پنجابی کا کھلا پن، سیاسی و سماجی طنز، برجستگی، روانی حقیقی سادگی کے احساس میں لپٹے ان گنت معنی سے بھرپور شعر کہنے والے استاد دامن کا اصلی نام چراغ دین عرف چاغو، والد کا نام میراں بخش، والدہ کا نام کریم بی بی ہے ۔ آپ کی قبر کے کتبے پر تاریخ پیدائش یکم جنوری بروز ہفتہ 1910درج ہے ۔

آپ اندرون لاہور چوک مستی میں پیدا ہوئے، تیرہ سال کی عمر میں آپ کا محنتی غریب درزی گھرانہ چوک مستی سے باغبان پورہ منتقل ہو گیا۔ آپ کے والد میراں بخش لوہاری دروازے کے باہر ایک دوکان پر درزی کا کام کرتے تھے ۔ استاد دامن کا ایک بھائی اور ایک بہن تھی جو آپ سے عمر میں بڑے تھے ۔ استاد دامن کا رنگ گورا، گرج دار آواز، سر کے بال استرے سے صاف کروا کے رکھتے ، دوتہی کرتہ نیچے سلوکہ کندھے پہ چادر، سر پر پگڑی نما پٹکا تن زیب رکھتے تھے ۔

بچپن سے ہی پڑھائی کے شوقین ساندھادیو سماج سکول لاہور سے میٹرک کر کے دیال سنگھ کالج میں داخلہ لیا مگر چھ ماہ بعد ہی والد کی بیماری اور گھریلوحالات کے پیش نظرتعلیم جاری نہ رکھ سکے، قرآن پاک حفظ کیا ، والد کی خواہش و کوشش تھی کہ ان کا بیٹا ان کی زندگی میںہی سلائی کا سارا ہنر سیکھ کر روزی روٹی کمانے کے قابل ہو جائے ، والد کی تکمیل خواہش اور ضروریات زندگی کے وسائل بڑھانے کے لیے آپ نے استاد وہاب نامی ٹیلر کی شاگردی میں کوٹ پتلون ، اچکن ، شلوار، قیمض بنانے میں کمال مہارت حاصل کی، اُس وقت شلوار قمیض کی سلائی دس آنے ہوتی تھی مگر استاد دامن دس روپے لیتے تھے کیونکہ وہ نلکی کے دھاگے کی بجائے کپڑے کے اندر سے دھاگہ نکال کر سوٹ سلائی کرتے تھے جس کی وجہ سے سلائی نظر نہیں آتی تھی ۔ آزادی کی بڑی بڑی تحریکوں کے راہنما لیڈرآپ سے اپنے کپڑے سلواتے تھے۔

آپ نے اپنے دور میں تجویز خطی کے بڑے شاعر باؤ ہمدم کی شاگردی میں اپنے خیالوں کو شاعری میں مزید نکھارا، مگر استاد دامن پیدائشی شاعر تھے انہوں نے دس برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دئیے ۔آپ کے والد میراں بخش خود صوفیانہ شاعری کے دیوانے تھے جنہیں ہیر وارث شاہ اور فضل شاہ کی سوہنی زبانی یاد تھی جبکہ استاد دامن بھی ہیر وارث شاہ کی بحر میں لکھتے۔ پہلا مشاعرہ پندرہ سالہ عمر میں باغبان پورہ لاہور میں پڑھا جس کی صدارت استاد دامن سے اپنے کپڑے سلوانے والے کانگرس رہنما میاں افتخار الدین نے کی ۔اس موقع پر سردار گیانی گرمکھ سنگھ مسافر نے صدر مشاعرہ سے کہا کہ استاد دامن نے بہت کمال شعر پڑھے ہیں ۔

