والدین کا رشتہ انمول ہے مگر کبھی کبھار یہی رشتہ بچے کی زندگی کو بے مول بنا کر رکھ دیتا ہے۔ سب والدین اولاد کو پالتے ہیں، بنیادی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن بہت کم ہیں جو ان کی پرورش کرتے ہیں۔
اس کی ایک مثال اس طرح ہے کہ جیسے باغبان پودوں کا خیال رکھتا ہے، وہ ہر پودے کو اس کے مزاج کے مطابق رکھتا ہے، کچھ پودے دھوپ میں پھلتے پھولتے ہیں تو کچھ چھاؤں میں زندہ رہتے ہیں جبکہ دھوپ میں مرجھا جاتے ہیں۔ جو پودا اپنے مزاج کے مطابق رکھا جائے وہی بہترین پھل بھی دے گا، ورنہ وہ جلا سڑا آپ کے آنگن میں پڑا تو رہے گا لیکن پھل نہ دے گا۔
بہت سے والدین ماں باپ تو بن جاتے ہیں اور بچے کی زندگی کی ظاہری ضروریات کو پورا بھی کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ اپنے منفی رویے سے ان کی شخصیت اور ذہنی صحت کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ ان سے بہت سی اُمیدیں بچپن سے ہی رکھتے ہیں، اس وجہ سے بے جا روک ٹوک، ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ کرتے ہیں۔ اپنی مرضی کی تعلیم دلوا کر اپنی پسند کے شعبے سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ بچے کی پسند ناپسند ان کےلیے معنی ہی نہیں رکھتی اور جب وہ اچھے گریڈز نہیں لے پاتا تو اس کی ذات کو نشانہ بناتے ہیں اور تمام تر ناکامی کی ذمے داری اُس پر ڈال دیتے ہیں۔
ماں باپ کی آپس کی نااتفاقی اور گھریلو لڑائی جھگڑے بھی بچوں پر منفی اثرات کا باعث بنتے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت اور ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جبکہ کچھ والدین کی لاپرواہی سے بچہ نہ صرف نظر انداز ہوتا ہے بلکہ تمام عمر احساس محرومی کا شکار بھی رہتا ہے۔ وہ والدین کی نہ ملنے والی توجہ اور محبت دوسروں میں تلاش کرتا ہے جس کے نتائج بدتر بھی ہوسکتے ہیں۔
یونیسیف کی 11 جون 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 400 ملین چھوٹے بچے گھر میں تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔
والدین کا بچوں کی غلط باتوں میں بھی ان کی حوصلہ افزائی کرنا ان میں جھوٹ، چوری، گالم گلوچ، مار کٹائی جیسی بری خصلتوں کی حوصلہ افزائی کرنا نہ صرف انہیں بری اولاد بناتا ہے بلکہ معاشرے کو ایک ناسور دے دیا جاتا ہے۔
ایسے والدین کی اولاد جب شادی کی عمر کو پہنچتی ہے تو یہاں بھی یہ لوگ اولاد کے ساتھ ناانصافی کرجاتے ہیں۔ کچھ لوگ بچوں کو ایک اے ٹی ایم کی طرح استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کےلیے اولاد کی خوشی اور ذہنی سکون ان کےلیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہاں اولاد سے محبت کے بجائے سراسر خود غرضی کا رشتہ رکھا جاتا ہے۔ والدین بس اپنی خوشی اور سکون کا سوچ کر اولاد کی زندگی تک برباد کر دیتے ہیں، اس خوف سے اس کی شادی میں بے جا تاخیر کی جاتی ہے کہ کہیں ان سے آسائشیں چھین نہ لی جائیں یا پھر ان کا لائف پارٹنر آ بھی جائے تو دونوں میاں بیوی کے درمیان اس قدر جھگڑے کرواتے ہیں کہ نوبت طلاق تک آجاتی ہے یا پھر فضول خرچ کرواتے ہیں کہ وہ اپنے لائف پارٹنر یا بچوں کےلیے کوئی سیونگ یا ان کے مستقبل کےلیے کوئی منصوبہ بندی کر ہی نہیں پاتے۔
والدین کی بنیادی ضروریات پوری کرنا اولاد پر فرض ہے، ان کی خوشی کا خیال رکھنا لازم ہے۔ وہ ہمیں پالتے ہیں، اچھی تعلیم دلواتے ہیں، اپنی خواہشات کو قربان کرکے ہماری خواہشات پوری کرتے ہیں۔ مگر یہاں بات ہو رہی ہے ان والدین کی جو سازشیں کرتے ہیں، بہو سے حسد میں اولاد کو تباہ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔
