Express News:
2025-04-22@18:58:21 GMT

ہم۔۔۔ پان کا پتا اورکتھا

اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT

پچھلے مہینے ہمارے میاں صاحب ایک دفتری دورے پر کراچی گئے، تو واپسی پر ہم سے پوچھا کہ آپ کے لیے کیا لاؤں؟ ہم نے جھٹ فرمائش جڑ دی کہ ’’پان دان۔۔۔!‘‘

انھیں حیرت ہوئی، لیکن اس سے خاص دل چسپی نہ ہونے کے باوجود انھوں نے منع نہیں کیا اور اگلے دن ’پان دان‘ ہمارے چَرنوں میں موجود تھا۔ دراصل ہم برس ہا برس سے ایک روایتی بھاری بھرکم ’پان دان‘ کے لیے ترس رہے تھے۔ ہم نے اس کی ملکیت کے لیے کئی بار قصداً خواب دیکھے اور کئی بار عملی کوششیں کیں۔ کئی نایاب چیزوں کے لیے معروف ’کباڑیے‘ بھی دیکھ لیے، لیکن ایک بھی کوشش بار آور ثابت نہ ہو سکی تھی، سو ہم نے کراچی میں مروّج پان دان پر اکتفا کرنے کا ارادہ کر لیا۔۔۔ کراچی میں اسٹیل کے ہلکے پھلکے پان دان انتہائی مناسب قیمت میں مل جاتے ہیں، کیوں کہ وہاں اب بھی علامتی طور پہ  بیٹیوں کو جہیز میں پان دان دینے کا رواج ہے۔ جس کی اگر  کیمرا ٹِرکس کے ساتھ تصویر لیجیے، تو یہ اپنے بھاری ہونے کا تاثر بھی دینے لگتے ہیں، سو، ہماری فرمائش پر کراچی سے یہ ’پان دان‘ آگیا۔

پڑھنے والے سوچتے ہوں گے کہ ہم پنجابی ہیں، تو ’پان دان‘ سے ہمارا تعلق کیسے بھلا۔۔۔؟ کچھ تعلق جذباتی لگاؤ  کے سبب بھی ہو جاتے ہیں، اس لیے پان اور ’پان دان‘ سے ہمارا لگاؤ قلبی اور بہت جذباتی سا ہے۔۔۔ ہمارے بچپن میں ابّا کی ایک چچی ہمارے گھر آیا کرتی تھیں، جنھیں ہم سب بہن بھائی ’غرارے والی دادی‘ کہتے تھے۔

وہ گرمیوں میں عام طور پر سفید خوب صورت گھیرے دار غرارے اور سفید دوپٹے پر گلاس نائیلون کی چوڑی بیل والے دوپٹے پہنتی تھیں اور شادی کی تقریبات میں بنارسی اور چٹا پٹی کے غرارے زیب تن فرماتیں۔ ہم نے مختلف شادیوں میں دو چار بار ہی انھیں دیکھا، جتنا دیکھا ویسا ہی یاد ہے۔

ان کے ساتھ ساتھ ان کا ’پان دان‘ بھی ہوتا تھا۔ ’غرارے والی دادی‘ بڑی خوش مزاج شخصیت کی مالک تھیں، پلنگ پر تکیہ لگا کے بیٹھتیں، اپنی ذات میں انجمن۔۔۔ ارد گرد مقناطیس کی سی کشش رکھتیں، ہر کوئی ان کی جانب کھنچا چلا آتا اور وہ مزے سے پورے ماحول کو اپنی گرفت میں کر لیا کرتیں، دن میں کئی بار چھوٹے چھوٹے خوش بودار پان بنا کے کھاتیں اور ساتھ بیٹھی ہوئی خواتین کے لیے بھی فرمائشی پان بنا بنا کر کھلاتیں۔ جیسے خوش بو دار پان ہوتے، بالکل ایسی ہی خوب صورت اور خوش بو دار گفتگو بھی کرتی تھیں۔۔۔ یوں لگتا جیسے ان کے ’پان دان‘ میں ہزاروں بے فکر اور خوش باش کہانیاں بند ہیں، جو ہر بار اس کا ڈھکنا کھولے جانے سے ایک نیا جنم لے لیتی ہیں۔

