غربت میں اضافے پر ماہرین کاسماجی تحفظ کی مضبوط پالیسیوں پرزور
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24 فروری ۔2025 )پاکستان کی معیشت بعض شعبوں میں لچک کے آثار دکھا رہی ہے جبکہ غربت کی بڑھتی ہوئی سطح ایک خوفناک تصویر پیش کرتی ہے ترقی کو جامع اور مساوی بنانے کے لیے سنجیدہ کوششوں کے بغیر ملک کو سماجی و اقتصادی تقسیم کو مزید گہرا کرنے کا خطرہ ہے.
(جاری ہے)
یہ بات پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ کے چیف آپریٹنگ آفیسر خلیق احمد نے ویلتھ پاک کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں کہی انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایسی پالیسیوں کو ترجیح دینی چاہیے جو سب سے زیادہ کمزور لوگوں کی حفاظت کریں اور معاشرے کے تمام طبقات میں پائیدار ترقی کو فروغ دیں انہوں نے کہا کہ مہنگائی حالیہ برسوں میں غربت کا بنیادی محرک رہا ہے خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے نے کم آمدنی والے گھرانوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کیا ہے ان کی قوت خرید کو ختم کیا ہے اور بہت سے لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے.
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ جب ضروری اشیا ناقابل برداشت ہو جاتی ہیں تو اس کا فوری اثر معاشرے کے سب سے کمزور طبقے پر پڑتا ہے اس افراط زر کے دبا ونے نہ صرف گھریلو استعمال کو کم کیا ہے بلکہ عدم مساوات میں بھی اضافہ کیا ہے کیونکہ امیر گروہ ان جھٹکوں کو جذب کرنے کے لیے بہتر طریقے سے لیس ہیں 2022 کے تباہ کن سیلاب جس نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا اور زرعی اراضی کا ایک بڑا حصہ تباہ کر دیا دیہی معاش پر دیرپا اثر ڈالا. انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زراعت کا شعبہ جو پاکستان کے دیہی علاقوں میں ایک اہم آجر ہے خاص طور پر سخت متاثر ہوا ہے زراعت اور ٹیکسٹائل جیسے چند شعبوں پر زیادہ انحصار معیشت کو ملکی اور بین الاقوامی دونوں طرح کے جھٹکے سے دوچار کر دیتا ہے انہوں نے کر کہا کہ تنوع لچک پیدا کرنے کی کلید ہے اس کے باوجود پاکستان نے اس شعبے میں محدود ترقی کی ہے غربت کے بحران پر حکومت کا ردعمل ناکافی ہے اسے جامع سماجی تحفظ کے پروگراموں اور جامع اقتصادی پالیسیوں کو ترجیح دینی چاہیے. انہوں نے کہا کہ اگرچہ احساس پروگرام اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے اقدامات نے کچھ ریلیف فراہم کیا ہے لیکن یہ پروگرام اکثر ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیںجس میں تقسیم میں تاخیر، ناکافی ہدف اور ناکافی فنڈنگ شامل ہے انہوں نے سماجی تحفظ کے لیے مزید مضبوط اور جامع اندازِ فکر کی ضرورت پر زور دیا جو نہ صرف فوری ریلیف فراہم کرتا ہے بلکہ غربت کی بنیادی وجوہات کو بھی دور کرتا ہے جامع معاشی پالیسیاں جو روزگار کی تخلیق اور مساوی ترقی کو فروغ دیتی ہیں. انہوںنے مشورہ دیا کہ تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری سے معاشی شراکت کے لیے مزید سازگار ماحول پیدا ہو سکتا ہے انہوں نے دلیل دی کہ معیاری خدمات اور مواقع تک رسائی کے ذریعے لوگوں کو بااختیار بنانا پائیدار غربت میں کمی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ غربت 2018-19 میں 21.9 فیصد سے بڑھ کر 2022-23 میں 25.3 فیصد ہو گئی، جو کہ کووڈ-19 کی وبا، مہنگائی، اور موسمیاتی آفات جیسے عوامل سے کارفرما ہے. رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حکومت غربت کے خاتمے اور کمزور آبادی کی مدد کے لیے سماجی تحفظ کے پروگراموں اور جامع اقتصادی پالیسیوں کو ترجیح دے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پائیدار معاشی بحالی کے ساتھ 2025 تک غربت کی سطح 18.7 فیصد تک کم ہو سکتی ہے تاہم اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے غربت کی کے لیے کہا کہ کیا ہے
پڑھیں:
نہریں متنازع معاملہ ہے، جو سنگین ہوچکا، شرجیل میمن
فائل فوٹوسندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن نے کہا ہے کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنا متنازع معاملہ ہے، معاملہ سیریس ہوچکا ہے، وزیراعظم فوری طور پر یہ منصوبہ ختم کرنے کا اعلان کریں۔
جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نہروں کے معاملے پر سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کو کئی خط لکھے، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا، مگر اجلاس نہِیں بلایا گیا۔
شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ سندھ اپنے ماہرین لانے کو تیار ہے، وفاق اپنے ماہرین لے آئے، ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پنجاب کے لیڈر بھی پوچھ رہے ہیں کہ چولستان نہر کے لیے پانی کہاں سے لائیں گے، سیلاب کے برسوں کے علاوہ ہر سال سندھ کو ربیع اور خریف کے موسم میں کم پانی کیوں ملا؟۔
سندھ کے سینئر وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں سن اکیانوے کے معاہدے پر اعتراضات ہیں، مگر پھر بھی ہمیں کم از کم اس معاہدے کے تحت ہی پانی دیا جائے۔