پاکستان کے شمال مغرب میں واقع صوبہ بلوچستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بد امنی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، آئے روز پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کو صوبے سے ملانے والی قومی شاہراہوں پر عسکریت پسند عناصر ناکہ بندی کرکے کارروائیاں کر رہے ہیں۔

حالیہ چند عرصے کے دوران کالعدم تنظیموں کی جانب سے کارروائیوں میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔ رواں ماہ کے دوران 19 فروری کو کوئٹہ پنجاب قومی شاہراہ پر بارکھان کے علاقے رڑکن کے مقام پر کالعدم تنظیم کی جانب سے ناکہ بندی کی گئی اس دوران کوئٹہ سے فیصل آباد جانے والی بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 7 افراد کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں پہلے بس سے اتارا گیا اور بعد ازاں گولیاں مار کر انہیں قتل کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بارکھان میں پنجاب کے 7 رہائشیوں کا قتل، آٹھواں کیسے بچ گیا؟

گزشتہ روز بھی عسکریت پسندوں کی جانب سے کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر ضلع بولان کے علاقے میں 4 مختلف مقامات بی بی نانی، آب گم، پیرغائب اور گرین ہوٹل کے قریب مسلح افراد نے ناکہ بندی کی اس دوران گاڑیوں میں سوار افراد کی شناخت کی گئی۔

واقع میں پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی لیاقت لہڑی کے محافظوں سے اسلحہ چھین لیا گیا تاہم بعد ازاں سیکیورٹی فورسز اور مسلح افراد کے درمیان فائرنگ سے 2 راہ گیر مارے گئے۔ اس کے علاوہ پیر کی شب ضلع قلات کی تحصیل منگوچر کے قریب کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر معدنیات لے جانے والے قافلے پر آئی ای ڈی سی حملہ کیا گیا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے، اس سوال کے لیے وی نیوز کی جانب سے ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جواب موصول نہیں ہو سکا، اس کے علاوہ وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی بھی مختلف تقریبات میں میڈیا کو نظر انداز کررہے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان ایک طویل عرصے سے حالت جنگ میں ہے، ہرانے والی حکومت عوام کو خوشحالی کے خواب تو دکھاتی ہے لیکن بد قسمتی سے یہ حکومتیں عوام کی جانوں کا تحفظ کرنے میں بھی ناکام ہورہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بارکھان دھماکا: 4 افراد جاں بحق 10 زخمی، وزیر اعظم کی مذمت

 عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے مخلوط حکومت قائم کی اور یوں پیپلزپارٹی سے میرسرفراز بگٹی جو پہلے نگران وفاقی وزیرداخلہ اور صوبائی وزیرداخلہ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں، اقتدار کی کرسی کو سنبھالا لیکن ان کے اس ایک سال کے دوران بدامنی کے واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ صوبے میں ٹارگیٹڈ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس کے باوجود آئے روز عسکریت پسندوں کی جانب سے قومی شاہراہوں کی ناکہ بندی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حکومت عوام کی جان و مال کی تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔

 گزشتہ روز رکن صوبائی اسمبلی لیاقت لیڈی کے محافظوں سے عسکریت پسندوں نے اسلحہ چھین لیا، جب رکن صوبائی اسمبلی جن کی سیکیورٹی پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں وہ محفوظ نہیں تو عام عوام کی حفاظت بھلا یہ حکومت کیسے کرسکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news بارکھان بلوچستان عسکریت پسند قومی شاہرائیں ناکہ بندی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بارکھان بلوچستان عسکریت پسند قومی شاہرائیں ناکہ بندی عسکریت پسندوں کی جانب سے ناکہ بندی

پڑھیں:

عوام کا ریلیف حکومت کے خزانے میں

موجودہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے دعوے ویسے تو صبح وشام کرتی رہتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی مجبوریوں کا اظہار بھی کرتی رہتی ہے لیکن ریلیف دینے کا جب جب موقعہ میسر آتاہے وہ اس میں کٹوتی کرنے کی تدابیر بھی سوچنے لگتی ہے۔ایسا ہی اس نے ابھی چند دن پہلے کیا۔