انہیں سو روپیہ انعام دیا جائے پہلے مشاعرہ میںہی نامور استاد شاعروں میں اپنا آپ منوانا اور انعام پانا استاد دامن کے فن شاعری کا قد بتاتا ہے ۔ آپ نے عطا اللہ شاہ بخاری ؒ جیسے لوگوں کی موجودگی میں سیاسی ،سماجی اور مذہبی جلسوں میں اپنے کلام پڑھے اور عوام کے دلوں کی آواز بن کر اُبھرتے چلے گئے ۔ پنجابی کے علاوہ کسی اور زبان میں شعر نہیں کہے جبکہ وہ فارسی، عربی، روسی، اردو، ہندی، انگلش اور سنسکرت زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے۔ استاد دامن نے شاعری کی فنی خوبیوں پر قدرت رکھنے کی بدولت اہل علم و فن سے استاد کا خطاب حاصل کیا ۔ استاد دامن غریبوں، مظلوموں ،مزدروں، کسانوں جیسے پسے ہوئے طبقوںکے لیے آواز اُٹھانے اور استحصالی طبقوں کی مزحمت کرنے والے بااثر شاعرتھے ۔

میرے ہنجواں دا پانی پی پی کے

ہری بھری اے بنجر زمین ہو جائے

ایدے منہ تے سرکھی چاہی دی اے

میرے لہو توں پاوئیں رنگین ہو جائے

استاد دامن کی سب سے بڑی خوبی ان کی فی البدیہ گوئی تھی، وہ موقعوں کی مناسبت سے چند لمحوں میں اشعار کی مالا پرو دیتے تھے، آزادی کے کچھ عرصے بعد انہوں نے دہلی میں منعقد مشاعرے میں شرکت کر کے یہ نظم پڑھی۔

ایناں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا

ہوئے تسی وی او ہوئے ایسی وی آں

کج امید اے زندگی مل جائے گی

موئے تسی وی او موئے اسی وی آں

جیوندی جان ای موت دے منہ اندر

ڈھوئے تسی وی او ڈھوئے اسی وی آں

جاگن والیا رج کے لٹیا اے

سوئے تسی وی او سوئے اسی وی آں

لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے

روئے تسی وی او روئے اسی وی آں

انسانی جان پر آزادی کے نام سے ٹوٹنے والی قیامت کے شکار حاضرین مشاعرہ بے اختیار رونے لگے، مشاعرے میںموجودبھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو بھی آبدیدہ ہو گئے ، انہوں نے استاد دامن کو آزادی کا شاعر کے خطاب سے نوازتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مستقل طور پر بھارت میں قیام پذیر ہو جائیں مگر انہوں نے جواب دیا کہ میرا وطن پاکستان ہے ، میں لاہور میں ہی رہو ں گا، بیشک جیل میں ہی کیوں نہ رہوں، 1962میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو لاہور آئے۔

 ائرپورٹ پر اترے تو انہوں نے پاکستانی گورنر اختر حسین سے کہا کہ میں استاد دامن سے ملنا چاہتا ہوں مگر ادب کی دولت سے ناآشنا گورنر اختر حسین نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ کون ہے استاد دامن؟اس درویش سے ناواقف حکمرانوں کی موجودگی کے باوجود اس محب وطن شاعر نے ساری زندگی غربت و افلاس میں گزارنے کے باوجود پاکستان کے ہی گیت گائے، اس پاک دھرتی کو نفرتوں بے ایمانیوں عیاریوں سے پاک کرنے کے لیے عوام میںاپنی شاعری کے زریعے انسانی حقوق کی صدائیں بلند کیں اور امن و محبت کے پھول نچھاور کرتے رہے اور ساتھ ساتھ اُن برائیوں کی بھی مزاحمت کرتے رہے جو عوامی مفاد کے نقصان میں تھیں، استاد دامن نے حکمرانوں کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بھرپور تنقید کے ساتھ عوامی شعور کو بیدا ر کیا، عوامی حقوق کے کھوکھلے نعروں اور ملکی زوال پہ لکھتے ہیں ۔

