حماس کی غزہ پر حکمرانی کا خاتمہ کریں گے، نیتن یاہو
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 فروری 2025ء) اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ پٹی میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی حکمرانی کو ختم کرنے کے اپنے ہدف کا اعادہ کیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے گریجویٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ''کسی بھی لمحے شدید لڑائی میں واپسی کے لیے تیار ہے۔
‘‘ انہوں نے کہا، ''ہمارے تمام یرغمالی، بغیر کسی استثنیٰ کے، گھر واپس آئیں گے۔ حماس غزہ پر حکومت نہیں کرے گی۔ غزہ کو غیر فوجی بنا دیا جائے گا، اور اس(حماس) کی جنگی قوت کو ختم کر دیا جائے گا۔‘‘ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ فتح ''مذاکرات‘‘ یا ''کسی اور طریقے سے‘‘ حاصل کی جا سکتی ہے۔(جاری ہے)
غزہ سیزفائر معاہدے کا دوسرا مرحلہ جنگ کے حتمی خاتمے اور بقیہ یرغمالیوں کی رہائی کی طرف لے جانا چاہیے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔
حماس غزہ میں مستقل جنگ بندی اور مکمل اسرائیلی انخلا چاہتی ہے۔ اسرائیل حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے اپنے جنگی مقصد پر اصرار کر رہا ہے۔ غزہ پٹی میں اب بھی 60 سے زائد یرغمال بنائے گئے اسرائیلی موجود ہیں، جن میں سے نصف کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔ حماس کا اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی معطلی پر غوراسی دوران حماس کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات معطل کرنے پر غور کر رہی ہے۔
حماس کے سینئر رہنما احمد مرداوی نےمیسیجنگ ایپ ٹیلیگرام پر لکھا کہ ان کا گروپ اس وقت تک جنگ بندی پر بات نہیں کرے گا، جب تک اسرائیل 600 کے قریب ان فلسطینی قیدیوں کو رہا نہیں کرتا، جنہیں گزشتہ ہفتے کے روز رہا کیا جانا تھا۔جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو حماس کے حلقوں سے معلوم ہوا کہ ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے اور یہ گروپ ثالثوں کے ساتھ رابطے کر رہا ہے۔
حماس نے ہفتے کے روز چھ اسرائیلی یرغمالیوں کو غزہ پٹی میں ریڈ کراس کے نمائندوں کے حوالے کیا تھا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ ان چھ یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل 600 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دے گا، جن میں سے 50 عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ تاہم بعد ازاں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا کہ اسرائیل ان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کر رہا ہے۔ نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا، ''جب تک اگلے یرغمالیوں کی ذلت آمیز تقاریب کے انعقاد کے بغیر رہائی کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی،‘‘ فلسطینی قیدیوں کی رہائی رکی رہے گی۔غزہ میں جنگ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیل میں ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیلی جوابی کارروائی سے شروع ہوئی تھی۔ حماس کے حملے میں 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ حماس کے عسکریت پسندوں نے 250 سے زائد افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جوابی کارروائی میں اب تک وہاں 48,300 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔دونوں جنگی فریقوں کے مابین 19 جنوری کو شروع ہونے والے کثیر المرحلہ جنگ بندی معاہدے میں کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے کے دوران چھ ہفتوں میں 1,904 فلسطینی قیدیوں کے بدلے مجموعی طور پر 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو بتدریج رہا کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے سربراہ کی مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی کارروائیوں پر تشویشاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے پیر کے روز مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں کے بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا۔ اسرائیل کی طرف سے اس مقبوضہ فلسطینی علاقے میں فوجی کارروائیوں میں توسیع کے اعلان کے بعد ان آبادکاروں نے اس مقبوضہ علاقے کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل نے اتوار کے روز کہا تھا کہ اس کے فوجی مقبوضہ مغربی کنارے کے پناہ گزین کیمپوں میں کئی ماہ تک موجود رہیں گے۔ وہاں رہنے والے دسیوں ہزار فلسطینی اسرائیلی فوجی آپریشن میں شدت کے باعث بے گھر ہو چکے ہیں۔ گوٹیرش نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو بتایا، ''میں اسرائیلی آباد کاروں کی طرف سے مقبوضہ مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد اور دیگر خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ الحاق کے مطالبات پر بھی سخت تشویش میں مبتلا ہوں۔
‘‘اسرائیلی فوج نے ایک ماہ قبل مغربی کنارے کے شمال میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے خلاف ایک بڑی چھاپہ مار کارروائی شروع کی تھی۔ اس کے بعد مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں آہستہ آہستہ جنین، تلکرم اور توباس کے شہروں کے قریب متعدد پناہ گزین کیمپوں تک پھیل گئیں۔ اسرائیلی فوج نے اتوار کو جنین میں ٹینکوں کی تعیناتی کا بھی اعلان کیا، جہاں وہ اپنی کارروائیوں کو''توسیع‘‘ دے رہی ہے۔
2005ء میں دوسری فلسطینی انتفاضہ یا بغاوت کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں اسرائیلی ٹینکوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد سے مغربی کنارے میں بھی تشدد میں اضافہ ہو چکا ہے۔
