسلیم کیا اورگورننس اوراحتساب کو مضبوط بنانے کے لئے عدلیہ میں جاری اصلاحات کی تعریف کی۔بات چیت میں عدالتی کارکردگی کوبڑھانے اورقانون کی حکمرانی کو اقتصادی اورسماجی ترقی کے سنگ بنیادکے طورپر برقرار رکھنے کے مشترکہ عزم کااعادہ کیاگیا۔چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر کئی سوالات کوجنم دیاہے۔سوال یہ ہے کہ اس ملاقات کے محرکات،اس کے آئینی پہلو، اوراس کے پاکستان کی خودمختاری پر کیاممکنہ اثرات پڑسکتے ہیں؟
پاکستان کاآئین عدلیہ کوایک خودمختارادارہ قراردیتاہے،جوانتظامیہ یاکسی بین الاقوامی ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتا۔چیف جسٹس پاکستان کسی بھی غیرآئینی دباؤیااثرو رسوخ کے پابندنہیں ہیں۔تاہم،یہ ملاقات محض خیرسگالی یاعدالتی اصلاحات کے بارے میں معلوماتی تبادلہ ہوسکتی ہے۔اس قسم کی ملاقاتوں کا مقصد شفافیت کوفروغ دینایاقانونی معاملات میں بین الاقوامی اعتمادبحال کرنا ہوسکتاہے۔26ویں آئینی ترمیم کے بعدپاکستانی عدلیہ میں حالیہ اختلافات اورتقسیم کی خبریں ملکی سیاست اورقانونی نظام پراثرانداز ہو رہی ہیں۔ ایسی صورت میں آئی ایم ایف کاعدلیہ سے رابطہ،کسی بھی غیریقینی صورتحال یاممکنہ قانونی تنازعات کی پیش بندی کے طورپر دیکھاجاسکتا ہے،جومعاشی استحکام پراثرڈال سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے وفودعموماًحکومتوں اورمرکزی بینکوں کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں تاکہ مالیاتی پالیسیوں، اصلاحات،اورقرض معاہدوں کی شرائط پرتبادلہ خیال کیا جا سکے۔ تاہم ، عدلیہ سے ملاقات غیرمعمولی ہے اوراس کے پیچھے ممکنہ وجوہات میں ملک کے قانونی وعدالتی ڈھانچے کی پائیداری کاجائزہ لیناشامل ہوسکتاہے۔سرمایہ کاری اورمالیاتی استحکام کے لئے مضبوط عدالتی نظام ایک اہم عنصر ہوتا ہے،جس کی بنیادپرآئی ایم ایف کسی ملک کی قرض واپسی کی صلاحیت کا اندازہ لگاسکتاہے۔پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ کئی بارقرض معاہدے کیے ہیں جن میں معاشی اصلاحات، سبسڈی میں کمی،ٹیکس نیٹ میں اضافہ، بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافہ،اورمالیاتی خسارے کوکم کرنے جیسے اقدامات شامل ہوتے ہیں۔یہ شرائط اکثرعوامی ناپسندیدگی کاشکارہوتی ہیں کیونکہ ان کے نتیجے میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوسکتاہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اکثرقرض دہندہ کے مفادات کے تحفظ کے لئے سخت شرائط کے ساتھ آتے ہیں۔اگرچہ یہ شرائط بظاہر اندرونی معاملات میں مداخلت لگ سکتی ہیں، مگر حقیقت میں یہ معاہدے کی شرائط کا حصہ ہوتے ہیں جنہیں قرض لینے والے ملک نے خود تسلیم کیا ہوتا ہے۔ تاہم، ان شرائط کا نفاذ اکثر ملک کی خود مختاری پر سوالات اٹھاتا ہے۔
ماہرین کی رائے اس حوالے سے منقسم ہے تاہم حکومت کے خیال میں یہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے اوروفدپاکستان سے ہونے والے تازہ قرض معاہدے کے تحت ہی اپنے جائزہ مشن پرہے اوراداروں اوران کے سربراہان سے ملاقاتیں کررہاہے۔پاکستانی وفاقی وزیرقانون نذیرتارڑکے مطابق وفد کا یہ دورہ آئی ایم ایف کے ’’ڈومین‘‘یعنی دائرہ کار میں آتاہے۔قانون کی حکمرانی،وفدکے ساتھ انتظام کاحصہ ہے۔
لا اینڈ جسٹس کمیشن سپریم کورٹ کاایک ذیلی ادارہ ہے جوکہ جوڈیشل پالیسی اورعدالتی اصلاحات سے متعلق سفارشات تیارکرتا ہے۔جہاں تک بات عدالتی خودمختاری کی ہے یاججز کی تعیناتی کی،تویہ خالص ایک آئینی نوعیت کامعاملہ ہے اوراس پروفد مداخلت نہیں کرتااوریہ وفدکے مشن کاحصہ بھی نہیں تھا۔لااینڈجسٹس کمیشن پہلے سے ہی بہت سارے بین الاقوامی اداروں سے رابطے قائم کیے ہوئے ہے۔تاہم اس کے برعکس پاکستان کے سابق وزیرخزانہ ڈاکٹرحفیظ پاشاکے مطابق اس نوعیت کادورہ اور ملاقات کسی بھی ملک کے اندورنی معاملات میں مداخلت کی بہترین مثال ہے۔اس وفدکایہ مینڈیٹ ہی نہیں ہے کہ وہ اس طرح ملک کے چیف جسٹس سے ملیں اورپھران سے تفصیلی نوعیت کے سوالات کرے۔پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلے بھی قرض معاہدے کیے ہیں مگرماضی میں کبھی سپریم کورٹ کی سطح پرآئی ایم ایف نے کوئی جائزہ نہیں لیا۔
معاشی امورکے ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف وفدکی ملاقات کسی بھی طرح پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے۔ ان کی رائے میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے جو7 ارب ڈالر پروگرام کامعاہدہ کررکھاہے اس کے تحت پاکستان نے اس طرح کے جائزے کے لئے رضامندی ظاہرکررکھی ہے تاہم ڈاکٹرحفیظ کے مطابق سپریم کورٹ کاان معاملات سے کوئی تعلق نہیں بنتااوریہ ملاقات اگرضلعی عدالتوں یاہائی کورٹس کی سطح پربھی ہوتی،توبات قابل ہضم تھی،مگراس سے اوپرجانے کی کوئی تک نہیں بنتی تھی۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: معاملات میں مداخلت آئی ایم ایف کے نے آئی ایم ایف بین الاقوامی چیف جسٹس نے پاکستان کے پاکستان نے سپریم کورٹ کے مطابق کسی بھی نہیں ہے کے ساتھ ہے اور کے لئے