کھائی جاؤ کھائی جاؤ بھیت کنھے کھولنے

وچوں وچ کھائی جاؤ اُتوں رولا پائی جاؤ

انا مارے انی نوں کسن وجے تھمی نوں

جنی تواتھوں انی پیندی اُنی انی پائی جاؤ

کھائی جاؤ بھئی کھائی جاؤ بھیت کنھے کھولنا

 لڑکی والوں پر رسم و رواج اور بارات کے کھانے کا بوجھ ڈالنے کی مخالفت رکھنے والے استاد دامن نے1949میں ایک قطرین نامی لڑکی سے سادگی و پوشیدگی میںشادی کی جس سے ایک بیٹا بھی تھا جو پیدائش کے بعد مر گیا اور بیوی کے پیٹ میں رسولی تھی جس کا علاج کروایا مگر وہ بچ نہ سکی۔ استاد دامن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ کوئی بھی انسان تنہائی کی زندگی نہیں گزارنا چاہتا مگر حالات و واقعات اسے اکیلے پن پر مجبور کر دیتے ہیں، میری پہلی شادی قدرت کو منظور نہ تھی اور دوسری شادی میرے نزدیک سودے بازی ہے۔ 1977کے فسادات میں ان کی دُکان کو آگ لگا دی گئی جس کے سبب مشکل مالی بحران کا شکار ہو کر باغبان پورہ سے بادشاہی مسجد کے قریب ٹیکسالی گیٹ میں واقع اُس حجرے میں منتقل ہو گئے جس میں اکبر بادشاہ کے زمانے میں حضرت شاہ حسین ؒبھی مقیم رہے، پھر تادم مرگ یہی حجرہ استاد دامن کا مسکن رہا ۔

دامن دی بیٹھک نامی اس حجرے میںہند و پاک کے نامور ادیب ، گلوکار، اداکار اور سیاسی وسماجی احباب شاعر فیض احمد فیض، صوفی تبسم، حبیب جالب، امجد اسلام امجد، منو بھائی، ملکہ ترنم نور جہاں، ادکار محمد علی اور فلمسٹار علاؤ الدین جیسی عام و خاص قد آورشخصیات سیاسی ادبی فکری گفتگو کے لیے آیا کرتیں جن کے لیے استاد دامن مختلف ذائقہ دار خوراکیں اپنے ہاتھوں سے بنا کر پیش کیا کرتے، ٹیکسالی گیٹ کے اس حجرے میں استاد دامن 1950سے لیکر 1984تک رہائش پذیر رہے، یہیں سے ہی استاد دامن نے عوام کے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر حکومتی بیماریوں کی نشاندہی کی، استاد دامن کے سارے اشعار اپنی تاثیر کی وجہ سے ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔

استاد دامن نے زندگی اور معاشرے کا مطالعہ کھلی آنکھوں سے کیا، ان کے تجربات کی سلطنت انتہائی وسیع تھی، وہ کمال خوش اصلوبی سے عمومی سطح کے تجربوں کو بیان کرتے، دانائی کے موتی بکھیرتے چلے جاتے، ایک سچا شاعر ادیب ہر دور میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہوا انجام کے خطرے سے بے خوف رہتا ہے ۔ استاد دامن کے بقول بڑے لکھاری کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی غلامی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے ۔ استاد دامن کے شعور میں جوں جوں پختگی آتی گئی اُن کا ذہن دنیا سماج کائنات کے مسائل پر سفر کرتا گیا، وہ پسے ہوئے غریبوں پہ گزرنے والے حالات یوں بیان کرتے ہیں کہ