وہ جانتی تھی کہ عوام عالمی سطح پر پیٹرول کی قیمتوں میں بڑی کمی کا ریلیف اپنے یہاں بھی دیکھنا چاہ رہے ہیں،لہٰذا اس نے بلوچستان میں اٹھنے والی شورش کو بہانہ بناکر وہاں ایک بڑی شاہراہ بنانے کی غرض سے یہ متوقع سارا ریلیف اپنے خزانے میں ڈال لیا۔یہ مجوزہ شاہراہ بنتی ہے بھی یا نہیں ،ابھی اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہاجاسکتاہے بلکہ خود حکومت کے مستقبل کے بارے میں بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ حکومت اپنے بقیہ چار سال پورے بھی کرپائے گی یانہیں۔ایک لیٹر پیٹرول پر حکومت نے ابھی ایک ماہ پہلے ہی دس روپے اضافہ کرکے لیوی کو ستر روپے کردیا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ پچھلی حکومت کے دور میں IMF نے اسی لیوی کو 35 روپے کرنے کو کہا تھااوروہ بھی قسطوں میں یکمشت نہیں۔مگر ابھی تو کسی عالمی مالیاتی ادارے نے ہم سے اس جانب کوئی مطالبہ بھی نہیں کیاتھامگر اس حکومت نے اپنے ڈیڑھ دو برسوں میں اسے ستر روپے سے بھی زائد کرکے اپنے بجٹ کا خسارہ کم کرنے کا بہت ہی آسان طریقہ ڈھونڈلیا۔

ستر روپے فی لیٹر ہی کچھ کم نہ تھاکہ اب اس میں مزید آٹھ روپے کاسراسر ناجائز اضافہ کردیا۔دیکھا جائے توامریکا کی جانب سے ٹیرف میں اضافے کے بعد عالمی مارکیٹوں میں تیل کی قیمت میں بیس فیصد تک کمی ہوئی ہے لیکن ہماری دردمند حکومت نے صرف تین فیصد یعنی آٹھ روپے ہی کم کرکے اسے بلوچستان کے عوام سے ہمدردی کے نام پراپنے خزانے میں منتقل کردیے۔یہ مجوزہ سڑک اورشاہراہ نجانے کب بنتی ہے کسی کو نہیں پتا۔ ایک طرف بلوچستان کے عوام سے اظہارہمدردی کرکے اوردوسری طرف ترقی وخوشحالی کے دعوے کرکے یہ ایک بڑا ریلیف عوام کی پہنچ سے دور کردیا۔دیکھا جائے تو تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو ملنا چاہیے تھااورساتھ ہی ساتھ بجلی کی قیمتوں میںبھی مزید کمی کی جانی چاہیے تھی مگر سرکاری ہیرا پھیری نے یہ سارا ریلیف اپنے ذاتی ریلیف میں تبدیل کرلیا۔ایک لٹر پیٹرول پر78 روپے لیوی شاید ہی کسی اورملک میں لی جاتی ہو۔

یہ لیوی جس کامطالبہ IMF نے بھی نہیں کیامگر ہماری حکومت نے اپنے طور پراپنے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کی غرض سے لاگو کردیا۔ اُسے لمحہ بھر کے لیے عوام کی کسمپرسی اورمفلوک الحالی کا بھی خیال نہیں آیا کہ وہ کس حال میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں اگر عالمی سطح پرپھرسے بڑھیں تو حکومت اُسے اپنے یہاں بڑھانے میں ذراسی بھی دیریا غفلت نہیںکرے گی۔

حکومت نے اپنے پارلیمانی ساتھیوں کے معاوضے میںتو یکمشت پانچ سو فیصد تک اضافہ کردیا مگر عوام کو دس بیس روپے کا ریلیف دینے سے بھی انکار ی ہے۔ حکومت اپنے ایسے کاموں سے اپنی وہ کارکردگی اورستائش ضایع کردیتی ہے جو اس نے اگر کچھ اچھے کاموں سے حاصل کی ہوتی ہے۔ بجلی کی قیمت کم کرنے والا حکومتی اقدام اگرچہ ایک اچھا اقدام تھا مگر اسکی تشہیر کا جو طریقہ اپنایا گیا وہ کسی طور درست نہیںتھا۔ ہرٹیلی فون کال پروزیراعظم کی آواز میں قوم کو اس احسان کی یاد دہانی درست نہیں۔ سوشل میڈیا پر اس طریقہ کا مذاق بنایا گیا ۔پچھتر برسوں میں ہم نے پہلے کبھی کسی بھی حکمراں کی طرف سے ایسا کرتے نہیں دیکھا تھا۔