اسی طرح اکثر زمینداروں یا جائیداد رکھنے والے منفی سوچ کے والدین اپنی بیٹیوں کی زندگی تباہ کرتے ہیں۔ ذات پات کا بہانہ بنا کر یا سوشل اسٹیٹس کا ایشو بنا کر اس کے بالوں میں چاندی اُترنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ ان کی بیٹی کے حصے کی جائیداد بیٹوں کے ہاتھ میں ہی رہے۔ جبکہ شادی شدہ بہنوں کا حصہ بھی بھائی کھا جاتے ہیں۔ اس میں بھی وہ والدین قصوروار ہیں جو زندگی میں اپنی اولاد میں انصاف سے سب تقسیم کرکے نہیں جاتے ہیں۔
اولاد کی شادی میں پسند اور ناپسند کو مد نظر رکھنا بھی ایک اہم جز ہے۔ جبکہ اس میں بھی چند والدین ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ تو اپنی زندگی میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ ان کو اپنی اولاد کی ڈھلتی عمر کی فکر ہی نہیں ہوتی ہے یا انہیں بڑھاپے کا سہارا بنانے کےلیے استعمال کیے جارہے ہوتے ہیں، یا پھر ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر کردی جاتی ہے۔
تمام عمر انہیں احساسات دبانے کو باعث ثواب قرار دیا جاتا ہے۔ اور جو ہمسفر آپ کےلیے پسند کیا جائے وہ بدکردار ہو یا نفسیاتی مسائل کا شکار، اسے بھی اپنا نصیب سمجھ کر برداشت کرنے کا درس دیا جائے گا۔
یہ سب بیٹا بیٹی دونوں کےلیے ہی تکلیف دہ ہوتا ہے مگر خاص کر بیٹی کےلیے بہت اذیت کا باعث ہے۔ کیونکہ بیٹا تو شاید ہمسفر کا دماغ یا کردار ٹھیک نہ ہونے پر اس سے جان چھڑوا لے مگر بیٹی کہاں جائے؟ وہ شادی سے پہلے بھی اذیت میں رہی اور شادی کے بعد بھی سسرال میں میکے جیسا ماحول برداشت کرتی ہے۔ نہ آگے بڑھ سکتی ہے نہ واپسی کا سوچ سکتی ہے۔
جبکہ والدین کے بگاڑے بچے دوسروں کی زندگیاں بگاڑ دیتے ہیں۔ ہھر چاہے وہ نشے کی لت میں مبتلا ہوں یا اپنی کاہلی کی وجہ سے بے روزگاری کا شکار ہوں، اس کی وجہ بھی ان کے بیوی کا نصیب ہی سمجھا جائے گا۔
لیکن یہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی اس قسم کے والدین بچوں کو ایک جہنم جیسی زندگی دے کر اپنے بڑھاپے میں یہی طعنہ دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہماری خدمت نہیں کرتے یا نافرمان اولاد ہے وغیرہ وغیرہ۔
جس اولاد کو چھاؤں میں رکھنا تھا اسے دھوپ میں جلا دیا اور جس کو دھوپ چاہیے تھی اسے روشنی سے محروم کرکے کس پھل کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ تو پہلے ہی اپنی جنگ لڑ رہے ہیں انہیں آپ کیوں ایک نئی جنگ میں دھکیل رہے ہیں؟
بلاشبہ والدین عزت، محبت، دولت، دوستی اور اولاد کے وقت کے حقدار ہیں، مگر کیا اولاد ان تمام چیزوں کی حقدار نہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: والدین کی دیتے ہیں جاتے ہیں کرتے ہیں ہوتے ہیں کی زندگی کا شکار
پڑھیں:
سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چاہے وہ فیس بک کے جلوے ہوں یا انسٹا گرام اور تھریڈزکی شوخیاں، X نامی عجب نگری ہو یا ٹک ٹاک کی رنگینیاں، ایک نقلی دنیا کے بے سروپا تماشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے، ’’ دنیا بدل گئی ہے‘‘ جب کہ ذاتی طور پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کبھی بدل نہیں سکتی ہے۔