ایتھے انقلاب آوے گا ضرور

ایتھے انقلاب آوے گا ضرور

ساڈے ہتھاں دیاں ریکھاں

 پیراں نال میٹن والیو

او دو دو ہتھی

 دولتاں نوں اج سمیٹن والیو

او لٹے پٹے ہویاں دی

 صف نوں سمیٹن والیو

کر لووکوٹھیاں وچ چاننے

کھو کے غریباں دا نور

ایتھے انقلاب آوے گا ضرور

 ایتھے انقلاب آوے گا ضرور

 استاد دامن نے جرمن کمپنی جان ولیم ٹیلر سے سلائی کٹائی کا ڈپلومہ حاصل کر کے باغبان پورہ لاہور میں دامن ٹیلرنگ ہاؤس نامی اپنی دوکان کھولی، یہ درزی خانہ استاد دامن کی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی تھا مگر روحانی خوشی شاعری سے ہی حاصل ہوتی اور دیکھتے ہی دیکھتے استاد دامن کا درزی خانہ شاعری کا شوق رکھنے والوں کے لیے ایک درس گاہ کا روپ دھار گیا۔

استاد دامن کی قلمی شخصیت پرفیض احمد فیض کہتے ہیں کہ میں پنجابی شاعری اس لیے نہیں کرتا کہ پنجابی میں شاہ حسین ؒ ، وارث شاہؒ اور بلھے شاہؒ کے بعد استاد دامن جیسے شاعر موجود ہیں اس کے علاوہ فیض صاحب نے استاد دامن کو پنجابی شاعری کا حبیب جالب بھی کہا۔ قیام پاکستان کے وقت جب شرپسندوں نے استاد دامن کی دُکان لائبریری اور کتابوں کو آگ لگا دی تھی جس میں ان کی ذاتی تحریریں اور ہیر کا مسودہ بھی شامل تھا جل کر راکھ ہو گئے تو انہوں نے اپنی قلمی کاوشیں کاغذ کے ٹکڑوں پہ لکھنے کی بجائے عوام کو سونپنی شروع کر دیں

اسٹیجاں تے ہوئیے سکندر ہوئی دا اے

اسٹیجوں اتر کے قلندر ہوئی دا اے

الجھے جے دامن حکومت کسے نال

بس اینا ای ہوندا اندر ہوئی دا اے

ایوبی بھٹو اور ضیا دور میں قید کاٹنے والے استاد دامن نے بھٹو دور میں بھی حکومت کی پالیسیوں پر تنقیدی نظمیں لکھیں جب ایک طرف بھارت سے سو سال جنگ کرنے کی بات کرنے والے بھٹو صاحب اندرا گاندھی سے ملنے شملہ گئے تو اس پر استاد دامن نے بھٹو صاحب کو مخاطب کر کے یہ نظم لکھی

ایہہ کیہ کری جانا ایں ایہہ کہ کری جانا ایں

کدی چین جانا ایں کدی روس جانا ایں

کدی شملے جانا ایں کدی مری جانا ایں

جتھے جانا ایں بن کے جلوس جانا ایں

دھسا دھس جانا دھسا دھوس جانا ایں

لائی کھیس جانا اے کھچی دری جانا ایں

ایہہ کی کری جانا ایں ایہہ کی کری جانا ایں

 یہ نظم جب بہت مشہور ہو گئی تو استاد دامن کو جیل میں ڈال دیا گیا، فیض صاحب کو یقین ہی نہ آئے کہ کوئی شخص استاد دامن کو جیل میں ڈال سکتا ہے ، استاد دامن پر جھوٹا الزام لگا کر مقدمہ بنایا گیا کہ ان کے پاس سے ریوالور بم برآمد ہوئے ہیں، جب مجسٹریٹ نے ان کو یہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ میرے حجرے کا تو دروازہ چھوٹا تھا ورنہ وہاں سے تو ٹینک نکلنے چاہیئں تھے جس پر استاد دامن نے یہ نظم لکھی کہ

