کانپور: چچا بھتیجی کی محبت کا المناک انجام، لاشیں خستہ حال مکان سے برآمد
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
کانپور (نیوز ڈیسک) کانپور کے سجیتی علاقے کے ڈوہرو گاؤں میں اس وقت سنسنی پھیل گئی جب ایک جوڑے کی لاشیں ایک خستہ حال مکان سے برآمد ہوئیں۔ مرنے والوں کی شناخت 21 سالہ سونی اور انکت کے طور پر ہوئی، جو گھاٹم پور کے رہائشی اور چچا بھتیجی تھے۔ دونوں کے درمیان محبت کا تعلق تھا، لیکن خاندان والے اس رشتے کے خلاف تھے، جس کی وجہ سے تنازعہ شدت اختیار کر گیا۔
سونی کی شادی 15 فروری کو طے تھی، لیکن وہ ایک دن قبل 14 فروری کو دوپہر کے وقت بیوٹی پارلر جانے کے بہانے گھر سے نکلی اور پھر واپس نہیں آئی۔ اہل خانہ نے اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی اور انکت کے گھر والوں پر اسے اغوا کرنے کا الزام لگایا۔ پولیس نے انکت کے والد اور دیگر رشتہ داروں سے تفتیش کی، لیکن سونی کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اس دوران انکت بھی لاپتہ ہو گیا، جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔
پانچ دن بعد، دونوں کی لاشیں گھاٹم پور سے کئی کلومیٹر دور سجیتی کے ایک خستہ حال مکان سے برآمد ہوئیں۔ پولیس نے لاشوں کا پنچنامہ کر کے انہیں پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا اور معاملے کی ہر زاویے سے تحقیقات جاری ہیں۔
انکت کی بہن سروجنی کے مطابق، اس کا بھائی سورت میں ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا اور شادی سے چند روز قبل ہی اچانک گھر واپس آیا تھا۔ اہل خانہ کے مطابق، سونی کی ماں نے انکت کو واپس بلایا اور اس کے اکاؤنٹ میں 5000 روپے بھیجے تھے تاکہ وہ گاؤں آ سکے۔ دوسری طرف، پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں اپنی مرضی سے گھر سے فرار ہوئے تھے۔
ڈی سی پی مہیش کمار کے مطابق، دونوں کے درمیان چچا بھتیجی کا رشتہ تھا اور وہ شادی کے دن سے قبل ہی گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ کیس کی ہر پہلو سے تفتیش جاری ہے، تاہم لواحقین کی جانب سے تاحال کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی۔
مزیدپڑھیں:عوام کیلئے اچھی خبر ، مفت سولر پینلز کیسےحاصل کریں ؟درخواست کا طریقہ کار اوردیگر تفصیلات جانیں
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
اےکابل وقندھار کےمیرے اپنےلوگو !
جب نفرتوں کے زخم ناسور بن جائیں اور سرحد کے آر پار صدیوں کی محبت بداعتمادی بن کر سانسوں کو بوجھل کردے، دوست رنجیدہ اور دشمن شاد کام ہوجائے تو ، کسی کو ایک قدم اٹھانا پڑتا ہے ، چھوٹا سا بے معنی سا قدم،ایک نرم لہجہ، ایک مصافحہ، ایک مسکراہٹ جوکسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ اسحاق ڈار کا حالیہ دورہ کابل بھی ایسا ہی ایک نازک، مگر حوصلہ افزا قدم تھا، ایک ایسا لمحہ جس نے نفرت کی برف میں پہلی دراڑ ڈالی، اور ایک ایسی شمع روشن کی جو شاید دونوں قوموں کے درمیان اعتماد کی ایک نئی صبح کا آغاز بن سکے ، لیکن یہ قدم صرف ایک اسحاق ڈار کا نہیں تھا ، اس میں متقی بھی شریک ہے جس نے بانہیں کھول کر استقبال کیا ، مولوی نورالدین عزیزی تو اصل ہیرو ہے ، جس نے پس پردہ اس قدم کو ممکن بنایا اور پھر خود ہی پیش قدمی بھی کی ۔
