ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود کی خدمات اسلام آباد سے پشاور ہائی کورٹ کو واپس
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو واپس پشاور ہائی کورٹ بھجوادیا گیا۔ قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی منظوری سے رجسٹرار نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج گریڈ اکیس کے جوڈیشل افسر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود خان کی خدمات اسلام آباد سے پشاور ہائی کورٹ کو واپس کردی گئیں۔ تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود کو واپس پشاور ہائی کورٹ بھجوادیا گیا۔ قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر کی منظوری سے رجسٹرار نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود گریڈ اکیس کے جوڈیشل افسر ہیں۔ خیال رہے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود اسلام آباد میں فرائص سر انجام دے رہے تھے، سیشن جج طاہر محمود اسلام آباد ہائی کورٹ میں ممبر انسپکشن ٹیم، سپیشل جج سنٹرل سمیت اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود پشاور ہائی کورٹ اسلام آباد کو واپس
پڑھیں:
ایمان مزاری اسلام آباد ہائیکورٹ بار کی جبری گمشدگیوں کی کمیٹی سے مستعفی
ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جبری گمشدگیوں کی کمیٹی سے استعفی دے دیا۔
رپورٹ کے مطابق ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکریٹری کو اپنا استعفیٰ ارسال کر دیا۔
ایمان مزاری نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے 26ویں آئینی ترمیم اور ججز کی سینیارٹی پر سپریم کورٹ میں دائر درخواست واپس لے لی، اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے پر مایوسی اور حیرانی ہوئی۔
ایمان مزاری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے مجھے جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیٹی کی چیئرپرسن مقرر کیا تھا، مجھے کمیٹی کی جانب سے بیان جاری کرنے کیلئے لیٹرپیڈ تک تاحال جاری کرنے سے انکار کیا گیا۔
ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہائیکورٹ بار کا اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنا قابلِ مذمت، بزدلی اور بدقسمتی ہے، میرا عہدہ لینے کا مقصد رُول آف لاء اور جبری گمشدہ افراد کی رہائی کیلئے وکالت کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ واضح ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار میں اِس معاملے پر کھڑا ہونے کی جرآت نہیں، میں عہدے سے استعفیٰ دیتی ہوں، میں بار کی موجودہ کابینہ کو اپنے نام اور شہرت کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی، استعفیٰ منظور کیا جائے۔