ممبر بار کونسل اختر حسین نے استعفیٰ کیوں دیا؟ وجوہات سامنے آگئیں
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
پاکستان بار کونسل کے ممبر اختر حسین کے استعفیٰ کی وجوہات سامنے آگئیں۔
عدلیہ میں ججز کی تقرری کے طریقہ کارسے اختلاف کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے ممبر اختر حسین نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ممبر اختر حسین کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں ہونے والی تقرریوں پر شدیداعتراض تھا اس لیے عہدے سے مستعفی ہوا ہوں۔
اختر حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدلیہ میں تقرریوں کیلئے سنیارٹی کا خیال نہیں رکھا گیا اور پہلے ججز اکثریت سے تقرری کرالیتے تھے جبکہ اب حکومت اکثریت کے بل پر ججز کی تقرریاں کروا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں کسی گروپ کا نہیں بلکہ بار کا متفقہ نمائندہ تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے جوڈیشل کمیشن میں بھی اعتراض کیا اور اب احتجاجاً استعفی دیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ایمان مزاری ایڈووکیٹ اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جبری گمشدگیوں کی کمیٹی سے مستعفی
ویب ڈیسک: ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جبری گمشدگیوں کی کمیٹی سے استعفی دے دیا۔
رپورٹ کے مطابق ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکریٹری کو اپنا استعفیٰ ارسال کر دیا۔
ایمان مزاری نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے 26ویں آئینی ترمیم اور ججز کی سینیارٹی پر سپریم کورٹ میں دائر درخواست واپس لے لی، اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے پر مایوسی اور حیرانی ہوئی۔
ہر وقت پیاس؛ سنگین مرض کی نشانی
ایمان مزاری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے مجھے جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیٹی کی چیئرپرسن مقرر کیا تھا، مجھے کمیٹی کی جانب سے بیان جاری کرنے کیلئے لیٹرپیڈ تک تاحال جاری کرنے سے انکار کیا گیا۔
ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہائیکورٹ بار کا اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنا قابلِ مذمت، بزدلی اور بدقسمتی ہے، میرا عہدہ لینے کا مقصد رُول آف لاء اور جبری گمشدہ افراد کی رہائی کیلئے وکالت کرنا تھا۔
افغان شہریوں کی واپسی؛ ازالہ شکایات کیلئے وزارت داخلہ میں کنٹرول روم قائم
انہوں نے کہا کہ واضح ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار میں اِس معاملے پر کھڑا ہونے کی جرآت نہیں، میں عہدے سے استعفیٰ دیتی ہوں، میں بار کی موجودہ کابینہ کو اپنے نام اور شہرت کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی، استعفیٰ منظور کیا جائے۔
Ansa Awais Content Writer