آئین و قانون کی حکمرانی
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
اپنے وقت کے امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہؒ کو ان کے عہد کے عباسی خلیفہ ابو جعفر نے عدالت کا سب سے بڑا ’’ قاضی ‘‘ کا منصب پیش کیا، لیکن امام ابو حنیفہ نے حاکم کی پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کر لی۔
جب کہ حاکم وقت کا اصرار بڑھنے لگا۔ آپ نے صریحاً انکارکردیا کہ وہ یہ منصب قبول نہیں کر سکتے تو ابو جعفر منصور نے سخت ناپسندیدگی کا اظہارکیا اور آپ کو قید خانے میں ڈال دیا گیا۔
امام ابو حنیفہ نے جیل میں بھی اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ امام محمد جیسے محدث و فقیہ نے جیل ہی میں امام ابو حنیفہ سے تعلیم حاصل کی۔ حاکم وقت نے سر توڑ کوشش کی کہ امام ابو حنیفہ ان کی پیش کش قبول کر لیں لیکن امام اعظم نے ابو جعفر کی خواہش کے آگے سر نہیں جھکایا۔ نتیجتاً جیل میں آپ کو زہر دے دیا گیا۔ امام ابو حنیفہ سجدے کی حالت میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ تقریباً پچاس ہزار افراد نے امام اعظم کی نماز جنازہ پڑھی۔ انھیں بغداد کے خیزراں قبرستان میں دفن کیا گیا۔ جہاں ایک بڑی مسجد ’’جامع الامام الاعظم‘‘ تعمیر کی گئی جو آج بھی موجود ہے۔
حاکم وقت کے جبر کا شکار ہو کر ایک عظیم محدث و فقیہ اور اپنے وقت کا سب سے بڑا امام دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس طرح صرف اور صرف اللہ کے خوف سے قاضی کے عہدے کو قبول نہ کرنے والے نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا تاکہ خلیفہ وقت انھیں قاضی کے منصب پر بٹھا کر اپنی مرضی کے مطابق ایسے فیصلے نہ کرا سکے جس سے مالک حقیقی ناراض ہو۔
تاریخ شاہد ہے کہ جس معاشرے میں انصاف کی فراہمی پر سوالات اٹھائے جائیں، نظام انصاف میں خامیاں، کمزوریاں اور نقائص پیدا ہو جائیں اور انصاف فراہم کرنے والے سائلین حقیقی انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہوں تو وہ معاشرہ عادلانہ نہیں بلکہ جابرانہ اور ظالمانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسا نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول صادق ہے کہ معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے ظلم و ناانصافی پر نہیں۔ قانون اور انصاف کی عمل داری سے ہی ظالم اور مظلوم کا تعین ہوتا ہے۔
پاکستان کو بنانے والے قائد اعظم محمد علی جناح بیرسٹر یعنی ایک قابل قانون دان تھے۔ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی ان کا نصب العین تھا۔ وہ اپنے بنائے گئے پاکستان میں قانون، انصاف اور آئین کی حکمرانی دیکھنے کے خواہاں تھے کہ اسی طرح عادلانہ معاشرہ جنم لیتا ہے۔
آج افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سات دہائیاں گزر گئیں لیکن آج تک پاکستان میں ایک ایسا نظام عدل وجود میں نہ آ سکا جسے قومی اور عالمی سطح پر قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جا سکے۔ عالمی رینکنگ میں ہماری عدلیہ کا درجہ بہت پیچھے ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجائے بہتری کے تنزلی کے آثار ہویدا ہو رہے ہیں۔
جمہوری و غیر جمہوری ہر دو حکمرانوں نے آزاد عدلیہ کے نعرے تو بہت بلند کیے لیکن عملاً ’’ نظریہ ضرورت‘‘ کے پیوند سے اسے مجروح کیا گیا۔ عدل کے ترازو کو متوازن رکھنے کی ذمے داری جن ہاتھوں میں تھی وہ اپنے ہاتھوں کا توازن قائم نہ رکھ سکے۔ نتیجتاً بھٹو کے ’’جوڈیشل مرڈر‘‘ جیسے فیصلے بدنما داغ بن گئے۔ آمروں کو آئین میں ترامیم کرنے کے اختیارات تفویض کر کے منصفوں نے اپنے کردار کے ساتھ انصاف نہ کیا۔ عدالت ٰ کے متعدد ایسے فیصلے ریکارڈ پر موجود ہیں جن پر ذمے دار حکومتی اداروں نے اخلاص نیت کے ساتھ عمل درآمد کرنے کے بجائے مختلف حیلے بہانوں سے عدالتی فیصلوں کو سبوتاژ کیا، جو نظام انصاف کی کمزوری اور خامیوں کا مظہر اور فراہمی انصاف پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ججز اپنے فیصلوں سے بولتے ہیں لیکن آج ہمارے ہاں صورت حال ذرا مختلف ہے۔ سائلین کہاں جائیں؟ کیا اسے عدلیہ کی آزادی کا پیمانہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اصلاحات کے نام پر جو کچھ کیا جا رہا ہے اور مبصرین و تجزیہ نگار جو سوالات اٹھا رہے ہیں اس کا جواب کون دے گا۔
