جوش ملیح آبادی ایک بے باک شاعر
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
جوش ملیح آبادی کا نام اردو شاعری میں ایک ایسے شاعر کے طور پر لیا جاتا ہے جو زبان و بیان کے جوہر کے ساتھ ساتھ فکر و شعور کے بھی علَم بردار تھے۔ وہ نہ صرف عشق و محبت کے شاعر تھے بلکہ حریت فکر انسانی وقار سچائی اور بغاوت کے بھی نمایندہ تھے۔ ان کی شاعری میں جہاں الفاظ کا جادو نظر آتا ہے وہیں ایک بے باک اور غیر روایتی سوچ بھی جھلکتی ہے۔ جوش کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جو مصلحت کشی سے دور اپنی راہ خود متعین کرنے والے تھے۔ ان کی شخصیت ان کے نظریات اور ان کے طرزِ سخن نے انھیں دوسروں سے منفرد کردیا تھا۔
ان کی شاعری میں ایک ایسا انقلابی جوش نظر آتا ہے جو انسان کو غلامی اور جبر کی زنجیریں توڑنے پر مجبورکردیتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں خود کو محض ایک شاعر نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنے شعروں کے ذریعے وہ معاشرے کے مسائل انسانی حقوق اور آزادی کے بنیادی اصولوں کی تبلیغ بھی کرتے رہے۔ ان کے قلم میں آگ تھی جو صرف روشنائی کے ساتھ نہیں بلکہ خونِ جگر سے لکھی گئی تھی۔ وہ سچ بولنے سے کبھی نہیں گھبرائے نہ ہی کسی مصلحت نے انھیں حق گوئی سے روکا۔
جوش ملیح آبادی کے کلام میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ تاریخ کے مختلف ادوار سے لے کر اپنے معاصر حالات تک پرگہری نظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں واقعہ کربلا اور حضرت امام حسینؑ کی قربانی کو بھی بڑے فکری اور انقلابی انداز میں بیان کیا گیا۔ جوش کے نزدیک امام حسینؑ محض ایک مذہبی شخصیت نہیں بلکہ حق اور سچائی کے استعارے تھے ایک ایسا انقلاب جس نے ہمیشہ کے لیے ظالم کے خلاف لڑنے کی جرات پیدا کردی۔ وہ لکھتے ہیں۔
کربلا اک فکر ہے، تاریخ کا آئینہ ہے
سر کٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے نہیں
یہی جوش کا نظریہ تھا جو انھوں نے اپنی زندگی بھر اپنائے رکھا۔ وہ ظلم و جبرکے آگے جھکنے والے نہیں تھے چاہے وہ سماجی ناانصافیاں ہوں یا سیاسی جبر۔ ان کا یہ انقلابی انداز نہ صرف ان کے اشعار میں نظر آتا ہے بلکہ ان کی شخصیت میں بھی نمایاں تھا، وہ ہمیشہ استحصالی قوتوں کے خلاف برسرپیکار رہے چاہے وہ انگریزوں کا استعمار ہو یا بعد میں آنے والی استبدادی قوتیں۔
جوش کی شاعری میں ایک اور پہلو جو نمایاں تھا، وہ ان کی وسیع المشربی اور انسان دوستی تھی۔ وہ فرقہ واریت اور تنگ نظری سے شدید نفرت کرتے تھے۔ ان کے نزدیک انسانیت سب سے بڑا مذہب تھا اور وہ انسان کو انسان کے مقام پر دیکھنا چاہتے تھے نہ کہ ذات پات فرقے یا مذہب کے دائروں میں قید۔ ان کے یہ اشعار آج بھی ہماری سماجی صورت حال پر ایک چبھتا ہوا طنز معلوم ہوتے ہیں
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
یہی سوچ تھی جو انھیں ایک بڑے شاعر کے ساتھ ساتھ ایک بڑے مفکر کے درجے پر فائز کرتی ہے۔ ان کا شعری سفر محض غزل و قصیدہ تک محدود نہیں تھا بلکہ انھوں نے نظم رباعیات اور طویل انقلابی نظموں میں بھی اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ ان کے الفاظ میں جو شدت اور اثر تھا وہ بہت کم شاعروں کے حصے میں آیا۔
