Daily Ausaf:
2025-04-22@18:55:12 GMT

جنگ بندی:عارضی حل یاپائیدارامن؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
دریں اثنا ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے امریکاسے جو ’’بڑی تعدادمیں اشیا‘‘کی درخواست کی تھی وہ فی الحال فراہم کی جارہی ہیں۔ ان سے پوچھاگیاکہ آیاان کی حکومت اسرائیل کیلئے907 کلوگرام وزنی بموں کی کھیپ جاری کرے گی۔ اسرائیل نے بہت سی چیزوں کی درخواست کی لیکن سابق صدرجوبائیڈن نے انہیں نہیں بھیجا۔اب ان اشیاکی ترسیل کی جارہی ہے۔ گزشتہ سال جوبائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کوان بموں کی فراہمی ایک ایسے وقت میں معطل کردی تھی جب اسرائیلی فوج جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح پر بڑے پیمانے پرحملے کامنصوبہ بنارہی تھی۔یہ وہ مقام ہے جہاں بمباری اورجنگ کی وجہ سے14لاکھ فلسطینیوں نے پناہ لی تھی۔ بائیڈن نے خبردار کیا تھا کہ اس طرح کے علاقوں میں اس قسم کے بم کا استعمال ایک’’بڑے انسانی المیے‘‘کاسبب بنے گا۔
ایگزیوس پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسرائیلی قومی سلامتی کے صحافی بارک راویڈ نے لکھاکہ ٹرمپ نے محکمہ دفاع کو2000 پائونڈ وزنی بم اسرائیل بھیجنے پرعائدپابندی ہٹانے کاحکم دیاہے۔اس قسم کے بڑے،فضاسے گرائے جانے والے بم انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں اورعام طور پر انہیں فوجی تنصیبات،کمانڈسینٹرزاور انفراسٹرکچر جیسے اہداف کوبڑے پیمانے پرنقصان پہنچانے کیلئے استعمال کیاجاتاہے۔اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران ٹرمپ نے اکثراس بات پرفخرکیاکہ اسرائیل کا ’’وائٹ ہائوس میں اس سے بہتردوست کبھی نہیں تھا‘‘۔ نیتن یاہوبھی ٹرمپ کیلئے اکثر ایسے جملے دہراچکے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی اتوارکودوسرے ہفتے میں داخل ہوگئی ہے۔حماس کے زیرحراست چار اسرائیلیوں اور اسرائیلی جیلوں سے تقریباً 200 فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہوئی ہے۔تاہم جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمدکی کوششوں کو نئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ اسرائیل نے مغوی شہری اربیل یہودکی رہائی سے متعلق تنازع کی وجہ سے لاکھوں فلسطینیوں کی تباہ شدہ شمالی غزہ میں واپسی پر اعتراض کیا تھا۔ اسرائیل نے یہ شرط عائد کی جنوبی اورشمالی غزہ کوالگ کرنے والی راہداری کھلوانے کیلئے اس یرغمالی کورہاکیاجائے۔اس نے حوالہ دیا کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت شہریوں کوپہلے رہا کیا جائے گاجس میں حماس ناکام ہواہے۔ اسرائیل نے ثالثوں سے حماس سے اس بات کا ثبوت مانگاتھاکہ یہود زندہ ہے اورحماس نے مصر کو اس بات کا ثبوت فراہم کردیاتھاکہ یہود زندہ اور صحت مندہے اور اسے اگلے ہفتے رہاکردیاجائے گا۔
ہفتہ کی شام افراتفری سے بھرپور مناظر دیکھنے کوملے۔یرغمالیوں کی رہائی مکمل ہونے کے بعدفلسطینیوں کواس بات کی امیدتھی کہ وہ شمال میں اپنے گھروں کی جانب لوٹ سکیں گے۔ تاہم آخری اطلاع آنے تک ایساممکن نہیں ہواکیونکہ اسرائیلی افواج نے شمال کی جانب جانے والی اہم راہداری کو بندکررکھاہے اورکسی کوبھی وہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اسرائیل اورحماس کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے والے قطری اورمصری ثالث لاکھوں فلسطینیوں کوشمال کی طرف واپس جانے کی اجازت دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں اوراس معاملے میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔
دریں اثناغزہ کے بہت سے باشندے کسی ایسی پیش رفت کابے چینی سے انتظارکررہے ہیں انہیں اپنے آبائی علاقوں میں جانے کی اجازت مل جائے۔ بہت سے لوگوں کیلئے واپسی کی امیداس حقیقت سے کہیں زیادہ ہے جوان کاانتظارکررہی ہے یعنی کھنڈرات اور ہرجانب پھیلی تباہی۔اس کے باوجودان کی زندگیوں کودوبارہ حاصل کرنے، اپنے گھروں کی تعمیر نواوراپنے کنبوں کے ساتھ دوبارہ ملنے کا خواب ان کی روحوں کوزندہ رکھے ہوئے ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ آیایہ جنگ بندی دیرپاامن کی بنیادبنے گی یاصرف ایک عارضی حل ہے۔ ماضی کے تجربات سے ظاہرہوتاہے کہ جنگ بندی اکثرعارضی ثابت ہوئی ہیں جب تک کہ دونوں طرف سے سنجیدہ اقدامات نہ کیے جائیں۔ ٹرمپ کی تجویزکے بعد،یہ خطرہ بڑھ گیاہے کہ بین الاقوامی مداخلت مقامی مسائل کومزیدپیچیدہ بناسکتی ہے۔ غزہ کی صورتحال کے اثرات لبنان، شام، اوریمن جیسے ممالک پربھی پڑسکتے ہیں جہاں ایران کے حمایت یافتہ گروہ ابھی تک سرگرم ہیں۔ حزب اللہ لبنان،شامی حکومت،اوریمن میں حوثی باغیوں کے ایرانی روابط ابھی تک قائم ہیں اوروہ کبھی بھی اس خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کرسکتے ہیں۔یادرہے کہ اسرائیل کی حالیہ فوجی کارروائیاں ،نیتن یاہوکی بیان بازی،اور ٹرمپ کی مداخلت کے بعدایران کے حمایت یافتہ گروہوں کیلئے دباؤبڑھ سکتاہے۔تاہم،اس کایہ مطلب بھی ہوسکتاہے کہ یہ گروہ مزیدجارحانہ حکمت عملی اختیارکریں گے،جس سے خطے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
نیتن یاہواورٹرمپ کی تجاویزاورحالیہ جنگ بندی مشرقِ وسطی میں ایک نئے سفارتی اورعسکری موڑکی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ مصر اور اردن جیسے ممالک کاسخت ردِعمل ظاہرکرتاہے کہ خطے میں اسرائیل اورامریکاکی یکطرفہ پالیسیوں کوقبول کرنے کا رجحان کم ہوتاجارہاہے۔یورپی یونین کی جانب سے ٹرمپ کی تجاویزکی مخالفت اورنیٹوکے ساتھ امریکی تعلقات میں تلخی اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی برادری ان پالیسیوں کو مستردکررہی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کے اثرات کاانحصار فریقین کی سنجیدگی اوربین الاقوامی برادری کے اقدامات پر ہوگا۔حزب اللہ، شام، اور یمن میں ایرانی روابط کے تناظرمیں بھی یہ ضروری ہے کہ خطے میں طاقت کے توازن کوبرقراررکھنے کیلئے سفارتی کوششیں جاری رکھی جائیں۔مشرقِ وسطی میں پائیدارامن کیلئے ایک متوازن، شفاف، اور منصفانہ حل ناگزیر ہے۔
یادرہے کہ ایک چینی مصنف نے کہا تھا کہ دنیاکاامن ہی امریکاکی تباہی میں پوشیدہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیاٹرمپ کے دورِاقتدار میں عالمی امن کاحصول ممکن ہوگاکہ نہیں؟ یاد رہے کہ امریکاکی باگ ڈورہلانے والی قوتوں کی زندگی کارازہی جنگوں میں فروخت ہونے والااسلحہ، جنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کی ادویات بنانے میں تاریخ کے پروفیسرالفریڈمیک کوئے نے16نومبر 2021ء میں امریکااورچین کے تعلقات کے بارے میں ایک مفصل انٹرویومیں پیش گوئی کی ہے کہ چین کی طاقت بڑھنے کے ساتھ ہی امریکی سلطنت منہدم ہورہی ہے۔ان کے مطابق دونوں سپرپاور کے درمیان خاص طورپر تائیوان اورہانگ کانگ کے درمیان تناؤ بڑھتا جارہاہے،کچھ لوگ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ ایک نئی سردجنگ شروع ہورہی ہے۔امریکا ،مستقبل قریب میں،تائیوان کے خلاف جنگ لڑنے کے امکانات کاسامنا کر رہا ہے جس میں شایدوہ ہارجائے گا،چین یوریشین لینڈماس پرامریکی جیوپولیٹیکل گرفت کوتوڑنے کیلئے بھی کام کررہاہے۔
مشہور زمانہ مؤرخ پروفیسرالفریڈ میک کی ایک تازہ کتابTo Govern the Globe: World Orders and Catastrophic Change ’’دنیاپر حکومت کرنا:ورلڈ آرڈرز اور تباہ کن تبدیلی‘‘میں اوربھی کئی ہوشرباانکشافات ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیل نے کہ اسرائیل کے درمیان ٹرمپ کی اس بات

