خصوصی طلبہ کونسلنگ سیمینار،تعلیم اور پیشہ ورانہ مستقبل سے متعلق معلومات اوررہنمائی فراہم کی گئی
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر )برطانوی SevenPlus ٹرینر اور IELTSنے اسلام آباد میں ایک خصوصی طلبہ کونسلنگ سیمینار کا انعقاد کیا۔ یہ سیمینار معروف ELTSکے سی ای او، مسٹر عمران لطیف اور ماہر تعلیمی مشیر مس َسبا مشتاق کی زیر قیادت منعقد ہوا، جس میں برطانیہ میں IELTSلیٹر، انٹرویو کی تیاری اور روانگی سے پہلے کی گائیڈنس پر تفصیلی تربیت CASداخلے کے عمل، اسٹوڈنٹ ویزا اپالئی کرنے،دی گئی۔یہ اہم تقریب میاں ہائیٹس، غوری ٹاؤن، اسلام آباد میں منعقد ہوئی، جہاں بڑی تعداد میں طلبہ نے شرکت کی، جو برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند تھے۔ شرکاء کو یونیورسٹی آف ویسٹ اسکاٹ لینڈ، ریکسہیم گلینڈور یونیورسٹی، الیسٹر یونیورسٹی، برطانوی یونیورسٹیوں میں داخلے کے طریقہ کار پریونیورسٹی آف ایسٹ لندن، گالسگو کلیڈونین یونیورسٹی سمیت متعدد اعلیٰ قیمتی معلومات فراہم کی گئیں۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے، عمران لطیف نے کہا کہ طلبہ کو بروقت اور درست رہنمائی فراہم کرنا ان کے مستقبل کی کامیابی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے طلبہ ویزا پراسیس اور یونیورسٹی داخلے کے مراحل میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ہمارا مقصد اس خال کو پُر کرنا اور طلبہ کو درست معلومات اور حکمت عملی فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت “”میں بدل سکیں۔انہوں نے طلبہ کو روایتی مضامین کے عالوہ دیگر جدید شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنے کی بھی ترغیب دی، تاکہ وہ عالمی سطح پر ترقی کے زیادہ مواقع حاصل کر سکیں،مس َسبا مشتاق نے سیمینار میں خطاب کے دوران پاکستانی طلبہ کے لیے برطانیہ میں تعلیم کے وسیع مواقع پر روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ ابتدائی تیاری، اچھی تعلیمی کارکردگی، اور اعلیٰ امکانات میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔سیمینار کا سب سے اہم حصہ سوال و جواب کا سیشن تھا، جہاں طلبہ نے براہ راست ماہرین سے اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ مستقبل سے متعلق سوالات کیے اور شخصی رہنمائی حاصل کی۔ایسے تعلیمی سیمینار نہ صرف طلبہ کو ان کے تعلیمی اہداف کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں بلکہ پاکستان اور برطانیہ کےدرمیان دوطرفہ تعلقات کو بھی مضبوط بناتے ہیں۔ یہ تقاریب تعلیمی تبادلے، تحقیق، اور پیشہ ورانہ ترقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان طویل المدتی تعلقات کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ٰ تعلیم کے لیے تیار کرنے کی ایک منفرد مہم کا حصہ ہے۔ ادارہ جلد IELTS SevenPlusکی یہ کاوش پاکستان میں طلبہ کو پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی ایسے کونسلنگ سیشنز کا انعقاد کرے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ اس ماہرانہ رہنمائی سےفائدہ اٹھا سکیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: طلبہ کو
پڑھیں:
پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم، بنیادی رکاوٹیں کیا ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 25 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف صنفی مساوات بلکہ ملک کی مجموعی ترقی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
اسلامی مؤقف اور عالمی آوازرواں سال اسلام آباد میں منعقدہ ''مسلم ورلڈ لیگ کانفرنس برائے لڑکیوں کی تعلیم‘‘ نے اس موضوع کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے کہا، ''ہر لڑکی کا تعلیم حاصل کرنے کا حق ناقابلِ تنسیخ ہے۔‘‘مسلم ورلڈ لیگ کے سکریٹری جنرل شیخ محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے واضح کیا کہ اسلام لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کی کوئی گنجائش نہیں دیتا۔
(جاری ہے)
کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ اسلام آباد اعلامیے میں صنفی حساس پالیسیوں، محروم طبقات کے لیے اسکالرشپس اور انتہا پسندانہ نظریات کی مذمت پر زور دیا گیا۔
حکومتی اقدامات اور تعلیمی وظائفپاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر کئی پروگرام جاری ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت ''تعلیمی وظائف پروگرام‘‘ غریب خاندانوں کی لڑکیوں کو تعلیمی مواقع فراہم کر رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت پرائمری سے گریجویشن تک لڑکیوں کو سہ ماہی وظائف دیے جاتے ہیں، جو 70 فیصد اسکول حاضری سے مشروط ہیں۔
سماعت سے محروم پاکستانی بچوں کے لیے اسکول زندگی ہے!