دنیا ویسی ہی ہے، زمین، آسمان، سورج، چاند، ندی، دریا، سمندر، پہاڑ، پیڑ، پودوں اور قدرت کے کرشموں سے لیس انسانوں اور جانوروں کے رہائش کی وسیع و عریض پیمانے پر پھیلی جگہ جو صدیوں پہلے بھی ایسی تھی اور آیندہ بھی یوں ہی موجود رہے گی۔
البتہ دنیا والے ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی پسند و ناپسند اور عادات و اطوار سمیت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اُن کی یہ تبدیلی اس قدر جادوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے جُڑی ماضی کی ہر بات سرے سے فراموش کر بیٹھتے ہیں۔
تبدیلی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اس دنیا کے باسی صرف گزری، بیتی باتیں نہیں بھولتے بلکہ وہ سر تا پیر ایک نئے انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
جس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ انسان بے چین طبیعت کا مالک ہے، وہ بہت جلد ایک جیسے ماحول، حالات اور واقعات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ ہر نئے دورکا انسان پچھلے والوں سے مختلف ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اُن کو نت نئے نام دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں،
Millennials, G i generation, Lost generation, Greatest generation, Generation Alpha, Silent generation,
Generation Z
یہ سب نام انسان کی ارتقاء کی مناسبت سے اُس کی نسل کو عنایت کیے گئے ہیں، جب ہر دورکا انسان دوسرے والوں سے قدرے مختلف ہے تو اُن کی تفریح کے ذرائع پھر کس طرح یکساں ہوسکتے ہیں۔تاریخِ انسانی کے اوائل میں مخلوقِ بشر داستان گو سے دیو مالائی کہانیاں سُن کر اپنے تصور میں ایک افسانوی جہاں تشکیل دے کر لطف اندوز ہوتی تھی، وہ دنیاوی مسائل سے وقتی طور پر پیچھا چھڑانے کے لیے انھی داستانوں اور تصوراتی ہیولوں کا سہارا لیتی تھی۔
چونکہ انسان اپنی ہر شے سے چاہے وہ فانی ہو یا لافانی بہت جلد اُکتا جاتا ہے لٰہذا جب کہانیاں سُن سُن کر اُس کا دل اوب گیا تو وہ خود افسانے گھڑنے لگا اور اُسے اس کام میں بھی خوب مزا آیا۔ دراصل داستان گوئی کا جو نشہ ہے، ویسا خمارکہانی سننے میں کہاں میسر آتا ہے مگر انسان کی بے چین طبیعت نے اس شوق سے بھی زیادہ عرصے تک اُس کا جی بہلنے نہ دیا اور بہت جلد وہ داستان گوئی سے بھی بیزار ہوگیا پھر وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے، جن کی بدولت’’ ڈیجیٹل فرینڈ شپ‘‘ کی اصطلاح کا جنم ہوا اور اس طرح تفریح، مزاح، لطف کی تعریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔
زمانہ حال کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ماضی کے اُنھی انٹرنیٹ چیٹ رومز کی جدید شکل ہیں، ان بھانت بھانت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے آج پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے اور تقریباً ہر عمر و طبقے کا انسان اپنی زندگی کا بیشمار قیمتی وقت ان پر کثرت سے ضایع کر رہا ہے۔ پہلے پہل انسان نے تفریح حاصل کرنے کی نیت سے داستان سُنی پھر افسانے کہے اور اب خود جیتی جاگتی کہانی بن کر ہر روز سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس خود ساختہ کہانی کا مرکزی کردار وہ خود ہی ہوتا ہے، جو انتہائی مظلوم ہوتا ہے اور کہانی کا ولن ٹھہرتا ہے ہمارا سماج۔
دورِ حاضر کا انسان عقل و شعور کے حوالے سے بَلا کا تیز ہے ساتھ کم وقت میں کامیابی حاصل کرنے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر طبیعتاً وہ بہت خود ترس واقع ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے جہاں انسان کو افسانوی دنیا کی کھڑکی فراہم کی ہے وہیں اُسے انگنت محرومیوں کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ہے۔
زمانہ حال کا انسان سوشل میڈیا پر دکھنے والی دوسرے انسانوں کی خوشحال اور پُر آسائش زندگیوں سے یہ سوچے بغیر متاثر ہو جاتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ سچ ہے یا کوئی فرد اپنی حسرتوں کو وقتی راحت کا لبادہ اُڑا کر اُس انسان کی زندگی جینے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے جو وہ حقیقت میں ہے نہیں مگر بننا چاہتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بہت کم ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دنیا کو اپنی حقیقی شخصیت دکھانے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوشل میڈیا پرستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے، دراصل یہ وہ جہاں ہے جدھر ہر جانب فرشتہ صفت انسان، عدل و انصاف کے دیوتا، سچ کے پجاری، دوسروں کے بارے میں صرف اچھا سوچنے والے، ماہرِ تعلیم، حکیم، نفسیات شناس اور بندہ نواز موجود ہیں۔
حسد، جلن، نظر بد کس چڑیا کا نام ہے، اس سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے، سب بنا مطلب دنیا کی بھلائی کے ارادے سے دوسروں کی اصلاح میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔جب کوئی فرد کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ بنتا ہے تو اُسے استقبالیہ پر ایک مکھوٹا پیش کیا جاتا ہے جسے عقلمند انسان فوراً توڑ دیتا ہے جب کہ بے عقل اپنی شخصیت کا اہم جُز بنا لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تب اپنی اندرونی کیفیات کو من و عن ظاہرکردیتا ہے جب کہ دکھ کی گھڑیوں میں اپنے حقیقی جذبات کو جھوٹ کی رنگین پنی میں لپیٹ کر خوشی سے سرشار ہونے کی بڑھ چڑھ کر اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا اپنے صارفین کو اُن کے آپسی اختلافات کے دوران حریفِ مقابل پر اقوالِ زریں کی مار کا کھلم کھلا موقع بھی فراہم کرتا ہے، ادھر کسی کی اپنے دوست سے لڑائی ہوئی اُدھر طنز کی چاشنی میں ڈوبے اخلاق کا سبق سموئے نرم گرم جملے اُس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔
انسان کو سوشل میڈیا پر ملنے والے دھوکے بھی دنیا والوں سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اب چاہے وہ اپنے شناسا لوگوں سے ملیں یا اجنبیوں سے، کڑواہٹ سب کی ایک سی ہی ہوتی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے سے گریزکرنے والے افراد ہی سوشل میڈیا کی دنیا میں کامیاب گردانے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قطعی برے نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کے بیچ فاصلوں کو کم کرنے، بچھڑے ہوئے پیاروں کو ملانے، نئے دوست بنانے اور لوگوں کو سہولیات پہنچانے کی غرض سے وجود میں لائے گئے تھے۔
چونکہ انسان ہر اچھی چیزکا بے دریغ استعمال کرکے اُس کے تمام مثبت پہلوؤں کو نچوڑ کر اُس کی منفیت کو منظرعام پر لانے میں کمال مہارت رکھتا ہے لٰہذا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انسان جب تک تفریح اور حقیقت کے درمیان فرق کی لکیرکھینچنا نہیں سیکھے گا تب تک وہ بندر کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی ڈگڈگی پر ناچ کر خود کا اور قوم بنی نوع انسان کا تماشا بنواتا رہے گا۔