پڑھیں:

اسلام آباد ہائیکورٹ، ماتحت عدلیہ کے 2ججز کی خدمات پشاور ہائیکورٹ کو واپس

اسلام آباد ہائیکورٹ، ماتحت عدلیہ کے 2ججز کی خدمات پشاور ہائیکورٹ کو واپس WhatsAppFacebookTwitter 0 21 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ میں ماتحت عدلیہ کے دو ججز کی خدمات پشاور ہائیکورٹ کو واپس کر دی گئیں۔قائم مقام چیف جسٹس کی منظوری کے بعد رجسٹرار آفس نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق گریڈ 21کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سید احتشام علی کی خدمات پشاور ہائیکورٹ کو واپس کر دی گئیں، جج سید احتشام علی آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی اسلام آباد تعینات تھے۔اسی طرح گریڈ 20کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج حسینہ ثقلین کی خدمات بھی پشاور ہائیکورٹ کے حوالے کی گئیں، جج حسینہ ثقلین بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ویسٹ تعینات تھیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجدید تعلیم ہی قوم کی ترقی کا واحد راستہ ہے،جہانگیر ترین جدید تعلیم ہی قوم کی ترقی کا واحد راستہ ہے،جہانگیر ترین افغان شہریوں کی واپسی کے دوران شکایات کے ازالے کیلئے کنٹرول روم قائم جے یو آئی نے بھی کینالز کے معاملے پر سندھ میں دھرنوں کا اعلان کردیا بارشوں سے صورتحال میں بہتری، ارسا نے صوبوں کو پانی کی فراہمی بڑھادی پنجاب میں حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، عظمی بخاری چینی صدر کا 10 سال قبل دورہ پاکستان دوستانہ تعلقات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، وزیر برائے سرمایہ کاری بورڈ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • علیمہ خان کو سیاست میں گھسیٹنا ناجائز ہے، عمر ایوب
  • اسلام آباد ہائیکورٹ، ماتحت عدلیہ کے 2ججز کی خدمات پشاور ہائیکورٹ کو واپس
  • عدالت کیخلاف پریس کانفرنسز ہوئیں تب عدلیہ کا وقار مجروح نہیں ہوا؟
  • پانی کے مسئلے پر ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے: احسن اقبال
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  •  کینالز ، سیاست نہیں ہونی چاہئے، اتحادیوں سے ملکر مسائل حل کریں گے: عطاء تارڑ 
  • نہروں کا معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرلیں گے، اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے: رانا ثنا اللہ
  •  سیاست میں دشمنی کا ماحول پی ٹی آئی نے پیدا کیا : طارق فضل چوہدری