ایشیائی ترقیاتی بنک کے کنسلٹنٹ محمد نعمان علی کے مطابق، حکومت اس پروگرام کی توسیع پر غور کر رہی ہے تاکہ دور دراز علاقوں کی لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ''یہ وظائف نہ صرف مالی مدد فراہم کرتے ہیں بلکہ والدین میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے شعور بھی اجاگر کرتے ہیں۔
‘‘تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مالی امداد کے باوجود بنیادی ڈھانچے کی کمی، اسکولوں تک رسائی اور سماجی رویوں جیسے مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔
نجی شعبے کا کردارنجی شعبے نے بھی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ملالہ فنڈ، پاکستان الائنس فار گرلز ایجوکیشن (پی اے جی ای)، دی سٹیزن فاؤنڈیشن (ٹی سی ایف) اور آغا خان ایجوکیشن سروسز جیسے اداروں نے ہزاروں لڑکیوں کو تعلیمی مواقع فراہم کیے ہیں۔
پی اے جی ای کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فجر رابعہ پاشا نے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) سے گفتگو میں بتایا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے سب سے بڑے مسائل میں اسکولوں کا فاصلہ، محفوظ ٹرانسپورٹ کی کمی اور خاندانی تعاون کی کمی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا، ''دیہی علاقوں میں اسکولوں کی تعداد اور معیار دونوں ناکافی ہیں۔ پالیسیوں کو زمینی حقائق کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔
‘‘فجر نے مزید بتایا کہ ان کا ادارہ 'سٹار اسکولز‘ کے ذریعے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت اور روزگار سے متعلق تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کمیونٹی اور مذہبی رہنماؤں کی شمولیت ناگزیر ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثراتپاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور اس کے اثرات لڑکیوں کی تعلیم پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے باعث اسکول تباہ ہو جاتے ہیں اور معاشی دباؤ کی وجہ سے والدین لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'بیداری‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عنبرین عجائب نے بتایا، ''سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے کیونکہ خاندان 'بیٹی کے بوجھ‘ سے بچنے کے لیے اس کی جلد شادی کر دیتے ہیں۔
‘‘انہوں نے تجویز دی کہ تباہ شدہ اسکولوں کی فوری بحالی، ہنگامی تعلیمی وظائف اور سماجی آگاہی مہمات کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے۔
مسائل اور ان کا حلماہرین کے مطابق، لڑکیوں کی تعلیم کے لیے صرف مالی امداد یا پالیسیاں کافی نہیں۔ دیہی علاقوں میں اسکولوں کی تعداد اور معیار بڑھانے، محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کرنے اور سماجی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
فجر رابعہ نے زور دیا، ''ماؤں اور مقامی کمیونٹی کی شمولیت کے بغیر کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔‘‘ماہرین کے مطابق پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے حکومتی اور نجی شعبے کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں لیکن انہیں زمینی حقائق کے مطابق مزید جامع اور پائیدار بنانے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں جیسے نئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات اور سماجی شعور کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ملالہ یوسفزئی نے کہا، ''تعلیم صرف ایک حق نہیں بلکہ ہر لڑکی کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد