Daily Ausaf:
2025-12-13@23:02:06 GMT

اسلامک سائنس اور مذہبی فرقہ جات

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

عموماً مذہب اور سائنس کو ایک مغالطہ کے زیر اثر ایک دوسرے کا متضاد یا مدمقابل قرار دیا جاتا ہے۔ بالخصوص اسلام کو سائنس میں ڈھونڈنے کا الزام اسی ایک سطحی سوچ کا نتیجہ ہے۔ پوری قرآنی آیات اور تعلیمات و احادیث مبارکہ میں کسی ایک جگہ پر بھی سائنس اور ٹیکنالوجی یا دیگر جدید علوم کے برخلاف کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ چہ جائیکہ کہ قرآن کریم کبھی تفصیلاً اور کبھی اشاروں کنایوں میں دین اسلام کے عالمگیر علوم اور زندگی کے عملی قواعد و ضوابط کا ایک مکمل اور بھرپور نمونہ پیش کرتا ہے۔
قرآن کریم کے شائد بہت کم محققین اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ قرآن مقدس میں قیامت تک کی جدید سے جدید تر سائنسی و آفاقی تعلیمات کے بارے میں ارشادات باری آیات کی صورت میں موجود ہیں۔ اگر کسی قاری یا مفسر کی نظر اس طرف نہیں جاتی تو یہ ان کا قصور ہے قرآن مجید کا نہیں ہے۔ آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے جن کو رب کائنات نے غیر متبدل اور اٹل طبیعاتی قوانین کے مطابق قائم رکھا ہوا ہے۔ قرآن بلیض میں ایک ایک آیت کے لامتناہی مطالب اور مفاہیم ہیں جن کو وقت کے قدیم اور جدید پیمانوں پر جب بھی پرکھا جائے گا وہ ان کے معیار اور مقام پر عین پورا اتریں گے۔ قرآنی آیات کو اسی لئے “آیات آفاق” بھی کہا جاتا ہے کہ ان سے ہر آنے والے جدید دور میں اس کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق ہمیشہ معانی اور مطالب نکلتے رہیں گے۔ اگر قرآن کی کچھ آیات کا لفظی ترجمہ کیا جاتا ہے، ان کی معنویت سے کچھ ناپسندیدہ چیز برآمد کی جاتی ہے تو اس میں انسانی فہم و فراست کی لغزش ہے ورنہ قرآن اقدس میں کسی بھی جگہ کم بیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے یعنی قرآن فرقان کے ہم قارئین اور مبصرین و مبلغین کو کوئی غلطی لگ سکتی ہے مگر قرآن حکیم میں کسی غلطی یا لغزش کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔قرآن پاک میں مثال کے طور پر ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ، “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو،” جس کا ایک مطلب و مفہوم “اللہ کی رسی” سے متعلق ہے اور دوسرا تفرقہ میں نہ پڑو” کے بارے میں ہے۔ اللہ کی رسی کو طبیعات کے بنائے گئے سائنسی قوانین سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور اسے انسانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے جبکہ تفرقے میں نہ پڑو سے مراد یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے انہی سائنسی قوانین میں زندگی اور کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو بھٹک جائو گے اور ناکام رہو گے۔ اللہ کی یہ رسی پوری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس نے کائنات کی ایک عام سی چیز لکڑی اور پتھر وغیرہ سے لے کر زمین، چاند ستاروں اور کہکشائوں کو سائنس کی زبان میں کہا جائے تو کشش ثقل” کے ذریعے ایک مضبوطی کے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ یہ کائنات تب تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ جب اللہ تعالی اپنی اس رسی (Gravity) کو کو کھول دے گا یا ختم کر دے گا تو سارے ستارے اور سیارے آپس میں ٹکرا جائیں گے اور “قیامت” برپا ہو جائے گی جس کی سائنس اور مذہب دونوں تصدیق کرتے ہیں کہ بلآخر ایک دن یہ کائنات منہدم ہو جائے گی۔
اس آیت کریمہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر ہم بنی نوع انسان زندگی، کائنات اور اپنے روزمرہ کے معاملات کو ان مصدقہ سائنسی اور فطری اصولوں اور قاعدوں کے مطابق نہیں چلائیں گے تو ہماری زندگی نہ صرف پرآسائش نہیں ہو گی بلکہ اس سے ہر دم ہمارا سامنا ایک قیامت صغری” سے رہے گا۔ اس آیت مبارکہ کا ترجمہ اور مفہوم “مذہبی تفرقے” کے حوالے سے کیا جائے تو قرآن پاک میں واضح طور پر تفرقوں یا فرقہ بندی” سے منع کیا گیا ہے مگر قرآن حمید کی اس آیت کریمہ کے برعکس مسلمانوں کی اکثریت خود کو سنی، شیعہ، وہابی، دیوبندی اور اہل حدیث وغیرہ کہلانے میں فخر محسوس کرتی ہے حالانکہ یہ تمام فرقے قرآن کی اس آیت کو جھٹلاتے ہیں یعنی قرآن حکیم مسلمانوں کو فرقہ بندی سے منع کرتا ہے مگر ہم مسلمانوں کی اکثریت ان پر ایمان رکھتی ہے۔قرآن عظیم کی اس آیت مبارکہ کا دین اسلام پر صحیح اطلاق کیا جائے تو اس کی روشنی میں مسلمانوں کے تمام فرقے قرآن کے متضاد اور متوازی فرقے” یا “مذاہب” ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی لینا دینا ہے، نہ اس کی مثال نبی پاک ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زندگیوں میں ملتی ہے اور نہ ہی صالحین ان پر ایمان رکھتے ہیں۔دین اسلام بہت سادہ اور سائنسی قواعد کا ضابطہ حیات ہے جن سے انحراف اسی طرح کی تنزلی سے دوچار کرتا ہے جس طرح سے آج مسلم دنیا زوال سے گزر رہی ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دین اسلام اللہ کی اس ا یت ہے اور