پڑھیں:

پیرو: جبری نس بندی سے متاثرہ لاکھوں خواتین ازالے کی منتظر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) فلورینٹینا لوآئزا ایک شیر خوار بچے کی ماں اور صرف انیس برس کی تھیں، جب پیرو کی حکومت کے کارندوں نے دھوکے سے ان کی نس بندی کر دی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق برسوں پہلے پیروکی ﹰ تقریبا پونے تین لاکھ خواتین کے ساتھ ایسا کیا گیا تھا۔

آج عشروں بعد فلورینٹینا کی عمر چھیالیس برس ہے اور وہ اور دیگر متاثرہ خواتین ابھی تک حکومت کی طرف سے معافی مانگے جانے اور اپنے لیے مالی ازالے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔

جبری نسبندی ، نسل کشی کا ایک انداز

بیشتر متاثرہ خواتین کا تعلق پیرو کی قدیمی مقامی آبادی سے تھا اور اقوام متحدہ نے مرضی کے خلاف افزائش نسل کی اہلیت سے محروم کر دینے والی اس حکومتی مہم کی مذمت بھی کی تھی۔

(جاری ہے)

ان لاکھوں خواتین کے ساتھ انیس سو نوے کی دہائی میں یہ ظلم کیا گیا تھا اور یہ بات بعد میں منظر عام پر آئی تھی۔

فلورینٹٰنا لوآئزا اب ایک سماجی کارکن ہیں۔

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''میری زندگی مختصر کر دی گئی۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ تولیدی نس بندی کے بعد ان کے شریک حیات نے بھی انہیں چھوڑ دیا تھا اور اس بات نے بھی ان کی زندگی پر کبھی نہ ختم ہونے والے اثرات چھوڑے، جو انتہائی تکلیف دہ تھے۔

نسلی طور پر پیرو کی قدیمی مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والی فلورینٹینا بتاتی ہیں کہ انیس سو ستانوے میں وہ چند ماہ کی عمر کے ایک شیر خوار بچے کی ماں تھیں اور جنوب مشرقی پیرو کے حوآن کاویلیکا نامی دیہی علاقے میں رہتی تھیں۔

سنکیانگ: شرح پیدائش تاریخ کی کم ترین سطح پر

ان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب ایک روز کئی دیگر مقامی خواتین کے ساتھ وہ ایک ٹرک میں سوار ہو کر اس لیے ایک قریبی کلینک گئیں کہ وہاں انہیں وہ امدادی خوراک ملنا تھی، جس کا ان سب سے وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن کلینک میں ان خواتین کو کوئی امدادی سامان دینے کے بجائے ان سب کی زبردستی سرجری کر دی گئی۔

وہاں اپنے ساتھ کی گئی زبردستی کو یاد کرتے ہوئے فلورینٹینا کہتی ہیں، ''ہمیں پکڑ کر نرسوں نے زبردستی سٹریچروں پر لٹایا اور ہمیں بےہوشی کے ٹیکے لگا دیے گئے۔‘‘ فلورینٹینا کے بقول جب ان کی آنکھ کھلی تو انہیں بتایا گیا کہ ان کی نس بندی کر دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا، ''جب میں گھر لوٹی اور سب کچھ اپنے شریک حیات کو بتایا تو اس نے میری بات پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔

اس نے الٹا مجھ پر الزام لگایا کہ میں دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی خواہش مند تھی اور اسی لیے دانستہ اپنی نس بندی کروا آئی تھی کہ یوں حاملہ نہ ہو جاؤں۔ اس کے بعد وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘

ان واقعات کے بعد فلورینٹینا لوآئزا نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ دیا اور پیرو کے دارالحکومت لیما منتقل ہو گئیں تاکہ عام لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنا گزارہ کر سکیں۔

وہ کہتی ہیں، ''سرجری کے بعد میرے پیٹ میں شدید درد رہتا تھا۔ مجھے سرکاری طبی امداد کی اشد ضرورت تھی کیونکہ میں خود اپنا علاج نہیں کرا سکتی تھی۔ سرجری کے بعد میری زندگی کی مشکلات بہت بڑھ گئی تھیں۔‘‘

پیرو میں ریاست کے ایما پر دھوکہ دہی سے یا زبردستی کی جانے والی اس نس بندی سے متاثرہ خواتین کی مجموعی تعداد تقریباﹰ دو لاکھ ستر ہزار بنتی ہے۔