ان کا ’پان دان‘ منقش اور خوب بھاری سا تھا، گلٹ کا تھا یا چاندی کا۔ یہ تو ہمیں علم نہیں، لیکن اس ’پِِٹاری‘ کا ڈھکنا کھولتے ہی گردو پیش میں سونف، چھالیا اور الائچی اور کتھے جیسے پان کے بنیادی لوازمات کی ملی جلی محسور کُن خوش بو پھیل جاتی تھی۔ یہ ہمارا انتہائی کم سنی کا زمانہ تھا، لیکن ’غرارے والی دادی جان‘ کی مقناطیسی شخصیت یاد کے دھیان میں کامل مجسم رہی ہے۔ دراصل ابا کی چچی لکھنؤ سے تھیں اور لکھنوی تہذیب و ثقافت کی مکمل آئینہ دار تھیں۔

بیاہ کر وہ پنجاب آگئیں، ہمارے چھوٹے دادا ’بیوروکریٹ‘ تھے، جن کی اُس زمانے میں ہندوستان میں کہیں پوسٹنگ بھی ہوئی تھی، اب اُن کی شادی کیسے ہوئی۔۔۔؟ اس حوالے سے ہمارے خاندان کی تاریخ خاموش ہے، مگر پھر وہ  تمام زندگی پنڈی اور اسلام آباد میں رہیں۔ ان کی اولادیں بھی اب یہاں اسلام آباد میں ہی مقیم ہیں اور بہت سے کلیدی عہدوں پہ فائز ہیں۔

پان سے ہمارا دوسرا جذباتی لگاؤ اپنے ابّا کی وجہ سے ہے۔ ہمارے ابّا بھی پان کھاتے تھے۔ ہمیں اپنے ابّا سے بے پناہ محبت تھی، جب تک ابا گھر میں رہتے، ہم ان کے گرد ہی کسی پروانے کی طرح موجود رہتے۔ ابّا پان کھانے کا شوق رکھتے تھے، لیکن ہماری والدہ یہ پسند نہیں کرتی تھیں، سو جھوٹ موٹ ڈر کے وہ تھوڑی بہت احتیاط کرتے تھے۔ اس لیے ہمارے گھر میں ’پان دان‘ نہیں تھا، بس ’ڈھاکا پان ہاؤس‘ والا پانچ چھے پان کی گلوریاں بنا کے ایک لفافے میں ڈال کے ’چھوٹے‘ کے ہاتھ ہمارے گھر بھجوا دیتا تھا۔ کبھی کبھار یہ ’سروس‘ یعنی ’ہوم ڈیلیوری‘ شام کو بھی ہوتی تھی کہ ’’ابھی تازہ تازہ مال آیا ہے، اس لیے تازہ بھیج رہا ہوں۔۔!‘‘

مہینے کے مہینے اس کے پانوں کا حساب چُکتا کیا جاتا۔۔۔ ہمیں ابّا کے پان چبانے کا انداز بے حد پسند تھا، ایک بار پان کا لفافہ  انگیٹھی پہ ہی پڑا رہ گیا، ہوا یوں کہ ’پنواڑی‘ نے نئے پان بھیج دیے تھے، سو ہم نے انگیٹھی والا لفافہ اپنے قبضے میں کر لیا کہ ابّا تو بھول گئے ہیں، آج ہم بھی اپنے ابا کے ’اسٹائل‘ میں پان کھائیں گے۔ سو ہم نے ’پدرانہ انداز‘ میں ایک پان  اپنے کّلے میں دبا لیا، اس کے بعد یہ ہوا کہ یک دم سر چکرانے اور دل گھبرانے لگا، کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو ہم تازہ ہوا کے لیے ’ٹیوب ویل‘ کے حوض کنارے جا بیٹھے۔۔۔ لیکن یہاں گھومتے سر  اور چکروں کے اگلے پھیر میں ’غڑاپ‘ سے ’حوض برد‘ ہو گئے! وہ تو شکر ہے ایک ’کسان‘  وہیں موجود تھا، جس نے ہمیں بچا لیا ورنہ ہم نہ جانے کہاں جاتے۔۔۔ اس واقعے کے بعد والدہ ہم پر خوب ناراض ہوئی تھیں۔

