افغانستان: طالبان نے چند اہم وعدوں پر بیگم ریڈیو کی بحالی کا اعلان کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 فروری 2025ء) طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں خواتین کے ریڈیو اسٹیشن 'بیگم‘ کی نشریات کی معطلی ختم کر رہے ہیں۔ اس اعلان کے بعد افغان خواتین کا یہ ریڈیو اسٹیشن اپنی نشریات دوبارہ شروع کر دے گا۔
طالبان نے رواں ماہ کے شروع میں بیگم ریڈیو سروس کو ملکی نشریاتی ضابطے کی خلاف ورزیوں اور بیرون ملک ٹی وی چینل کو ''غیر مجاز فراہمی‘‘ کے زمرے میں آنے والا مواد فراہم کرنے جیسے الزامات کے تحت معطل کر دیا تھا۔
طالبان کا کہنا تھا کہ یہ ملکی نشریاتی پالیسی کی خلاف ورزی اور لائسنس کا ناجائز استعمال کر رہا تھا۔طالبان کی خواتین کے این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی ’قطعی غلط‘، اقوام متحدہ
ریڈیو بیگم کب شروع ہوا تھا؟
افغان خواتین کا ریڈیو اسٹیشن 'بیگم ‘ سے نشریات کا سلسلہ مارچ 2021ء میں خواتین کے عالمی کے موقع پر شروع ہوا تھا۔
(جاری ہے)
یعنی افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی افراتفری کے انخلاء کے درمیان طالبان کے دوبارہ اقتدار پر قبضے سے پانچ ماہ قبل بیگم ریڈیو لانچ ہوا تھا۔ اس ریڈیو سروس کا تمام مواد افغان خواتین تیار کرتی ہیں جبکہ اس کا سسٹر سیٹلائیٹ چینل ''بیگم ٹی وی‘‘ فرانس سے چلایا جاتا ہے اور اس پر افغان اسکولوں کے ساتویں تا بارہویں جماعت تک کے نصاب سے متعلق پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ملک میں لڑکیاں چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم سے محروم ہیں۔طالبان کا خواتین قیدیوں سے بہیمانہ سلوک
بیگم ریڈیو کی بحالی کا اعلان
ہفتے کی شب جاری ہونے والے ایک بیان میں افغانستان کی وزارت اطلاعات اور ثقافت نے کہا کہ ریڈیو بیگم نے اپنی نشریات دوبارہ شروع کرنے کی ''بار بار درخواست کی‘‘ جس کے بعد اس کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزارتی بیان میں مزید کہا گیا ہے بیگم ریڈیو کی بحالی اس کی انتظامیہ کی طرف سے حکام سے کیے گئے وعدوں کے بعد عمل میں آئی ہے۔خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن: افغان خواتین کی ڈرامائی صورتحال
بیگم ریڈیو کے طالبان حکام سے وعدے
کابل میں وزارت اطلاعات اور ثقافت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بیگم ریڈیو اسٹیشن نے صحافت کے اصولوں اورامارت اسلامیہ افغانستان کے قواعد و ضوابط کے مطابق اور مستقبل میں کسی بھی خلاف ورزی سے بچنے کا عہد کیا ہے۔
وزارت نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ وہ اصول اور ضوابط کیا ہیں، ریڈیو بیگم کا کوئی عہدیدار فوری طور پر تبصرے کے لیے دستیاب نہیں ہوسکا۔وزارت اطلاعات نے ابتدائی طور پر اُس ٹی وی چینل کی شناخت ظاہر نہیں کی جو طالبان حکام کے مطابق مبینہ طور پر بیگم ریڈیو کے ساتھ کام کر رہا تھا لیکن ہفتہ کے روز دیے گئے بیان میں، ''ممنوعہ غیر ملکی میڈیا آؤٹ لیٹس‘‘ کے ساتھ تعاون کا ذکر کیا گیا۔
طالبان حکومت میں افغان صحافیوں سے زیادتیوں کا سلسلہ جاری
طالبان کا دوبارہ اقتدار، لڑکیوں اور خواتین کے لیے مزید مشکلات
طالبان نے اپنے اقتدار پر دوبارہ قبضے کے بعد سے خواتین کو تعلیم سے محروم کر رکھا ہے۔ متعدد اقسام کے کام اور عوامی مقامات سے خواتین اور لڑکیوں کو دور کر دیا گیا ہے۔ صحافی بالخصوص خواتین کو جاب سے فارغ کر دیا گیا۔
طالبان کی جانب سے میڈیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی وجہ سے خواتین تمام شعبوں باشمول صحافت کے میں اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے 2024 ء میں پریس فریڈم انڈیکس میں، افغانستان 180 ممالک میں 178 ویں نمبر پر رہا، جبکہ اس سے ایک سال قبل یعنی 2023 ء میں ہندو کش کی یہ ریاست پریس فریڈم انڈیکس پر 152 نمبر پر تھی۔ک م/ا ب ا )اے پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغان خواتین ریڈیو اسٹیشن خواتین کے طالبان نے کی بحالی کر دیا کے بعد
پڑھیں:
اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
اسلام آباد(طارق محمود سمیر) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان کا اہم دورہ کیا ،دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال اور تحفظات
