مرتضیٰ جتوئی کے خلاف ایک اور مقدمہ سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
عدالتوں سے تمام مقدمات میں ضمانتیں منظور ہونے کے بعدسکھر کا ایک اورکیس منظر عام پر آگیا
نئے کیس میں سول جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ، سکھر کا مرتضیٰ جتوئی کے لیے 14دن کا پولیس ریمانڈ
(رپورٹ : شبیر احمد) ضلع سکھر میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے ) کے رہنما مرتضیٰ جتوئی کے خلاف ایک اور مقدمہ سامنے آیا ہے ۔سابق وفاقی وزیر مرتضی جتوئی جو پہلے ہی قتل، اقدام قتل، ڈکیتی، پولیس مقابلے اور کرپشن کے پانچ مقدمات میں قید ہیں، پیر کے روز سابق وفاقی وزیر مرتضیٰ جتوئی، جو نارا جیل حیدرآباد میں قید ہونے کے سبب سول اسپتال حیدرآباد کے کارڈیالوجی وارڈ میں داخل تھے ، صحت یاب ہونے کے بعد واپس جیل بھیج دیے گئے ہیں۔ سکھر کا کیس ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آیا ہے، جب عدالتوں نے مرتضیٰ جتوئی کی تمام مقدمات میں ضمانتیں منظور کر لیں۔نیا مقدمہ پولیس مقابلے اور ڈکیتی کے الزامات کے تحت درج کیا گیا ہے ۔مرتضیٰ جتوئی کی ضمانت کی منظوری کے بعد جتوئی قبیلے کے افراد اور جی ڈی اے کے رہنما بڑی تعداد میں نارا جیل کے باہر ان کے استقبال کے لیے جمع ہوئے، تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ضلع سکھر کے باگڑجی تھانے میں ایک نیا مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔نئے کیس میں سول جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ، سکھر نے مرتضیٰ جتوئی کے لیے 14دن کا پولیس ریمانڈ جاری کیا ہے ۔نئے مقدمے کے اندراج اور عدالت کی جانب سے ریمانڈ دیے جانے کی خبر جی ڈی اے کے رہنماؤں اور جتوئی کے اہل خانہ کے لیے مایوسی کا باعث بنی ہے۔ مرتضیٰ جتوئی کے بھائی مسرور جتوئی نے روزنامہ جرأت سے بات کرتے ہوئے اپنی مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کے بھائی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کا یہ رویہ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات اور بنیادی انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے ، اور امید ظاہر کی کہ عدلیہ انصاف فراہم کرے گی۔اس سے قبل21فروری کو، خصوصی انسداد دہشت گردی عدالت، سکھر نے پولیس کی جانب سے مرتضیٰ جتوئی اور ان کے دو شریک ملزمان، ریونیو افسران، کے پولیس ریمانڈ کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے مبینہ کرپشن کیس میں مرتضیٰ جتوئی کا ریمانڈ سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی بنیاد پر مسترد کر دیا جس میں عدالت کی اجازت کے بغیر کسی نئے مقدمے میں ان کی گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔سندھ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے جی ڈی اے رہنما مرتضیٰ جتوئی کو ضلع نوشہرو فیروز کی تحصیل مورو میں ریونیو اور میونسپل افسران کی مدد سے سرکاری زمین پر قبضے کے مقدمے میں نامزد کیا۔جی ڈی اے کے رہنما، سینئر سیاستدان غلام مصطفیٰ جتوئی کے صاحبزادے اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم غلام مرتضیٰ جتوئی کو 16فروری 2025 کو سیشن کورٹ نوشہرو فیروز کے باہر گرفتار کیا گیا، اور انہیں قتل، اقدام قتل، تین ہزار روپے کی ڈکیتی اور موٹر سائیکل چھیننے کے مقدمات میں نامزد کیا گیا۔مسٹر جتوئی کے خلاف دو مقدمات لاڑکانہ میں، ایک خیرپور میں، ایک نوشہرو فیروز میں اور ایک سندھ اینٹی کرپشن میں درج کیے گئے ۔اپوزیشن اور قوم پرست جماعتوں نے مرتضیٰ جتوئی کی گرفتاری پر احتجاج کیا اور سندھ پولیس کے اقدامات کو سیاسی انتقام قرار دیا۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: مقدمات میں کے رہنما جتوئی کے جی ڈی اے کیا گیا کے لیے