چوکی تھانے حوالات کچہریاں نیں

کتھے کتھے جا کے میرے کم نکلے

نکلے کوئی میدان وچ نکل سکدا اے

سینہ ٹھوک کے تے جم جم نکلے

نکلے پر کوئی مینوں دبا سکدا اے

پاویں کوئی لے کے دم خم نکلے

 تے دامن شاعر دے قبضے وچ ویکھیا جے

دو ۔ ریوالور تے دستی بم نکلے

استاد دامن کی مشہور زمانہ کتاب دامن دے موتی ان کی باکمال شاعری کا لطف اندوز مجموعہ ہے جو اپنے پڑھنے والوں کو ان کے دور کے حالات و واقعات سے ملوانے کا سچا آئینہ ہے ۔ استاد دامن فیض اور جالب کے چاہنے والوں میں سے تھے۔

80 کی دہائی میں جب ان کے منہ بولے بیٹے فلمسٹار علاؤدین کا انتقال ہوا تو استاد دامن کی جیسے اپنی روح پرواز کر گئی ہو۔ کبھی بستر کبھی اسپتال کبھی گھر، کمزور پڑتی صحت کے ان ایام میںکچھ ہی عرصے بعد فیض احمد فیض صاحب بھی خالق حقیقی سے جا ملے، استاد دامن چاہنے والوں کے روکنے کے باوجود اپنے قلمی یار کے جنازے میں شریک ہوئے، جہاں لوگوں نے پہلی بار استاد دامن کو دھاڑیں مار کر روتے ہوئے دیکھا، ایسے معلوم ہوتا تھاگویا تقسیم ہند سے لیکر آج تک ٹوٹنے والی ساری قیامتوں کی اذیت فیض صاحب کے رخصت ہونے کے بعد ہی ان تک آئی ہے، فیض صاحب کا انتقال 20 نومبر 1984کو ہوا اور اُسی شام استاد دامن کی ہمت بھی جواب دے گئی، ایسے ٹوٹے کہ صرف تیرہ دن بعد ہی بروز سوموار3 دسمبر 1984کو فیض صاحب کے پیچھے ان کی رُوح بھی آسمانی سفر پہ روانہ ہو گئی۔ استاد دامن کی وصیت کے مطابق قبرستان مادھو لال حسینؒ مین گیٹ لاہور میں شاہ حسین ؒ کے مزار کے سائے میں دفن کیا گیا۔

ماری سرسری نظر جہان اندر

تے زندگی ورق اُتھلیا میں

دامن ملیا نہ کوئی رفیق مینوں

ماری کفن دی بُکل تے چلیا میں

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: استاد دامن کو استاد دامن نے استاد دامن کا استاد دامن کی استاد دامن کے کری جانا ایں جانا ایں کدی باغبان پورہ اسی وی ا ں لاہور میں کھائی جاؤ تسی وی او نے استاد انہوں نے شاعری کا فیض صاحب کے لیے ا یہ نظم کہا کہ

پڑھیں:

چوہدری شفقت محمود کی تعیناتی نے فتح جنگ کو بدل کر رکھ دیا، عوامی اعتماد میں نمایاں اضافہ

چوہدری شفقت محمود کی تعیناتی نے فتح جنگ کو بدل کر رکھ دیا، عوامی اعتماد میں نمایاں اضافہ WhatsAppFacebookTwitter 0 22 April, 2025 سب نیوز

فتح جنگ :
تحصیل فتح جنگ میں تحصیلدار و پرائس کنٹرول مجسٹریٹ چوہدری شفقت محمود کی تعیناتی نے انتظامی نظام کو ایک نئی جہت دی ہے۔ ابزرور آئیز کے حالیہ عوامی سروے کے مطابق، ان کی تعینات کے بعد شہر میں تجاوزات میں نمایاں کمی آئی ہے، ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہوا ہے، اور انتظامی معاملات میں شفافیت نے عوامی اعتماد کو نئی جِلا بخشی ہے۔
شہریوں نے اس بات کو سراہا کہ ویگنوں اور بسوں کو اب متعین اڈوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جاتی، جس سے ٹریفک مسائل میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ ریونیو سے متعلق شکایات جو ماضی میں ایک معمول بن چکی تھیں، اب قصۂ پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ عوامی رائے کے مطابق، چوہدری شفقت محمود نے عوام کے دلوں میں اپنی خدمت، دیانت اور حسنِ انتظام سے ایک خاص مقام حاصل کر لیا ہے۔
سروے میں یہ بھی سامنے آیا کہ چوہدری شفقت محمود نے اعلیٰ حکام سے خصوصی اجازت لے کر شہر کے پارکوں کی حالت بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خاص طور پر خواتین کے لیے باپردہ انتظامات نے سماجی و اخلاقی اقدار کے تحفظ کو یقینی بنایا، جسے شہری حلقوں نے بے حد سراہا۔