تھے ،افغانستان کی حدود سے جو دہشت گردی ہورہی تھی اس پر حکومت پاکستان کے تحفظات تھے،اس سارے معاملے میں اہم پیشرفت ہوئی ہے ، اسحاق ڈار کا کابل جانااور وہاں افغان قیادت کے ساتھ ملاقاتیںکرنا اور اس میں جو اعلانات کئے گئے وہ بڑے حوصلہ افزا اور خوش آئند ہیں ، اس میں سب سے بڑا اعلان جوکیا گیا وہ یہ کہ دہشت گردی کے لئے دونوں ممالک اپنی سرزمین کسی کو استعمال نہیںکرنے دیںگے ،پھر افغانستان سے تجارتی سامان کی نقل و حمل کے حوالے سے افغان حکومت کے مطالبے پر کہ بینک گارنٹی کے ساتھ ساتھ انشورنس گارنٹی قابل قبول ہوگی ، اس کے علاوہ وفودکے تبادلے ہونے ہیں،افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے،افغان شہریوں کی پاکستان کے اندر جائیدادیں وہ جب پاکستان چھوڑ کر جائیں گے تو جائیداد فروخت کرنے کی اجازت ہوگی ،سازوسامان بھی ساتھ لے جانے کی اجازت ہوگی اور انہیں عزت واحترام کیساتھ بھیجا جائیگا،اس دورے کا مقصد اگر دیکھا جائے تو اس میں پاکستان کے لئے سب سے بڑے دو مسائل تھے ایک دہشت گردی اور دوسرا افغان مہاجرین کی باعزت طریقے سے واپسی یقینی بنانا تھا، دہشت گردی کے تناظر میں جو اعلان کیا گیا ہے وہ بڑا خوش آئند ہے ، پہلے بھی افغانستان کی جانب سے اعلانات کئے گئے لیکن عملاً کوئی اقدامات نہیںکئے گئے ،ٹی ٹی پی کے ساتھ 2021میں جو معاہدہ ہوا اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں دہشتگرد تنظیم کے عہدیدار پاکستان آئے اوروہ منظم ہوگئے اور دہشت گردی بڑھتی گئی اور حالیہ عرصے میں دہشت گردی میں 60فیصد اضافہ ہوا،پاکستان کو دہشت گردی کا سب سے بڑا سامنا افغانستان کے اندر سے ہے، پھر بلوچستان کی جو صورتحال ہے، بی ایل اے کو بھارت کی حمایت حاصل ہے اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کے لئے استعمال کر رہا ہے۔اگر اب افغان حکومت پاکستان کی شکایات دور نہیں کرتی تو یہ مناسب نہیں ہوگا کہ تجارت کے شعبے میں ان کے مطالبات من وعن پورے کئے جائیں۔کہا جارہا ہے کہ افغان وزیر خارجہ جلد پاکستان کے دورے پر آئیں گے ، اس دورے کے تناظر میں بھی دیکھا جائے توگفت وشنید بڑی اچھی بات ہے اور اس سارے معاملے میں پیشرفت کرانے میں افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق خان کے رابطے کام آئے ہیں،ایک اور بھی رپورٹ آئی ہے کہ افغانستان کے اندر سے خطرناک اسلحہ جو امریکی فوج چھوڑ کر گئی وہ بھی دہشت گردوں کے ہاتھ لگا ہوا ہے ،اس میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کم ہو ، اگر افغانستان ہمارے ساتھ حقیقی معنوں میں تعاون کرتا ہے اوردہشت گردی پر قابو پالیا گیا تو پاکستان کے اندر بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے ۔لاہور کی سیشن عدالت میں ایک اہم کیس زیر سماعت ہے ،شہبازشریف کی جانب سے عمران خان کے خلاف دس ارب ہرجانے کا کیس، اپریل 2017 میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ایک جلسے کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ انہیں پاناما لیکس کے معاملے پر خاموش رہنے اور مؤقف سے دستبردار ہونے کے بدلے میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے 10 ارب روپے کی پیشکش کی گئی۔اس الزام کے جواب میں شہباز شریف نے جولائی 2017 میں لاہور کی سیشن عدالت میں عمران خان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا۔دعوے میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ شہباز شریف، جو اس وقت وزیراعظم نواز شریف کے بھائی اور خود پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، ایک معزز سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کی عوامی خدمات کی وجہ سے انہیں قومی و بین الاقوامی سطح پر عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اس سے قبل بھی شہباز شریف نے عمران خان کو ایک قانونی نوٹس بھیجا تھا جس میں جاوید صادق کو مبینہ فرنٹ مین قرار دے کر اربوں روپے کمانے کے الزام پر معافی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عمران خان نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کردہ ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ اگر وہ اور اُن کی جماعت پاناما لیکس پر خاموش ہو جائیں تو حکمران جماعت اُنہیں خاموش کرانے کے لیے بڑی مالی پیشکش کر سکتی ہے اور اس دعوے کی مثال کے طور پر انہوں نے 10 ارب روپے کی آفر کا ذکر کیا۔