جرمن الیکشن میں قدامت پسندوں کی جیت، اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 فروری 2025ء) یورپی یونین کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک جرمنی کے وفاقی دارالحکومت برلن سے پیر 24 فروری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی سیاسی دھارے کی دو مرکزی جماعتوں میں سے ایک، قدامت پسندوں کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اور جنوبی صوبے باویریا میں اس کی ہم خیال جماعت کرسچن سوشل یونین یا سی ایس یو مشترکہ طور پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے اول نمبر پر رہیں۔
جرمنی میں آباد پاکستانیوں کو اپنا سماجی رویہ بدلنا ہو گا، کومل ملک
سی ڈی یو نے گزشتہ روز ہوئے قومی انتخابات میں اپنے سربراہ فریڈرش میرس کی قیادت میں ان انتخابات میں حصہ لیا تھا اور میرس ہی اس پارٹی کی طرف سے چانسلرشپ کے عہدے کے امیدوار بھی ہیں۔
(جاری ہے)
کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے برعکس ملکی سیاسی دھارے کی دوسرے مرکزی جماعت اور مرکز سے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی)، جس کے سربراہ اولاف شولس اب تک وفاقی چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں، اس الیکشن میں عوامی تائید کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہی۔
کل کے الیکشن میں یہ بھی ہوا کہ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت 'الٹرنیٹیو فار جرمنی‘ (متبادل برائے جرمنی) یا مختصراﹰ اے ایف ڈی پہلی مرتبہ جرمن ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ میں دوسری بڑی سیاسی طاقت بن گئی ہے۔
قدامت پسندوں اور سوشل ڈیموکریٹس کی مشترکہ پارلیمانی اکثریتجرمن الیکشن اتھارٹی کی طرف سے آج جاری کردہ عبوری سرکاری نتائج کے مطابق قدامت پسندوں کی یونین جماعتوں سی ڈی یو اور سی ایس یو اور سوشل ڈیموکریٹس کی پارٹی ایس پی ڈی کو مشترکہ طور پر نو منتخب بنڈس ٹاگ میں اتنی سیٹیں مل گئی ہیں کہ یہ جماعتیں مل کر ممکنہ طور پر ایک نئی قومی مخلوط حکومت بنا سکتی ہیں۔
جرمنی میں جمہوریت کس طرح اتنی مضبوط ہوئی؟
ایسا اس لیے بھی ممکن ہو سکا کہ پارلیمان میں نمائندگی کے لیے بطور جماعت کم از کم پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے کی شرط پورا نہ کرنے کی وجہ سے فری ڈیموکریٹس کی جماعت ایف ڈی پی اور اتحاد سارہ واگن کنیشت یا بی ایس ڈبلیو کو نئی پارلیمان میں کوئی نمائندگی حاصل نہیں ہو گی۔ اسی لیے ان کو اور دیگر چھوٹی متفرق جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کی نسبت سے پارلیمانی نشستیں ایوان میں نمائندگی کی حامل تمام پانچ جماعتوں میں تقسیم کر دی گئیں۔
یوں سی ڈی یو، سی ایس یو اور ایس پی ڈی کو مشترکہ طور پر اتنی سیٹیں مل گئیں کہ 630 رکنی نئی پارلیمان میں ان جماعتوں کی نشستیں 50 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہیں۔ فریڈرش میرس کے لیے نئی حکومت بنانے کی راہ ہموارجرمن قومی انتخابات کے عبوری سرکاری نتائج کے مطابق کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے سربراہ فریڈرش میرس کے لیے اب اصولاﹰ اس امر کی راہ ہموار ہو گئی ہے کہ وہ جرمنی کے آئندہ وفاقی چانسلر بن سکتے ہیں۔
