Daily Sub News:
2025-04-22@14:24:06 GMT

مُہمّات، مذاکرات اور مکتوبات سے ‘گرینڈ الائنس تک’

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

مُہمّات، مذاکرات اور مکتوبات سے ‘گرینڈ الائنس تک’

مُہمّات، مذاکرات اور مکتوبات سے ‘گرینڈ الائنس تک’ WhatsAppFacebookTwitter 0 24 February, 2025 سب نیوز

تحریر: عرفان صدیقی

چیف جسٹس، مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی، عدالتی نظام میں اصلاحات کے لئے لا اینڈ جسٹس کمشن کی تیار کردہ دس نکاتی تجاویز پر وسیع تر مشاورت کر رہے ہیں۔ وزیراعظم اور اُن کے قانونی مشیروں کے بعد چیف جسٹس نے پی۔ٹی۔آئی کے آٹھ رُکنی وفد سے دو گھنٹے طویل ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد پی۔ٹی۔آئی کے زُعما نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے قوم کو آگاہ کیا کہ انہوں نے جناب چیف جسٹس کے سامنے کس صراحت کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کیا۔ میڈیا کی زینت بننے والی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس طویل ملاقات کے دوران میں، پی۔ٹی۔آئی کے بھاری بھرکم وفد نے، عدالتی نظام میں اصلاحات بارے کوئی ایک بھی تجویز پیش نہیں کی۔ شرکاء نے اِس امر کو یقینی بنایا کہ وہ اڈیالہ جیل کے مدار سے بال برابر بھی باہر نہ نکلیں۔ شکایات کا انبار لگا دیاگیا۔ جب اصلاحاتی ایجنڈے بارے سوال کیاگیا تو جواب آیا _ ''ہمیں مہلت دی جائے تاکہ ہم اِن تجاویز بارے اپنا موقف پیش کرسکیں۔'' چیف جسٹس نے ہمیشہ آتشِ زیر پا رہنے والی شعلہ صفت پارٹی کے زُعما کو صائب مشورہ دیا کہ وہ ایجی ٹیشن اور بائیکاٹ کی سیاست کے بجائے سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اپنا جمہوری کردار ادا کرے۔ کیا تحریکِ انصاف، چیف جسٹس کے مشورے پر کان دھرے گی؟ شاید ہی کوئی انتہا درجے کا خوش گمان، اِس سوال کا جواب ہاں میں دے سکے۔ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے، آئین وقانون کے تقاضوں، پارلیمانی روایات اور جمہوری اقدار کے مطابق کردار ادا کرنا پی۔ٹی۔آئی کی سرشت میں ہی نہیں۔ ایجی ٹیشن اور بائیکاٹ اِس کی غذا ہیں اور رُبع صدی سے یہی غذا اُسے زندہ رکھے ہوئے ہے۔ وہ بھاری تعداد میں قومی اسمبلی میں موجود ہے اور سینٹ میں بھی۔ کسی پارلیمانی رپورٹر کو، دونوں ایوانوں سے مصدقہ ریکارڈ حاصل کرکے بتانا چاہیے کہ پی۔ٹی۔آئی کے ارکان کی کارکردگی کیا رہی؟ اُس نے کتنا وقت احتجاج، نعروں، غُل غپاڑے، کاغذات کے پُرزے اُڑانے اور ایوان کو مچھلی بازار بنانے میں صرف کیا؟ کتنا وقت واک آئوٹ اور بائیکاٹ کی نذر کیا؟ قانون سازی کو کس سنجیدگی سے لیا؟ دونوں ایوانوں میں کتنے بل لے کر آئی؟ حکومتی بلوں میں کتنی ترامیم پیش کیں اور اہم قومی مسائل پر کتنی فکر انگیز تقاریر کیں؟ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے البتہ وہ تنخواہ سمیت اُن تمام مراعات وسہولیات سے مستفید ہو رہی ہے جو ارکانِ پارلیمنٹ کو حاصل ہیں۔ سپیکر سردار ایاز صادق کے پاس وہ دستاویز موجود ہے جس پر پی۔ٹی۔آئی کے ساٹھ سے زائد ارکان نے، تنخواہوں میں حالیہ اضافے کی استدعا کی ۔ پارلیمانی کارکردگی سے ہٹ کر بھی اُس کا کردار وعمل، سنجیدہ فکری اور بالغ نظری سے عاری رہا۔ 9 مئی اور 26 نومبر جیسی بے برگ و ثمر مہم جُوئی کے بعد عمران خان نے، ماضی کے موقف اور اپنے مقبول ترین بیانیے کو ایک طرف رکھتے ہوئے اُس حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ کیا جسے وہ فارم '47' کی پیداوار اور دھاندلی سے مسلط کردہ کہتے تھے جس حکومت میں شریک جماعتوں کو چوروں اور ڈاکوئوں کا ٹولہ قرار دیتے تھے۔ جن کے بارے میں تواتر سے اعلان جاری ہوتے تھے کہ کسی سے بھی بات ہوسکتی ہے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے نہیں۔ خان صاحب کا یہ فیصلہ، بہرطور زمینی حقائق کے جبر کا نتیجہ تھا لیکن اتنا بڑا کڑوا گھونٹ پینے کے بعد بھی جب پی۔ٹی۔آئی مذاکرات کی میز پہ بیٹھی تو خُوئے تصادم ساتھ لے کر آئی۔ مطالبات کی دستاویز کو چارج شیٹ بنادیا اور اِس مشق کے منطقی انجام تک پہنچنے سے قبل ہی ایک خود تراشیدہ بہانے کی آڑ میں گھر چلی گئی۔ پھر یکایک خطوط نویسی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اِن خطوط کا لب ولہجہ بھی جارحانہ بلکہ باغیانہ رہا۔ چیف جسٹس کو لکھے گئے ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل خط کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ جنرل سید عاصم منیر کو خط لے جانے والا کبوتر مارگلہ کی پہاڑیوں اور گھاٹیوں پر دیر تک بھٹکنے کے بعد لاپتہ ہوگیا۔ کئی دِنوں بعد اُس کے پَر دامنِ کوہ کی ڈھلوانوں پر بکھرے پڑے ملے۔ خط کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اگر یہ خطوط ہمہ نوع اُلجھائو کے سُلجھائو کے لئے ہوتے تو کم ازکم قومی سطح پر بحث ونظر کا سنجیدہ موضوع ضرور بن جاتے لیکن ہر خط ایک فردِجرم کی تصویر تھا۔ سو یہ مشق بھی 'مشقِ رائیگاں' ہی ٹھہری۔ بے ثمر مذاکرات اور بے مغز مکتوبات کے بعد اَب پی۔ٹی۔آئی اُن اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ 'گرینڈ الائنس' بنانے جا رہی ہے جس کے قائد ین کو وہ برس ہا برس سے مغلظات سنا رہی تھی۔ کیا یہ بیل منڈھے چڑھ پائے گی؟ بظاہر امکانات بہت کم ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ پی۔ٹی۔آئی کا کوئی سنجیدہ حکمت شعار نظم ہے نہ ایسا ٹھوس مشاورتی ڈھانچہ جو عمران خان کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ عالم یہ ہے کہ جماعت کے سینئر راہنما بھی ہر آن کسی نادیدہ خوف کے آسیب کا شکار دکھائی دیتے ہیں اور لب کشائی کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں کوئی جملہ، سرزنش کا باعث نہ بن جائے۔ ہر بات، ہر معاملہ، چھوٹا ہے یا بڑا ، عمران خان کی جنبش لب اور افتادِ طبع سے بندھا ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمرایوب خان نے دو دِن پہلے بتایا کہ چیف جسٹس سے ملاقات سے پہلے ہم نے تین بار عمران خان سے اجازت لی۔ جب پارٹی کے سرکردہ راہنمائوں کے لئے خان صاحب کی ایک ہاں کافی نہ ہو اور تین بار 'ہاں' کا شرعی تقاضا لازم جانے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خان صاحب کی کڑی گرفت کا عالم کیا ہے؟ اپوزیشن جماعتیں بھی بخوبی جانتی ہیں کہ عمران خان صرف اپنی فکرِ خداداد کو ہی حرفِ آخر خیال کرتے ہیں۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں ہنگامہ وپیکار، تُوتکار اور کوچہ وبازار جیسی حکمتِ عملی اپنا سکیں گی جو پی۔ٹی۔آئی کا طرۂِ امتیاز ہے؟ کیا وہ ترسیلاتِ زر نہ بھیجنے، آئی۔ایم۔ایف کو پاکستان کی مدد سے روکنے، عالمی پارلیمانوں کو پاکستان کے اندرونی معاملات بارے اُکسانے، قومی سلامتی کے ضامن اداروں کو نشانہ بنانے، سوشل میڈیا کے طفلانِ خودمعاملہ کے زور پرنفرتوں کے الائو بھڑکانے، پاکستان کی صورتِ حال کو غزہ اور مقبوضہ کشمیر سے بدتر قرار دینے ، 26 نومبر کو جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے مماثل قرار دینے اور 278 کارکنوں کے سینے چھلنی کردیے جانے والے بے ننگ ونام جھوٹ جیسی مکروہ سوچ کے ساتھ چل سکیں گے؟ ''گرینڈ الائنس'' وجود میں آنے سے پہلے ہی پی۔ٹی۔آئی نے رمضان کے بعد تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ اِس تحریک کے اہداف ومقاصد کیا ہوں گے ؟ کوئی نہیں جانتا۔ جو کچھ بھی ہوگا اُس کا انحصار سیاسی راہنمائوں کی باہمی گفت وشنید پر نہیں ، خان صاحب کی صوابدید پر ہے۔ سیاسی اتحاد ایک خاص طرح کی آب وہوا بھی مانگتے ہیں۔ پی۔ٹی۔آئی کی طوفانی اور تلاطم پسند سرشت ایسے بے آب و رنگ خرخشوں کو پسند نہیں کرتی۔ اپوزیشن جماعتوں کو اپنا سارا اثاثہ پوٹلی میں باندھ کر پی۔ٹی۔آئی کی ایسی شکستہ کشتی میں سوار ہونے سے پہلے سوچنا ہوگا جس کے ملّاح کی ہنگامہ جُو اُفتادِ طبع، کسی آن کوئی کرشمہ دکھا سکتی ہے۔ عمربھر عُقدہ کُشا شخصیات کی چھتر چھائوں میں رہنے والی تحریک انصاف آج ایک دشتِ بے اماں میں ہے اور سورج سوا نیزے پر کھڑا ہے۔ یہ سب کچھ اُس کے شاہ دماغ بانی کے دستِ بے ہنر کا اعجاز ہے۔ آگے دیکھتے ہیں کہ ''زمینِ چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا ؟ ''