اب کبھی ابّا کی یاد آئے، تو کبھی کبھی پان کے ہرے پتے کی خوش بو میں لپٹ کر یہ دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ یہ ہمیں بے تحاشا بے چین بھی کر دیتی ہے۔ بس اسی بے چینی کے لیے ہی ہم نے یہ ’پان دان‘ منگوایا تھا۔۔۔ اس لیے کبھی کبھار منہ میں خوش ذائقہ پان رکھ لیتے ہیں، کبھی باقاعدہ گلوری بنا بنا کے کھاتے ہیں اور اپنا بھولا بِسرا بچپن یاد کر لیتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو پان کھانے کے آداب ہمیں معلوم نہیں ہیں، ہم تو مُنّا سا پان محبت سے  بنا کے تمیز سے کھا جاتے ہیں۔ ویسے بہت سے پان ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے لیے باقاعدہ ’اگال دان‘ کا اہتمام ہوتا ہے، جس پر کسی ناواقف نے کیا سادہ  تبصرہ کیا تھا کہ ’یہ لوگ تو تھوکتے بھی ’برتن‘ میں ہیں۔‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پان دان بھی ہو بنا کے اس لیے کے لیے

پڑھیں:

راولپنڈی میں کراؤڈ نے ہمارے خلاف نعرے لگائے: شائے ہوپ

ملتان سلطانز کے غیر ملکی کھلاڑی شائے ہوپ کا کہنا ہے کہ راولپنڈی میں کراؤڈ نے ہمارے خلاف نعرے لگائے، راولپنڈی میں کراؤڈ ہمارے حق میں نہیں تھا لیکن ملتان میں اُمید ہے کراؤڈ آئے گا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محمد رضوان نے ہمیشہ اپنے چہرے پر مسکان رکھی ہے، ان کی وجہ سے ڈریسنگ روم میں مثبت ماحول رہتا ہے۔

شائے ہوپ کا کہنا ہے کہ ماضی کی پرفارمنس کو بھول کر بقیہ پی ایس ایل کو دیکھنا ہے، ملتان سلطانز ابھی بھی ٹورنامنٹ میں موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ اہم مواقع پر پرفارمنس دینے کی ضرورت ہے جس سے جیت مل جاتی ہے، ملتان سلطانز بقیہ میچز جیتنے کی کوشش کرے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ راولپنڈی کی پچ 200 رنز کی نہیں تھی، پشاورزلمی نے بہترین بیٹنگ کی، پشاور زلمی نے ویسی بیٹنگ کی جیسے ہمیں کرنی چاہیے تھی۔

شائے ہوپ نے یہ بھی کہا کہ ٹام کوہلر کیڈمور اور محمد حارث نے شاندار بیٹنگ کی، علی رضا باصلاحیت بولر ہیں، مستقبل میں پاکستان کے لیے اہم ثابت ہوں گے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں ایک ماہ سے کوئی امدادی ٹرک داخل نہیں ہوا، لوگ بھوکے مر رہے ہیں، اقوام متحدہ
  • کینال منصوبہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر احتجاج کیلیے نکلیں گے، وزیراعلی سندھ
  • کینال منصوبہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر احتجاج کیلیے نکلیں گے، وزیراعلیٰ سندھ
  • علامہ اقبال کا پیغام حریت آج بھی ہمارے لیے راہ نجات ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • ہمارے حاجی وی وی آئی پی کی طرح حج کریں گے: وفاقی وزیر مذہبی امور
  • علامہ اقبالؒ کا فلسفہ آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے:محسن نقوی
  • بجلی
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم
  • راولپنڈی میں کراؤڈ نے ہمارے خلاف نعرے لگائے: شائے ہوپ
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات جاری نہیں ہیں، شیخ وقاص اکرم