جرمن انتخابات: انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کی خارجہ پالیسی
انہوں نے نتائج واضح ہو جانے کے بعد کل رات گئے ہی کہہ دیا تھا کہ انہیں امید ہے کہ اپریل میں ایسٹر کے مسیحی مذہبی تہوار تک ملک میں ایک نئی وفاقی حکومت قائم ہو جائے گی۔
ساتھ ہی مرکزی سیاسی دھارے کی دیگر جماعتوں کی طرح سی ڈی یو کے سربراہ نے ایک بار پھر یہ بھی واضح کر دیا کہ قدامت پسند یونین جماعتیں نو منتخب ایوان میں دوسری سب سے بڑی سیاسی طاقت اے ایف ڈی کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گی۔
وفاقی جرمن انتخابات، جرمنی کی ساکھ اورعالمی میڈیا
اسی طرح سوشل ڈیموکریٹس کی جماعت ایس پی ڈی اور گرین پارٹی کے ساتھ ساتھ لیفٹ پارٹی 'دی لِنکے‘ کی طرف سے بھی یہ بات پہلے ہی کہی جا چکی ہے کہ ان میں سے بھی کوئی جماعت اے ایف ڈی کے ساتھ اس کے سیاسی نظریات کے باعث کوئی مخلوط حکومت سازی نہیں کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی بنڈس ٹاگ میں 'متبادل برائے جرمنی‘، جو ملک میں تارکین وطن کی آمد اور اسلام کی مخالف ہے، آئندہ پارلیمانی اپوزیشن ہی کا حصہ ہو گی۔
کس پارٹی کے پارلیمانی ارکان کتنے؟غیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق نئی جرمن پارلیمان میں فریڈرش میرس کی قیادت میں سی ڈی یو اور سی ایس یو کے پارلیمانی حزب کے ارکان کی مجموعی تعداد 208 ہو گی۔ اس کے بعد 630 رکنی ایوان میں اے ایف ڈی کے اراکین کی تعداد 152 ہو گی۔
اب تک برسراقتدار مخلوط حکومت میں شروع میں شامل ہونے والی تینوں جماعتوں ایس پی ڈی، گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کو عوامی تائید میں کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جرمنی میں کل کے قبل از وقت عام الیکشن اس لیے ضروری ہو گئے تھے کہ اس تین جماعتی حکومتی اتحاد سے گزشتہ برس ایف ڈی پی علیحدہ ہوگئی تھی اور شولس حکومت کی پارلیمانی اکثریت ختم ہو گئی تھی۔جرمنی: اے ایف ڈی کے ساتھ تعاون پر میرکل کی میرس پر پھر تنقید
نئی بنڈس ٹاگ میں سوشل ڈیموکریٹ ارکان کی تعداد اب 120 ہو گی جبکہ ماحول پسندوں کی گرین پارتی کے ارکان کی تعداد بھی کم ہو کر اب 85 رہ گئی ہے۔
جہاں تک فری ڈیموکریٹس کی جماعت ایف ڈی پی کا تعلق ہے، تو وہ کم از کم پانچ فیصد ووٹوں کی لازمی حد پار کرنے میں ناکامی کے باعث نئی بنڈس ٹاگ میں نمائندگی سے محروم ہی رہے گی۔نو منتخب جرمن پارلیمان میں نمائندگی کی حامل پانچویں اور آخری جماعت بائیں بازو کی 'دی لِنکے‘ ہو گی، جس کے ارکان کی تعداد 64 ہو گی۔
اسی دوران موجودہ وفاقی چانسلر اور سوشل ڈیموکریٹ رہنما اولاف شولس نے کہہ دیا ہے کہ وہ حسب روایت نئی حکومت کے اقتدار میں آنے تک ایک نگران حکومت کے سربراہ کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
م م / ش ر (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں نمائندگی پارلیمان میں بنڈس ٹاگ میں اے ایف ڈی کے فریڈرش میرس کے سربراہ پسندوں کی سی ایس یو ایس پی ڈی ارکان کی کے مطابق کی تعداد سی ڈی یو کے ساتھ کی طرف یو اور
پڑھیں:
نئے جرمن چانسلر کروز میزائل فراہم کریں، یوکرینی سفارت کار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) یوکرینی فوج نے بتایا ہے کہ روسی افواج نے ہفتے کے دن بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ آٹھ میزائل اور ستاسی ڈرون حملے کیے گئے۔ ان حملوں کے نتیجے میں یوکرین کے پانچ ریجن متاثر ہوئے۔ ان میں جنوبی، شمال مشرقی اور مغربی یوکرینی علاقوں میں نقصان ہوا۔
یوکرینی فوج کے مطابق ان تازہ روسی کارروائیوں میں زیادہ مالی نقصان ہی ہوا۔
یوکرینی ایئر ڈیفنس یونٹس نے 33 ڈرون طیاروں کو ہوا میں ہی مار گرایا جبکہ بغیر پائلٹ کے چھتیس ڈرونز کو الیکٹرانک وار فیئر ٹیکنالوجی کی مدد سے ری ڈائریکٹ کر دیا۔ ٹاؤرس کروز میزائل کی اپیلجرمنی کے لیے یوکرین کے سابق سفیر آندری میلنک نے کہا ہے کہ فریڈرش میرس کو جرمنی کا چانسلر بننے کے فوری بعد ہی یوکرین کو ٹاؤرس کروز میزائل فراہم کرنے کی منظوری دے دینا چاہیے۔
(جاری ہے)
اپنے ایک کھلے خط میں میلنک نے میرس سے مطالبہ کیا کہ چھ مئی کو جب وہ چانسلر کا عہدہ سنبھالیں، انہیں اسی دن یوکرین کو 150 ٹاؤرس میزائل بھیجنے کا اعلان کر دینا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ روسی جارحیت کے مقابلے کے لیے ان کروز میزائلوں کی فوری ترسیل کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے۔ ان کا یہ خط ہفتے کے جرمن اخبار دی ویلٹ میں شائع ہوا۔
نیویارک میں اقوام متحدہ میں یوکرین کے آئندہ سفیر کے طور پر نامزد میلنک نے اس ترسیل کو روس کی پیش قدمی کو روکنے اور جنگ کے حالات بدلنے کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔
گزشتہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے کرسچن ڈیموکریٹ فریڈرش میرس یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل فراہم کرنے کی حمایت کرتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے کسی بھی اقدام کے لیے یورپی اتحادیوں سے ہم آہنگی ضروری ہے۔
یوکرین کو مزید عسکری سازوسامان درکارمیلنک نے ان میزائلوں کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ میرس کی آئندہ حکومت جرمن فضائیہ کے 30 فیصد ہتھیار یوکرین کو فراہم کرے۔ یعنی انہوں نے تقریباً 45 یورو فائٹر جیٹ طیاروں اور 30 ٹورناڈو طیاروں کا مطالبہ کیا ہے۔ میلنک کے بقول ٹاؤرس سسٹم کی افادیت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ اسی صورت میں ہو گا جب جرمنی یہ جدید عسکری سازوسامان بھی مہیا کرے گا۔
واضح رہے کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور موجودہ چانسلر اولاف شولس نے یوکرین کو ٹاؤرس میزائل فراہم کرنے کی مسلسل مخالفت کی۔ عبوری چانسلر شولس کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے جرمنی اس تنازعے میں مزید الجھ سکتا ہے۔
ٹاؤرس میزائل کیا ہیں؟جرمن فضائیہ سن 2005 سے ٹاؤرس میزائل سسٹم استعمال کر رہی ہے۔ ایسے ہر میزائل کی قیمت تقریباً 10 لاکھ یورو ہے۔
ٹاؤرس میزائل تقریباً 500 کلومیٹر دور تک اپنے ہدف کو آسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ اگر یہ میزائل یوکرین کو مل جاتے ہیں تو وہ روسی سرزمین کے اندر بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت کا حامل ہو جائے گا۔
امریکہ پہلے ہی یوکرین کو ATACMS میزائل فراہم کر چکا ہے، جن کی رینج 300 کلومیٹر تک ہے جبکہ فرانس اور برطانیہ یوکرین کو 250 کلومیٹر تک مار کرنے والے کروز میزائل فراہم کر چکے ہیں۔
ادارت: عرفان آفتاب