عدلیہ کی آزادی کا اعلانیہ اظہار پہلی مرتبہ کیا جا رہا ہے جس پر تجزیہ نگار سوالات اٹھا رہے ہیں جو ناقابل فہم نہیں۔ ان سوالوں میں موجود وزن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ عدلیہ کی آزادی، آئین و قانون کی حکمرانی ہر صورت ہر چیز پر مقدم ہونی چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی حکمرانی انصاف کی
پڑھیں:
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخاب؛ فیصلہ ہوچکا، فائنل آرڈر پاس نہیں کریں گے، چیف الیکشن کمشنر
اسلام آباد:پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخاب کیس کی سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے ہیں کہ الیکشن کمیشن فیصلہ کر چکا ہے، فائنل آرڈر پاس نہیں کرے گا۔
الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخاب کیس کے معاملے کی سماعت چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے کی، جس میں پی ٹی آئی کے وکیل عذیر بھنڈاری، درخواست گزار اکبر ایس بابر سمیت دیگر فریقین پیش ہوئے۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل عذیر بھنڈاری نے دلائل دیے۔و اضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے انٹرا پارٹی انتخاب کیس میں الیکشن کمیشن کو فیصلے سے روک رکھا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن فیصلہ کر چکا ہے، فائنل آرڈر پاس نہیں کرے گا۔ پی ٹی آئی نے جو دستاویزات جمع کرائی ہیں اس پر دلائل دیں۔ یہ جو آپ بتا رہے ہیں پی ٹی آئی کا وکیل پہلے بتا چکا ہے۔ آپ کے تمام اعتراضات مسترد کیے جاتے ہیں۔ بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی کے چیئرمین کے طور پر نہیں بلکہ بطور وکیل پیش ہوئے۔
ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے کہا کہ کوئی بھی پارٹی انٹرا پارٹی انتخاب کرانے کی پابند ہوتی ہے۔ ڈی جی پولیٹیکل فنانس نے سماعت کے دوران بتایا کہ پی ٹی آئی 2021 میں انٹرا پارٹی انتخاب کرانے کی پابند تھی لیکن نہیں کروائے ۔
حکام کے مطابق تحریک انصاف اپنے آئین کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کی پابند ہے۔ پی ٹی آئی کا نیا آئین 2019 میں منظور کیا گیا تھا۔ پارٹی آئین میں لکھا ہے کہ چیئرمین کا الیکشن سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ہو گا۔ پارٹی آئین کے مطابق پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اور دیگر باڈیز موجود نہیں۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ نومبر 2023 میں پارٹی الیکشن کمشنر نے ترمیم شدہ آئین اور انٹرا پارٹی انتخابات نتائج واپس لے لیے تھے۔ اس وقت پی ٹی آئی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں۔ جنرل باڈی اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے پی ٹی آئی نے چیف آرگنائزر مقرر کیا۔ پی ٹی آئی آئین میں جنرل باڈی کا کوئی ذکر نہیں۔ قرارداد میں لکھا گیا کہ پارٹی کی نیشنل کونسل موجود نہیں۔
الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ کسی تنظیمی ڈھانچے کے بغیر صرف ایک قرارداد کے ذریعے انٹرا پارٹی انتخابات کروائے جا سکتے ہیں؟۔ ہمارے ریکارڈ کے مطابق پارٹی سیکرٹری جنرل اسد عمر ہیں لیکن اس عہدے پر اب کوئی اور ہے۔