پڑھیں:
ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) امریکہ کی معروف ہارورڈ یونیورسٹی نے پیر کے روز کہا کہ اس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس اعلیٰ تعلیمی ادارے کے کنٹریکٹ سمیت وفاقی گرانٹس میں اربوں ڈالر کی کٹوتی کا اعلان کیا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر ایلن گاربر نے ایک بیان میں کہا، " ہارورڈ کی جانب سے ان کے غیر قانونی مطالبات تسلیم نہ کرنے کے بعد سے گزشتہ ہفتے کے دوران وفاقی حکومت نے کئی اقدامات کیے ہیں۔
"گاربر نے کہا، "کچھ لمحے پہلے ہی ہم نے فنڈنگ روکنے کے فیصلے کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا ہے، کیونکہ یہ غیر قانونی ہونے کے ساتھ ہی حکومت کے اختیار سے باہر کی بات ہے۔
(جاری ہے)
"
ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی کے لیے اربوں ڈالر کی امداد روک دی
ہمیں اس بارے میں اب تک کیا معلوم ہے؟ریاست میساچوسٹس میں قائم ہارورڈ نے وفاقی گرانٹس میں دو بلین ڈالر کی فنڈنگ روکنے کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ دائر کیا ہے۔
یونیورسٹی کے وکلاء نے مقدمے میں لکھا،"ہارورڈ اور دیگر یونیورسٹیوں کے ساتھ تعلقات کا معاملہ پوری طرح سے واضح ہے: اگر حکومت کو تعلیمی ادارے کا مائیکرو مینیجمنٹ یعنی ہر چھوٹی بڑی چیز میں مداخلت کی اجازت دی گئی، تو پھر ادارے کی پیش رفت، سائنسی دریافتوں اور اختراعی طریقہ کار کو آگے بڑھانے جیسی صلاحیت خطرے میں پڑ جائے گی۔"
سفید فام انسانوں میں نسلی تعصب زیادہ، نئی ہارورڈ اسٹڈی
ٹرمپ انتظامیہ نے رواں ماہ کے اوائل میں ہارورڈ کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں یونیورسٹی سے کئی مراعات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یونیورسٹی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ تنوع، مساوات اور شمولیت سے متعلق پالیسیوں کو روکے اور کیمپس کے اندر احتجاج میں ماسک پہننے پر پابندی لگائے۔ وفاقی حکومت نے ہارورڈ کے پروگراموں کے آڈٹ کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے بین الاقوامی طلباء کی نظریاتی اقدار کی شناخت کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
جرمن چانسلر کا ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبا سے غیر روایتی خطاب
ہارورڈ کی ٹرمپ کے مطالبات کے خلاف جد و جہدہارورڈ کے صدر ایلن گاربر نے ان مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد ہی ٹرمپ نے وفاقی امداد روکنے کا فیصلہ کیا۔
گاربر نے ہارورڈ کمیونٹی کے نام ایک پیغام میں کہا، "یونیورسٹی نہ تو اپنی آزادی سے اور نہ ہی اپنے آئینی حقوق سے دستبردار ہو گی۔"
ایلن گاربر نے ہارورڈ کمیونٹی کے نام اپنے مکتوب میں مزید کہا، ''قطع نظر پارٹی کے، کوئی بھی حکومت اقتدار میں ہو، اسے یہ حکم دینے کا کوئی حق نہیں ہے کہ نجی یونیورسٹیاں کیا پڑھا سکتی ہیں، کس کو داخلہ دے سکتی ہیں اور کسے نہیں، کسے ملازمت دے سکتی ہیں اور مطالعے اور تحقیق کے کون سے شعبوں میں وہ پیش رفت کر سکتی ہیں۔
"ٹرمپ انتظامیہ نے سامیت دشمنی روکنے کے لیے کافی کام نہ کرنے پر ملک کی اعلیٰ یونیورسٹیوں پر تنقید کی ہے اور کولمبیا یونیورسٹی کو بھی نشانہ بنایا۔
پیر کے روز شائع ہونے والے رائٹرز/اِپسوس کے ایک تازہ سروے سے پتا چلا ہے کہ 57 فیصد جواب دہندگان نے ان کے اس بیان سے اختلاف کیا ہے کہ "اگر صدر اس بات سے متفق نہیں کہ یونیورسٹی کیسے چلائی جانی چاہیے، تو امریکی صدر کے لیے یونیورسٹیوں کی فنڈنگ روکنا ٹھیک ہے۔"
اس تازہ سروے کے مطابق ٹرمپ کی مقبولیت میں بھی کمی آئی ہے اور فی الوقت صرف 42 فیصد امریکی شہری ان کی پالیسیوں سے متفق ہیں۔
ادارت: جاوید اختر