جوش ملیح آبادی کے سیاسی اور سماجی نظریات کی وجہ سے انھیں کئی بار مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان کے بے باک خیالات ہمیشہ سے اقتدار کے ایوانوں کے لیے خطرہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں کئی بار جلاوطنی نظر بندی اور مختلف طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنی روش سے نہ ہٹے۔ وہ پاکستان آئے تو یہاں بھی ان کی شخصیت اور خیالات کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی مگر ان کے چاہنے والوں نے ہمیشہ انھیں ایک عظیم شاعر اور دانشور کے طور پر یاد رکھا۔
ان کا تعلق ایک علمی اور خاندانی گھرانے سے تھا اور اسی وجہ سے انھیں تعلیم و تربیت کا بہترین ماحول ملا۔ وہ ابتدا ہی سے ذہین اور متجسس طبیعت کے مالک تھے۔ شاعری کا آغاز بھی کم عمری میں کردیا تھا اور پھر یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہا۔ ان کی زبان دانی تاریخی شعور اور الفاظ کے چناؤ نے انھیں اس دورکے دوسرے شاعروں سے ممتازکردیا۔
جوش نے نہ صرف اپنی شاعری کے ذریعے قوم میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی بلکہ نثر میں بھی ان کا کام غیر معمولی ہے۔ ان کی خود نوشت’’ یادوں کی برات‘‘ اردو ادب میں ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے جس میں انھوں نے اپنے مشاہدات، تجربات اور خیالات کو نہایت بے باکی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک ادبی سرمایہ ہے بلکہ برصغیر کی تاریخ اور اس وقت کے سیاسی و سماجی حالات کو سمجھنے کے لیے ایک اہم دستاویز بھی ہے۔
ان کی شاعری میں الفاظ کی جو شعلہ بیانی تھی وہ آج بھی سننے اور پڑھنے والوں کے دلوں کوگرما دیتی ہے۔ وہ ایک خطیب بھی تھے اور جب وہ اپنے اشعار ترنم کے ساتھ پڑھتے تو مجمع دم بخود رہ جاتا۔ ان کے اشعار محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک تحریک تھے، ایک عزم ایک حوصلہ جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنے۔
ان کی شاعری میں محبت، انقلاب، احتجاج، آزادی، حق پرستی اور انسانی عظمت جیسے موضوعات نمایاں رہے۔ وہ کسی مخصوص طبقے کے شاعر نہیں تھے بلکہ ہر اس شخص کے شاعر تھے جو جبرکے خلاف تھا جو انسانی آزادی کا قائل تھا اور جو اپنی پہچان کو فرقہ واریت اور تعصب سے بالاتر سمجھتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ جوش آج بھی زندہ ہیں۔ وہ صرف ماضی کے شاعر نہیں بلکہ مستقبل کی امید بھی ہیں۔ ان کی شاعری ان کے نظریات اور ان کا بے باک انداز آج بھی نوجوان نسل کو حوصلہ دیتا ہے کہ وہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوں حق کے لیے آواز بلند کریں اور کبھی کسی طاقت کے آگے نہ جھکیں۔
خون میں جوش ہے الفاظ میں تلواریں ہیں
ہم وہی لوگ ہیں جو وقت کی دھاریں ہیں
یہی جوش ملیح آبادی تھے ایک بے باک شاعر ایک بیدار ذہن جو اپنی زندگی میں بھی چراغ کی طرح جلتے رہے اور اپنی شاعری کے ذریعے آج بھی روشنی پھیلا رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جوش ملیح ا بادی ان کی شاعری میں نہیں بلکہ کے ساتھ کے خلاف میں بھی کے شاعر میں ایک تھا اور ا ج بھی اور ان بے باک
پڑھیں:
نئی نہروں پر احتجاج: 800 ٹینکرز پھنسنے سے صوبے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کا خدشہ
کراچی(نیوز ڈیسک)سندھ میں نئی نہریں نکالنے کے فیصلے کے خلاف عوامی ردعمل شدت اختیار کر گیا ہے۔ خیرپور کے قریب ببرلو بائی پاس پر وکلا کے دھرنے نے چوتھے روز میں داخل ہو کر ملک کی بین الصوبائی تجارت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ جبکہ صوبے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔
دھرنے کے باعث نیشنل ہائی وے پر ہزاروں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں، جن میں ٹرک، مال بردار گاڑیاں اور مویشیوں سے لدی ٹرانسپورٹ شامل ہے۔ کروڑوں روپے مالیت کا سامان خراب ہونے کے خدشے کے پیش نظر کئی گاڑیاں واپس لوٹ گئیں۔
سندھ کے داخلی راستے پر آلو سے بھرے 250 کنٹینرز پھنسنے سے برآمدات کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ برآمدکنندگان کے مطابق مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کو جانے والے برآمدی آرڈرز تاخیر کا شکار ہو گئے ہیں، جس سے نہ صرف تجارتی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ بھاری مالی نقصان کا بھی خدشہ ہے۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کا کہنا ہے کہ آلو کی تازگی برقرار رکھنے کے لیے ٹمپریچر کنٹرول ضروری ہے، جس کے لیے جنریٹرز درکار ہیں۔ اگر کنٹینرز بروقت بندرگاہ نہ پہنچے تو آلو خراب ہونے کا خطرہ ہے، جس سے ایکسپورٹرز کو 15 لاکھ ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔
وحید احمد نے خبردار کیا کہ اگر ایکسپورٹ آرڈرز منسوخ ہوئے تو اس کا براہِ راست نقصان کسانوں کو بھی ہوگا، جن کی فصلیں ضائع ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر کنٹینرز کی بندرگاہوں تک ترسیل یقینی بنائی جائے تاکہ نہ صرف برآمدی آرڈرز بچائے جا سکیں بلکہ ملک کو قیمتی زرمبادلہ کے نقصان سے بھی بچایا جا سکے۔
سکھر، نوشہروفیروز، خیرپور، گھوٹکی اور ڈہرکی سمیت مختلف شہروں میں بھی دھرنے اور احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ڈہرکی میں مظاہرین نے دیگر صوبوں کو سامان کی فراہمی روک دی ہے۔
مظاہرین نے وفاقی حکومت کو 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو مہلت ختم ہونے پر آئندہ کا لائحہ عمل سخت تر ہوگا۔
پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل متاثر، لاڑکانہ اور سکھر میں 800 آئل ٹینکرز پھنس گئے
سندھ میں جاری دھرنوں اور سڑکوں کی بندش کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل شدید متاثر ہو گئی ہے، جس سے نہ صرف اندرون سندھ بلکہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں بھی پیٹرولیم بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (OCAC) کے مطابق لاڑکانہ اور سکھر کے علاقوں میں احتجاج اور روڈ بلاکج کے باعث 800 سے زائد آئل ٹینکرز پھنسے ہوئے ہیں، جو پیٹرول، ڈیزل اور دیگر مصنوعات کی فراہمی کے لیے رواں دواں تھے۔
او سی اے سی نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری سندھ کو ایک ہنگامی خط ارسال کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ متعلقہ ادارے فوری طور پر مداخلت کریں تاکہ ٹینکرز کو بحفاظت روانہ کیا جا سکے اور پیٹرولیم سپلائی چین کو بحال رکھا جا سکے۔
کونسل کا کہنا ہے کہ اگر مظاہروں اور دھرنوں کی یہ صورتحال برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں نہ صرف سندھ بلکہ جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع میں بھی پیٹرول اور ڈیزل کی قلت پیدا ہو سکتی ہے، جس کا براہ راست اثر عوام، ٹرانسپورٹ، صنعت اور زراعت پر پڑے گا۔
مزیدپڑھیں:دوران پرواز جہاز کی چھت گر پڑی، مسافر ہاتھوں سے تھامنے پر مجبور