صفائی و ستھرائی کے حوالے سے شہر میں ایک نئی مثال قائم ہوئی ہے، جبکہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر موثر کنٹرول کے باعث عوام کو مہنگائی کے عذاب سے ریلیف ملا ہے۔ بلاامتیاز کارروائیاں، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن، اور دیانتدار دکانداروں کی حوصلہ افزائی چوہدری شفقت محمود کی انتظامی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

قانون و انصاف کی عملداری ان کی اولین ترجیح رہی ہے۔ شہریوں کی شکایات کا فوری نوٹس لے کر موقع پر ہی ریلیف فراہم کرنا ان کا معمول بن چکا ہے، جس سے عوام میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے اور مسائل کو فوری بنیادوں پر حل کیا جا رہا ہے۔

سروے میں شریک شہریوں نے چوہدری شفقت محمود کو ہر دلعزیز افسر قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ خلوص، دیانت اور محنت کی اعلیٰ مثال ہیں۔ ان کی موجودگی فتح جنگ کے لیے ترقی، شفافیت اور انصاف کی علامت بن چکی ہے۔ عوام کو قوی امید ہے کہ یہ سلسلہ اسی جذبے سے جاری رہے گا اور شہر مزید ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہوگا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد میں تاریخ رقم: 35 روز میں انڈر پاس کی تعمیر کا آغاز اٹک: معروف بزنس مین ملک جاوید اختر نے بیٹے کی شادی پر مستحقین میں لاکھوں روپے مالیت کے درجنوں پلاٹس مفت تقسیم کر دیے ایران میں 8 پاکستانیوں کے قتل کیخلاف پنجاب اسمبلی میں مذمتی قرارداد جمع پنجاب بھر میں آج سے گرمی میں شدید اضافے کا امکان، وارننگ جاری مُلک کیلیے اعزاز؛ ای سی او نے پاکستانی شہر کو سیاحتی دارالحکومت نامزد کردیا ملک بھر میں ہیٹ ویو کا خطرہ، مریم اورنگزیب کا عوام کے نام انتباہی پیغام پنجاب کے مختلف شہروں کے لئے 1500 الیکٹرک بسیں چلانے کی منظوری TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ خوش آئند، افغانستان اکیلے جانا کسی کے حق میں نہیں: گنڈا پور 
  • چوہدری شفقت محمود کی تعیناتی نے فتح جنگ کو بدل کر رکھ دیا، عوامی اعتماد میں نمایاں اضافہ
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی سہولیات سے محروم اسکولوں کو فوقیت دینے کی ہدایت
  • پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہوسکے، فضل الرحمان
  • کراچی: ٹک ٹاک ویڈیو دیکھ کر ملتان سے فریج لینے کے لئے آنے والے شہری کو سی ویو جانا مہنگا پڑ گیا
  • اسرائیلی مظالم پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی ،بے حسی افسوسناک :زوار بہادر  
  • چینی بحریہ نے غیر قانونی طور پر علاقائی پانیوں میں داخل ہو نے والے فلپائنی جہاز کو سمندری حدود سے باہر نکال دیا
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
  •  خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم
  • تقریباً 67 ہزار افراد حج سے محروم‘پرائیویٹ طو رپرصرف 23 ہزار 620 افرادجائیں گے