٭٭٭٭٭٭

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: گرینڈ الائنس

پڑھیں:

ایران کا جوہری پروگرام(3)

اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا

مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"

اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔

امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"

اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے

اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔  
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔

اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"

ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔

مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟

متعلقہ مضامین

  • سعودی آرامکو اور چینی کمپنی بی وائی ڈی کا کار ٹیک الائنس کا اعلان
  • تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ ‘ڈیڈ لیول’ سے بلند ہونے لگا
  • آر ڈی اے نے کلر روڈ روات پر سیور فوڈز کے گودام کو سر بمہر کر دیا، گرینڈ آپریشنز جاری رہے گا:ڈی جی کنزہ مرتضی
  • ‘پاکستان میرا دوسرا گھر ہے’ سر ویوین رچرڈز نے دل کھول کر اپنے تاثرات بیان کردیے
  • ایران امریکا مذاکرات
  • غیر ملکی خاتون پریزینٹر نے حسن علی کو ‘جوکر’ قرار دیدیا، ویڈیو وائرل
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم
  • اکشے کمار کی فلم ‘کیسری 2’ ریلیز ہونے کے گھنٹوں بعد ہی پائریسی کا شکار ہوکر لیک
  • ایران کا جوہری پروگرام(3)
  • ‘مردہ’ شخص زندہ ہوکر نادرا دفتر پہنچ گیا، ‘ہر جگہ الرٹ آتا ہے کہ آپ مرچکے ہیں’