حکومت نے بے شک اس مختصر عرصے میں اچھے کام کیے ہیں جن کااعتراف اور پذیرائی بھی بہرحال عوام کی طرف سے کی جارہی ہے لیکن یاد رکھاجائے کہ ابھی بہت سے اور بھی کام کرنے ہیں۔بجلی کی حالیہ قیمتیں اب بھی بہت زیادہ ہیں، اسے مزید کم ہونا چاہیے۔IPPs سے مذاکرات کرکے اسے مزید کم کیاجاسکتا ہے۔ ان کمپنیوں سے اس داموں بجلی بنانے کے معاہدے بھی ہماری دوسیاسی پارٹیوں کی حکومتوںنے ہی کیے تھے ۔ اپنی ان غلطیوں کا ازالہ موجودہ حکومت اگر آج کررہی ہے تو یقینا یہ قابل ستائش ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ قوم کو صبح وشام گوش گزار کرکے اپنی تشہیر کی جائے۔سابقہ دور میں غلط کاموں کی تصحیح بہرحال ایک اچھا اورصائب قدم ہے اوراسے مزید جاری رہنا چاہیے۔ بجلی کی قیمت میںمزید کمی ہونی چاہیے ۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ اس مد میں بھی عوام کو ملناچاہیے۔ بلوچستان کے لوگوں کا احساس محرومی صرف ایک سڑک بنانے سے ہرگز دور نہ ہوگا۔وہاں کے لوگوں کی تشویش کئی اور وجوہات سے بھی ہے ہمیں اُن وجوہات کا ازالہ بھی کرنا ہوگا۔ سارے ملک کے لوگوں سے پیٹرول کی مد میں 20روپے نکال کراسے سات آٹھ روپے ظاہرکرکے بلوچستان میںسڑک بنانے کے لیے رکھ دینے سے وہاں کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ ہمیں اس مسئلے کا سنجیدہ بنیادوں پرحل تلاش کرنا ہوگا ۔ ایسالگتا ہے حکومت کو اب بھی وہاں کی اصل صورتحال کاادراک ہی نہیں ہے یاپھر وہ جان بوجھ کراسے نظر انداز کررہی ہے ۔

 ہم یہاں حکومت کو یہ باورکروانا چاہتے ہیں کہ وہ اگرکچھ اچھے کام کررہی ہے تو خلوص نیت اورایمانداری سے کرے ۔ پیٹرول کی قیمت جو ہماری کرنسی کی وجہ سے پہلے ہی بہت زیادہ ہے اُسے جب عالمی صورتحال کی وجہ سے کم کرنے کا موقعہ غنیمت میسر ہوتو پھر اُسے فوراً عوام کو منتقل کرناچاہیے ناکہ اُسے حیلے بہانوں سے روک لیناچاہیے۔پیٹرول جب جب دنیا میں مہنگا ہوتا ہے تو حکومت فوراً اسے اپنی مجبوری ظاہرکرکے عوام پر منتقل کردیتی ہے لیکن جب کچھ سستا ہوتو یہ ریلیف اپنے خزانوں میں ڈال دیتی ہے ۔

عوام کی تنخواہوں میں اضافے کی ہر تجویز IMFکے ساتھ ہونے والے معاہدے سے نتھی کرکے ٹال دیاجاتا ہے جب کہ اپنے پارلیمانی ساتھیوں کی مراعات میں کئی کئی سوفیصد اضافہ کرتے ہوئے اُسے IMF کی یہ شرائط یاد نہیں آتی ہیں۔یہ دورخی پالیسی سے عوام بددل ہوجاتے ہیں۔حکمرانوں کو اپنے ان طور طریقوں پرغور کرنا ہوگا۔سب کچھ اچھا ہے اورعوام اس سے خوش ہیں ۔اس خام خیالی سے باہر نکلنا ہوگا۔اپنے ساتھیوں کی مداح سرائی کی بجائے ذرا باہر نکل کربھی دیکھیں عوام کس حال میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

سات روپے بجلی سستی کرکے یہ سمجھ لینا کہ عوام ان کی محبت میںسرشار ہوچکے ہیں اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ قوم سے ہربرے وقت میں قربانی مانگنے کی بجائے اب خود بھی کوئی قربانی دیں۔اس مشکل وقت میںپچاس پچاس وزیروں کی بھلاکیا ضرورت ہے اور وہ بھی بھاری بھرکم تنخواہوں پر۔یاد رکھیں عوام اب مزید قربانیاں دینے کوہرگز تیار نہیں ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے غزہ میں 7 سالہ جنگ بندی کا نیا فارمولا تجویز
  • کینال پر احتجاج گراؤنڈز میں کریں، سڑکوں کو بند نہ کریں: شرجیل میمن
  • غزہ کے لوگوں کیلئے احتجاج وقت کی اہم ضرورت ہے، جماعت اسلامی بلوچستان
  • کوئٹہ، ملی یکجہتی کونسل کا فلسطین کی حمایت میں 26 اپریل کو احتجاج کا اعلان
  • عوام کا ریلیف حکومت کے خزانے میں
  • پوپ فرانسس کی جانب سے غزہ کی افسوسناک صورتحال کی مذمت
  • بلوچستان کو خیرات نہیں، بلکہ حقوق دیں، مولانا ہدایت الرحمان
  • روس عارضی جنگ بندی کا جھوٹا تاثر پیش کر رہا ہے، زیلنسکی
  • فلسطین  پر امت کوفیصلہ کن اقدامات کرنا ہونگے: ایاز صادق
  • صوبائی حکومت نے دو تعطیلات کا اعلان کر دیا