پڑھیں:

قدیم رومی افسران اور بھارتی بندروں کے درمیان دلچسپ تعلق کا انکشاف!

ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مصر میں رہنے والے رومی فوجی افسران دولت کی نمائش کے لیے بھارت سے منگائے پالتو بندر رکھا کرتے تھے۔

مصر کے مغربی ساحل میں واقع قدیم بندرگاہ بیرینیک میں موجود قبرستان پہلی بار 2011 میں دریافت ہوا تھا اور تب سے اب تک یہاں محققین تقریباً 800 قبریں کھود چکے ہیں۔

سائنس دانوں نے بتایا کہ ان کھدائیوں میں سب سے دلچسپ موقع وہ تھا جب مصری بندرگاہ کے شہری علاقے کے باہر موجود ایک جگہ سے 35 بندروں کی باقیات نکلیں تھیں۔

اب محققین نے ان بندروں کی باقیات سے متعلق بتایا ہے کہ ان کا تعلق پہلی دوسری صدی عیسوی سے ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب اعلیٰ عہدے پر فائز رومی ملٹری افسران اس علاقے میں رہا کرتے تھے۔

بندروں کی ہڈیوں کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ زیادہ تر بندروں کا تعلق بھارت سے تھا، جو کہ بھارت سے رومی مصر تک زندہ جانوروں کی تجارت کا پہلا طبعی ثبوت ہے۔

جرنل رومن آرکیالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنس دانوں نے لکھا کہ بیرینیک میں دفن بندروں کی یہ نسل جانوروں ایک منظم تجارت کا پہلا واضح ثبوت ہے۔

سائنس دانوں نے بتایا کہ کسی کے پاس بندر ہونا ممکنہ طور پر معاشرے میں شناخت کا عنصر رکھتا تھا یعنی یہ وہ علامت تھی جو کسی کو مقامی معاشرے میں بطور اشرافیہ واضح کرتی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • قدیم رومی افسران اور بھارتی بندروں کے درمیان دلچسپ تعلق کا انکشاف!
  • وزارت مذہبی امور کا نجی حج ٹور آپریٹرز کیلئے شرائط سخت کرنے کا فیصلہ
  • جمعیت اہلحدیث پاکستان نے سید ضیاء اللہ شاہ بخاری کیساتھ اعلان لاتعلقی کردیا
  • جمعیت اہلحدیث پاکستان نے سید ضیا اللہ شاہ بخاری کیساتھ اعلان لاتعلقی کردیا
  • انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں طالبہ کو قتل کرنے والے ملزم پر فرد جرم عائد
  • سیدہ کائناتؓ امتِ مسلمہ کی خواتین کیلئے کامل رول ماڈل ہیں، لبنیٰ مشتاق
  • علماء کنونشن سے وزیر اعظم کا خطاب
  • اَخلاق اور اِسلامی عبادات
  • نیشنل گیمز؛ سندھ کیلئے پوزیشن یافتہ کائنات سے امتیازی سلوک، ایونٹ سے باہر کردیا گیا
  • جادوٹونے سے ملک ترقی نہیں کرے گا،بعض علما اب بھی تفرقہ پھیلارہے ہیں،وزیراعظم