وینا ملک اپنی والدہ سے صرف 10 سال چھوٹی ہے، حقیقت کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
معروف اداکارہ، ماڈل اور ٹی وی میزبان وینا ملک نے اپنی سالگرہ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر اپنی عمر سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط معلومات کی تردید کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گوگل پر ان کی عمر 48 سال درج ہے جو حقیقت کے برعکس ہے اور اس کے مطابق وہ اپنی والدہ سے صرف 10 سال چھوٹی ہیں۔ وینا ملک نے اپنی اصل عمر بتانے سے گریز کرتے ہوئے صرف یہ بتایا کہ ان کی سالگرہ 20 فروری کو ہوتی ہے۔
شادی کے حوالے سے وینا ملک نے واضح کیا کہ فی الحال ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن اگر قسمت میں لکھا ہوا تو وہ اسے روک نہیں سکتیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ گلوکاری اور نعت خوانی میں بھی قسمت آزما چکی ہیں لیکن زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ سیاست کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ خود کو غیر سیاسی سمجھتی ہیں۔
کرکٹ کے بارے میں وینا ملک نے کہا کہ پاکستان میں ہر کوئی، چاہے کرکٹ کی بنیادی معلومات نہ بھی رکھتا ہو، اس کھیل کا شوقین ہے، اور وہ خود بھی کرکٹ کی بڑی مداح ہیں۔
حال ہی میں، وینا ملک نے انسٹاگرام پر ایک نامعلوم نوجوان کے ساتھ تصاویر شیئر کیں، جس پر مداحوں نے مختلف قیاس آرائیاں کیں۔ تاہم، اداکارہ نے ان تصاویر کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی۔
واضح رہے کہ وینا ملک نے 2013 میں اسد بشیر خٹک سے شادی کی تھی، جس سے ان کے دو بچے ہیں۔ 2017 میں ان کی علیحدگی ہو گئی تھی، اور اس کے بعد سے ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں مختلف افواہیں گردش کرتی رہی ہیں۔
وینا ملک نے مزید بتایا کہ انہیں تاحال شادی کے لیے متعدد پیشکشیں موصول ہوتی ہیں، لیکن ان کا فی الحال شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ حسن پرست ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان کا شریک حیات دراز قد اور خوبصورت ہو۔
ان تمام باتوں کے باوجود، وینا ملک نے اپنی اصل عمر بتانے سے گریز کیا اور انٹرنیٹ پر موجود معلومات کو غلط قرار دیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے بارے میں وینا ملک نے
پڑھیں:
امریکی جرائم کے بارے میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو یمن کا خط
یمنی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک کو ایک خط بھیج کر امریکی جرائم پر بین الاقوامی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ اس ملک نے یمن پر ایک ہزار کے قریب وحشیانہ حملے کیے ہیں اور اس کا ہدف صیہونیوں اور ان کے جرائم کی حمایت کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایسے وقت جب امریکہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں کے خلاف صیہونی رژیم کے جرائم کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور اس مقصد کے لیے یمن میں عام شہریوں اور شہری مراکز پر وحشیانہ جارحیت انجام دینے میں مصروف ہے اور حالیہ ہفتوں میں اس ملک کے سیکڑوں شہریوں کا قتل عام کر چکا ہے، یمنی وزیر خارجہ جمال عامر نے گذشتہ رات بین الاقوامی تنظیموں اور مختلف ممالک کے سربراہان مملکت کو ایک مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں یمن کے خلاف وحشیانہ امریکی جارحیت کی مذمت کی گئی ہے اور ان سے اس جارحیت کو ختم کرنے کے لیے واشنگٹن پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ خط انسانی حقوق کونسل کے صدر، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور اس کونسل کے اراکین، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر، سلامتی کونسل کے صدر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک اور بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کو بھیجا گیا ہے۔ ان خطوط میں یمنی وزیر خارجہ نے یمن کے عوام اور خودمختاری کے خلاف تمام امریکی جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد بین الاقوامی کمیٹی کے قیام پر زور دیا اور تاکید کی: "امریکہ نے اب تک یمن کے خلاف تقریباً ایک ہزار فضائی حملے کیے ہیں جن میں خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں بے گناہ افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔"
یمن کے وزیر خارجہ جمال عامر نے اپنے خط میں مزید لکھا: "امریکہ نے یمن میں درجنوں شہری بنیادی ڈھانچوں بشمول بندرگاہیں، ہوائی اڈے، فارمز، صحت کی سہولیات، پانی کے ذخائر اور تاریخی مقامات کو بھی فضائی جارحیت نشانہ بنایا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال راس عیسی کی بندرگاہ کو نشانہ بنانا تھا جس کے نتیجے میں 80 شہری شہید اور 150 زخمی ہوئے۔" اس یمنی عہدیدار نے مزید لکھا: "اس کے علاوہ، امریکہ جان بوجھ کر امدادی کارکنوں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے جن میں دارالحکومت صنعا کے شعوب محلے میں واقع فروہ فروٹ مارکیٹ بھی شامل ہے جو اتوار کی رات مجرمانہ امریکی جارحیت کا نشانہ بنا اور اس کے نتیجے میں 12 شہری شہید اور 30 دیگر زخمی ہو گئے۔" انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا: "یمن کے خلاف امریکی وحشیانہ جارحیت پر عالمی برادری کی خاموشی امریکیوں کو خونریزی جاری رکھنے اور یمنی قوم کے وسائل اور سہولیات کو تباہ کرنے میں مزید گستاخ بنا رہی ہے۔ یمن کے خلاف امریکی جارحیت کا مقصد بحیرہ احمر میں کشتی رانی کی حفاظت نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد غاصب صیہونی رژیم اور معصوم شہریوں کے خلاف اس کے مجرمانہ اقدامات کی حمایت کرنا ہے۔" یمنی وزیر خارجہ جمال عامر نے اپنے خط کے آخری حصے میں لکھا: "یمن کے خلاف امریکہ کی وحشیانہ جارحیت صیہونی رژیم کے خلاف یمن کے محاصرے کو توڑنے اور فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے مجرمانہ اہداف کے حصول اور ان کے منصفانہ مقصد کو تباہ کرنے میں اس رژیم کی حمایت کی کوششوں کا حصہ ہے اور یمنی عوام کو غزہ میں فلسطین قوم کی حمایت پر مبنی دینی اور اخلاقی موقف سے ہٹانے کی مذبوحانہ کوشش ہے۔"