ہنگلاج ماتا ہندوؤں کا مقدس مقام ’یہاں آنے والوں کی مرادیں پوری ہوتی ہیں‘
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
کراچی سے مکران کوسٹل ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے 240 کلومیٹر کے فاصلے پر ہنگلاج ماتا واقع ہے، جہاں ہنگول ندی بہتی ہے۔ یہاں سے ایک لنک روڈ ہنگلاج ماتا تک جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں مسلمان طالبعلم سے ناروا سلوک ’اس ذہنیت کے ساتھ ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا‘
ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد ہر سال اپریل کے مہینے میں مذہبی تہوار منانے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ کراچی اور بلوچستان سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے ہندو یاتری ہنگلاج ماتا کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کی سہولت کے لیے کمرے اور شیلٹر تعمیر کیے گئے ہیں اور سالانہ یاترا کے موقع پر مفت لنگر کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
ہنگول پارک میں واقع ہنگلاج ماتا یا نانی مندر مٹی کے ایک پہاڑ کے نیچے واقع ہے جسے تزئین و آرائش کرکے خوبصورت بنایا گیا ہے۔
ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد اس تاریخی مندر کو لاکھوں سال پرانا بتاتے ہیں جبکہ تاریخی طور پر یہ ایک قدیم ورثہ ہے اور اس کی 300 سے 400 سال پرانی تاریخ کے حوالے سے دستاویزات موجود ہیں۔
ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا دعویٰ ہے کہ مٹی کا یہ پہاڑ بغیر کسی سہارے کے کھڑا ہے، اس مذہب کے ماننے والے اس مندر کو اپنا مقدس مقام سمجھتے ہیں۔
ہنگلاج ماتا کے پنڈت مہاراج نے وی نیوز کو بتایا کہ یہ مندر 32 لاکھ سال پرانا ہے اور ہندوؤں کا ایک مقدس مقام ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس علاقے کو ماضی میں ہنگول دیش کہا جاتا تھا اور یہاں کا بادشاہ ہنگول نامی ایک ظالم تھا جو لوگوں پر بہت ظلم کرتا تھا۔
ان کے مطابق ہنگلاج ماتا نے اپنا روپ بدل کر ایک حسین شہزادی کے روپ میں ہنگول بادشاہ کا سامنا کیا، جس پر بادشاہ نے اس کا پیچھا کیا۔ اور پھر اس علاقے میں پہنچ کر اس نے کالی ماتا کا روپ دھار کر ہنگول بادشاہ کو ہلاک کردیا۔
یہ بھی پڑھیں مہا کمبھ: انڈیا میں ہر 144 سال بعد ہونے والے میلے میں کیا کچھ ہوتا ہے؟
ان کا ماننا ہے کہ یہاں آنے والے تمام لوگوں کی منتیں اور مرادیں پوری ہو جاتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews پنڈت سندھ کراچی کوسٹل ہائی وے ہندوؤں کا مقدس مقام ہنگلاج بالا وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پنڈت کراچی ہندوؤں کا مقدس مقام ہنگلاج بالا وی نیوز نے والے
پڑھیں:
مسیحیوں کے تہوار ’ایسٹر‘ کی دلچسپ تاریخ
مسیحیوں کے تہوار ’ایسٹر‘ کی دلچسپ تاریخ WhatsAppFacebookTwitter 0 20 April, 2025 سب نیوز
جب سردی کی گرفت ختم ہوتی ہے اور بہار کی نرم ہوائیں فضاؤں میں رنگ بکھیرتی ہیں، تو دنیا بھر کی مسیحی برادری ایک ایسے روحانی اور خوشی سے بھرپور تہوار کا جشن مناتی ہے جو نہ صرف ان کے مذہبی عقیدے کی بنیاد ہے بلکہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کا بھی پیغام دیتا ہے، یہ تہوار ہے ’ایسٹر‘۔
ایسٹر صرف ایک تہوار نہیں، بلکہ یہ عیسائی عقیدے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ زندگی پانے کی یاد میں منایا جاتا ہے، جو مسیحی ایمان کے مطابق جمعہ کے روز صلیب پر چڑھائے گئے اور پھر اتوار کو زندہ ہو کر واپس آئے۔
بائبل کی مقدس روایات کے مطابق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جمعے کے دن مصلوب کیے جانے کے بعد ان کا جسد مبارک صلیب سے اتار کر ایک چٹانی غار میں دفن کیا گیا۔ اس غار کے دہانے کو ایک بڑے پتھر سے بند کر دیا گیا تھا۔
تاہم، روایات بیان کرتی ہیں کہ جب کچھ افراد اتوار کے روز اس غار پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ پتھر ہٹا ہوا ہے اور غار خالی ہے۔ اس منظر نے لوگوں کو یہ یقین دلایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ اسی واقعے کی یاد میں اتوار کا دن ہر سال منایا جاتا ہے۔
ایسٹر کی تاریخ کیسے طے ہوتی ہے؟
ایسٹر کی تاریخ ہر سال مختلف ہوتی ہے، کیونکہ یہ قمری کیلنڈر کے مطابق طے کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر، یہ تہوار موسمِ بہار کے پہلے مکمل چاند کے بعد آنے والے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ مارچ کے آخر یا اپریل کے وسط تک کبھی بھی آ سکتا ہے۔ اس گنتی میں مسیحی روایتی چاند کیلنڈر کی جھلک نظر آتی ہے، جو قدرتی نظم و ضبط سے جڑا ہوا ہے۔
ایسٹر کے موقع پر جو علامتیں سب سے نمایاں ہوتی ہیں وہ ہیں رنگین انڈے اور خرگوش انڈا نئی زندگی، تخلیق اور اُمید کی علامت سمجھا جاتا ہے، جو حضرت عیسیٰ کی واپسی کی یاد بھی دلاتا ہے۔ جبکہ خرگوش ایک قدیم علامت ہے، جو افزائش اور بہار کی آمد کا پیغام لیے ہوتا ہے۔
ان رنگ برنگے انڈوں کو تلاش کرنے کا کھیل، جسے ’ایسٹر ایگ ہنٹ‘ کہا جاتا ہے، خاص طور پر بچوں میں بے حد مقبول ہے۔ چاکلیٹ، رنگین پیپرز میں لپٹے تحائف، اور خرگوش کی شکل کے میٹھے لوازمات اس تہوار کو نہایت دلکش بنا دیتے ہیں۔
ایسٹر سے پہلے کا عرصہ، جسے ”لینٹ“ کہا جاتا ہے، چالیس دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس دوران مسیحی برادری روزہ، عبادت اور سادگی کی زندگی کو اپناتی ہے۔ کچھ مخصوص کھانوں سے پرہیز کیا جاتا ہے تاکہ جسمانی خواہشات سے بالاتر ہو کر روحانیت کی طرف بڑھا جا سکے۔ ایسٹر اس چالیس روزہ ریاضت کا اختتام بھی ہوتا ہے، جس کے بعد خوشی اور جشن کا آغاز ہوتا ہے۔