ش ر⁄ ر ب، م م (اے ایف پی، ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فلسطینی قیدیوں میں اسرائیلی نیتن یاہو کے ساتھ حماس کے کے بعد کے روز
پڑھیں:
غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے بتایا ہے کہ تازہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مزید نوے فلسطینی مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ہلاکتیں گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کیے گئے حملوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اسرائیلی دفاعی افواج حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
ہلاک ہونے والے افراد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ پٹی میں وزارت صحت کے مطابق کچھ افراد ایسے علاقوں میں بھی مارے گئے ہیں، جو اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی ہمدردی کے زون قرار دیے گئے تھے۔
جنوبی شہر خان یونس میں بھی کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس شہر کے علاقے مواسی کو اسرائیل نے انسانی ہمدردی کا زون زون قرار دیا ہوا ہے۔
(جاری ہے)
یہاں عارضی بنائی گئی پناہ گاہوں میں لاکھوں بے گھر فسلطینی رہائش پذیر ہیں۔ تاہم اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جنگجو شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اس لیے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری عسکریت پسند حماس پر ہی عائد ہوتی ہے۔ انسانی بحرانی المیہ شدید ہوتا ہوااکتوبر 2023ء سے جاری جنگ نے غزہ کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کے باسی خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت سے تقریبا محروم ہو چکے ہیں۔
اس مسلح تنازعے کے باعث غزہ پٹی کی نوے فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ لاکھوں افراد خیموں یا تباہ شدہ عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔نئے اسرائیلی فضائی حملے ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں، جب امدادی تنظیمیں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر عائد مکمل ناکہ بندی پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ غزہ پٹی میں گزشتہ چھ ہفتوں سے تمام اشیائے خور و نوش اور دیگر ضروریات زندگی کی رسد بند ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں اور بیشتر افراد بمشکل ایک وقت کا کھانا کھا پا رہے ہیں کیونکہ خوراک کے ذخائر ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
محاصرے اور جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار افراد خوراک کی شدید قلت کے باعث سمندری کچھوؤں کا گوشت کھانا شروع ہو گئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق کچھ مجبور خاندانوں نے پروٹین کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ایسا اقدام اٹھایا ہے۔
جنگ بندی کی جامع ڈیل چاہتے ہیں، حماسدریں اثنا حماس نے فائر بندی کی اسرائیلی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ اس عسکریت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ کسی جزوی ڈیل کو قبول نہیں کرے گی بلکہ وہ جنگ بندی کا ایک جامع معاہدہ چاہتی ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کی نئی کوششیں جاری ہیں لیکن حماس کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی معاہدے کو قبول کرے گی جو جنگ کا مکمل خاتمہ کرے۔
غزہ میں حماس کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا، ''ہماری تحریک (حماس) جنگ بندی کے ایک ایسے معاہدے پر فوری مذاکرات کے لیے تیار ہے، جس کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی طے شدہ تعداد کی رہائی کے بدلے یرغمالیوں کی آزادی ممکن ہو سکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس نئی ڈیل کے تحت ہماری عوام کے خلاف جنگ کا مکمل خاتمہ ہو، اسرائیلی افواج غزہ سے مکمل طور پر نکل جائیں اور غزہ پٹی کی تعمیر نو کا آغاز ہو۔
‘‘ اسرائیل نے کیا پیشکش کی تھی؟اسرائیل 45 دن کی جنگ بندی کے بدلے مزید 10 یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ تجویز بھی ہے کہ اس مدت میں فریقین مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کریں گے۔
اسرائیلی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے تاہم یہ عسکری گروہ اس مطالبے کو مسترد کر چکا ہے۔
مذاکرات ابھی تک تعطل کا شکار ہیں جبکہ غزہ میں لڑائی جاری ہے۔
اس صورتحال میں غزہ کے عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تنازعہ کیسے شروع ہوا تھا؟غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق دو ماہ کی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد دوبارہ شروع کیے گئے اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں میں اب تک کم از کم 1,691 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سات اکتوبر سن 2023ء سے جاری اس جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اکاون ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
سات اکتوبر سن 2023ء کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سرزمین پر حملہ کرتے ہوئے اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1,218 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ڈھائی سو سے زائد افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی۔ یورپی یونین، امریکہ اور متعدد دیگر مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
ادارت: عرفان آفتاب، مریم احمد