ان میں اب پچپن برس کی ماریا ایلینا کارباخال بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ لیما کے مضافات میں رہتی ہیں۔ کارباخال نے اے ایف پی کو بتایا، ''تب میری عمر چھبیس سال تھی۔ میں اپنے سب سے چھوٹے بچے کی پیدائش کے سلسلے میں ہسپتال گئی، تو ڈاکٹروں نے میرے علاج کے لیے شرط یہ رکھی کہ میں اپنی نس بندی پر رضا مندی ظاہر کروں۔ دوسری صورت میں میں اپنے نومولود بچے کو کبھی نہیں مل سکوں گی۔

‘‘

کارباخال نے مجبوری میں ڈاکٹروں کی بات مان لی اور ان کی بھی زچگی کے فوری بعد نس بندی کر دی گئی۔ اس واقعے کے بعد کارباخال کے شوہر نے بھی انہیں چھوڑ دیا اور وہ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگیں۔ اب وہ جبری نس بندی سے متاثرہ خواتین کے لیے ایک ادارہ چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ہمیں جبراﹰ بانجھ بنایا گیا۔

ہمارے جسموں پر نہ صرف زخم لگائے گئے بلکہ ہم ان زخموں کے نتیجے میں اپنے خاندانوں کے ٹوٹ جانے کے دکھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔‘‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خواتین کی جبری نس بندی کی یہ مہم پیرو کے سابق صدر البیرٹو فیوجی موری کے دور میں چلائی گئی تھی، جو 1990 سے لے کر 2000 تک اقتدار میں رہے تھے۔ اس دوران طبی پیچیدگیوں کے باعث اٹھارہ خواتین ہلاک بھی ہو گئی تھیں۔

تخت نشینی کا جاپانی قانون: اقوام متحدہ کے مطالبے پر ٹوکیو حکومت ناراض

فیوجی موری حکومت کے ریکارڈ کے مطابق یہ نس بندی فیملی پلاننگ کے ایک حکومتی منصوبے کے تحت متعلقہ خواتین کی مبینہ رضا مندی سے کی گئی تھی۔

لیکن اقوام متحدہ کی خواتین کے حقوق کی کمیٹی نے گزشتہ برس اکتوبر میں اپنی ایک رپورٹ میں اس جبری حکومتی عمل کو ''ریاست کی طرف سے دیہی اور قدیمی مقامی خواتین پر منظم حملہ‘‘ قرار دیا تھا، جس سے متاثرہ اکثر خواتین ناخواندہ تھیں اور پیرو کی سرکاری زبان کے طور پر ہسپانوی زبان بھی نہیں سمجھتی تھیں۔

اقوام متحدہ کی خواتین کے حقوق کی کمیٹی کی ایک رکن لیٹیسیا بونیفاز نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ دیہی علاقوں میں چلائی گئی ایسی مہم تھی، جس کا مقصد معاشرے کے غریب ترین اور محروم طبقے کی آبادی میں اضافے کو روکنا تھا۔‘‘ بونیفاز کے بقول یہ ناانصافی''لاطینی امریکہ میں جبری نس بندی کا سب سے بڑا منظم واقعہ‘‘ تھی۔

گلوبل جینڈر گیپ انڈکس کیا ہے؟

گزشتہ برس اقوام متحدہ نے پیرو کی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ اس معاملے میںِ ''اپنی تحقیقات کو تیز اور وسیع کرے اور متاثرین کے لیے مالی معاوضے اور نفسیاتی علاج کا ایک جامع پروگرام بھی جلد ترتیب دے۔‘‘

پیرو کی ایک عدالت نے بھی 2023 میں فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت متاثرہ خواتین کے لیے مالی ازالے اور طبی دیکھ بھال کے انتظامات کرے۔ اس عدالتی فیصلے پر بھی اب تک عمل نہیں ہوا۔

عصمت جبیں/ ص ز (اے ایف پی)

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں مستقل جنگ بندی کی راہ میں اسرائیل بڑی رکاوٹ ہے، قطر
  • قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے غزہ میں 7 سالہ جنگ بندی کا نیا فارمولا تجویز
  • اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟
  • غزہ میں جنگ بندی کیلئے قطر اور مصر نے نئی تجویز پیش کردی
  • یوکرین اور روس میں رواں ہفتے ہی معاہدے کی امید، ٹرمپ
  • آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے سامنے اسرائیل کیخلاف احتجاجی ریلی
  • آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے اسرائیل کے خلاف احتجاجی ریلی
  • روس عارضی جنگ بندی کا جھوٹا تاثر پیش کر رہا ہے، زیلنسکی
  • پیرو: جبری نس بندی سے متاثرہ لاکھوں خواتین ازالے کی منتظر
  • غزہ میں حماس کی حکومت کا برقرار رہنا اسرائیل کیلئے بڑی شکست ہوگی: نیتن یاہو