یہ دورہ محض ایک سفارتی تقاضا نہیں تھا، بلکہ ایک جذباتی، انسانی اور علاقائی ضرورت تھی۔ ڈار اور طالبان قیادت کا لب ولہجہ، طرزِ گفتگو، اور باہمی بات چیت میں جو نرمی اور خلوص نظر آیا، اس نے دکھایا کہ نیت صاف ہو تو راستے بھی نکل آتے ہیں۔ طالبان قیادت کا مثبت رویہ اس بات کا عکاس تھا کہ وہ بھی اس خاردار راستے پر قدم رکھنے کو تیار ہیں جہاں لفظوں کی بارش بےشک ہو ، گلے شکوے زورو شور سے کئے جائیں ، اپنے اپنے حق کی جنگ دلیلوں سے لڑی جائے، گولیوں کی نہیں، لیکن کیا سفر تمام ہوا ؟ مسئلہ حل ہوگیا؟ دودھ اور شہد کی نہری بہہ نکلیں ؟ نہیں ۔ قطعا ً ابھی صرف درست سمت میں پہلا قدم اٹھا ہے ، تنے ہوئے ابرو جھکے ہیں اور لبوں پر مسکراہٹ کے پھول کھلے ہیں۔ سمجھنا ہوگا ،جذباتی ہوئے بغیر ، توقعات کے محل کھڑے کئے بغیر ،ادراک کرنا ہوگا کہ یہ سفر ایک دن، ایک ملاقات یا ایک معاہدے سے مکمل نہیں ہوتا۔ نفرت کی زمین میں محبت کا بیج بویا گیا ہے، مگر اس بیج کو پھلدار درخت بننے میں وقت لگے گا،اس کی مسلسل آبیاری کرنا پڑے گی ، حفاظت کرنی ہوگی، صبر کا دامن تھامنا ہوگا، برداشت کی چادر اوڑھنی ہوگی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی تاریخ اتار چڑھاؤ سے بھری ہے۔ ہر نئی کوشش، ہر نیا معاہدہ، ایک نئی امید تو جگاتا ہے، مگر ساتھ ہی پرانے زخموں کا درد بھی تازہ کر دیتا ہے۔ اس پس منظر میں اسحاق ڈار کا دورہ کابل ایک نئی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے،ایک ایسی سوچ جو سرحدوں کے آر پار بسنے والے انسانوں کے دکھ سکھ کو محسوس کرتی ہے، جو یہ جانتی ہے کہ جب ایک طرف آگ لگی ہو تو دوسری طرف خاموشی بھی جرم بن جاتی ہے۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ماضی کے فیصلوں، غلطیوں، اورمداخلتوں سے اس خطے نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔ اب اگر کوئی ہاتھ بڑھا ہے، اگر محبت کا کوئی لفظ ہوا میں لرز رہا ہے، تو ہمیں اسے سمیٹنا ہوگا، اس کے گرد تحفظ کا حصار بنانا ہوگا۔لیکن یہ سفر آسان نہیں، راستے میں دشمن کے بوئے ہوئے کانٹے ہیں ،گلے شکوے ہیں، بدگمانیاں ہیں ، مگر صرف تین سال پیچھے چالیس برس کی یک جہتی ، محبت ، الفت ، یگانگت اور اعتماد کااک سمندر بھی ہے ، جب پاکستان نے اپنے لٹے پٹے جنگ زدہ افغان بھائیوں کو اپنے وسائل میں شریک کیا تھا ، اب تک یہ رشتہ قائم ہے ، سانس لے رہا ہے ، جب پاکستان اور افغانستان کے مجاہدین شانہ بشانہ سودو زیاں کا حساب کئے بغیر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر میدان کارزار میں اترے تھے ، مسلسل چالیس برس کی یہ قربت ابھی پرانی تو نہیں ہوئی ، لہو کا رنگ پھیکا تو نہیں پڑا ، وہی لہو پنجاب کے کسی محمد اسلم نے قندھار کے کسی محبت خان کی جان بچاتے ہوئے پیش کیا تھا ، وہی لہو جو نگر ہار کے کسی طالب خان نے کراچی کے کسی عبدالرحمٰن کی طرف آتی گولی کو اپنے سینے پر لیتے ہوئے دان کیاتھا ، وہ لہو جو میرے پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، گلگت بلتستان ، کشمیر اور خیبر پختون کے نوجوانوں نے قندھار ، کابل ، ننگر ہار پکتیا، خوست کی مائوں بہنوں کی عزت اور آزادی کے لئے افغان بھائیوں کےشانہ بشانہ بہایا تھا ، ابھی ان تکبیروں کی گونج فضا میں باقی ہے ، جو ہم نے مل کر دشمن کے خلاف بلند کی تھیں ، نفرت کی دیوار تو دشمن نے اب اٹھائی ہے ہمارا رشتہ تو اس سے بہت گہرا ہے ، خون کا رشتہ جو ایک دوسرے کے دفاع میں زمیں کو سیراب کرگیا ،آمو سے طورخم تک کس طرح ایک دوسرے سے الگ کریں گے۔
( جاری ہے )