آغا سید منتظر مہدی کا وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال اور مودی حکومت کے منصوبوں کو لیکر خصوصی انٹرویو
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو میں جموں و کشمیر انجمن شرعی شیعیان کے سینیئر رہنماء و پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر کا کہنا تھا کہ شہید حسن نصراللہ ایک روشن حقیقت ہے، جو تا ابد ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ متعلقہ فائیلیں آغا سید منتظر مہدی موسوی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام سے ہے۔ وہ وادی کشمیر کے مزاحتمی رہنماء اور جموں و کشمیر انجمن شرعی شیعیان کے صدر آغا سید حسن موسوی کے فرزند ہیں۔ آپ انجمن شرعی شیعیان میں اہم ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے بھی وابستہ ہیں۔ بھارت کی مودی حکومت کی جانب سے مسلمانوں اور دین اسلام کے خلاف یلغار، کشمیر کی موجودہ حکومت کی نااہلی، مودی حکومت کی وقف ترمیمی بل اور بھارت میں اسلاموفوبیا کی لہر اور بیروت میں شہداء مقاومت کے تشیع جنازہ کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے آغا سید منتظر مہدی موسوی سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا۔ جس دوران انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کی یلغار کے تحت دین اسلام اور مسلمان نشانے پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید حسن نصراللہ ایک روشن حقیقت ہے، جو تا ابد ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ وقف ترمیمی بل پر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیئر لیڈر آغا سید منتظر مہدی نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ دین اسلام پر سراسر حملہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمون و کشمیر میں نیشنل کانفرنس کی حکومت کے لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدے سب جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.
youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
شہید مدافع حرم، محمد مقداد مہدی
اسلام ٹائمز: شہید مقداد مہدی کی شہادت سے چار سال قبل انکے قریبی دوست شہید علی رضا کی شہادت کے موقع پر شہید مقداد مہدی نے شہید علی رضا کی یاد میں کہا کہ ’’تم چلو ہم پیچھے آتے ہیں۔‘‘ بس شہید علی رضا کی شہادت کے چار سال بعد شہید مقداد مہدی کو بھی شہادت کا شرف حاصل ہوگیا۔ شہید مقداد مہدی کو شہادت کا اتنا شوق تھا کہ شہداء کے ترانے سنتے ہوئے اکثر مسکرا کر کہا کرتے تھے، یہ سارے ترانے ہم پر بنے ہیں اور اسی طرح کہتے کہ چلو جو پہلے گیا، وہ اوروں کی شفاعت کرے گا۔ رپورٹ: سید شاہریز علی
بعض ایمان والے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا اپنے خدا پر توکل ناقابل بیان اور محمد (ص) و آل محمد (ع) سے عشق لامحدود ہوتا ہے، ایسا ہی ایک مومن، بندہ خدا نوجوان شہید محمد مقداد مہدی تھا، جس نے مئی 1982ء کو جنوبی پنجاب کے ضلع بھکر میں ایک شیعہ مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی، محمد مقداد مہدی نوجوانی سے ہی دین کی خدمت میں پیش پیش رہتا تھا، زمانہ طالب علمی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی اور ناصرف اپنی ذات کی حد تک فکری تربیت کی بلکہ دیگر نوجوانوں کو بھی عشق آل محمد سے سرشار ہوتے ہوئے دینی امور کی جانب راغب کیا، شہید مقداد مہدی نے درس و تدریس کی خاطر مدرسہ میں داخلہ لیا، اس دوران شہید نوجوانوں کے لئے مؤثر برنامہ ریزی کرتے اور مختلف مذہبی پروگرامات کو تشکیل دیتے تھے۔ 2013ء میں جب بھکر کے علاقہ کوٹلہ جام میں تکفیری فرقہ پرست جماعت سپاہ صحابہ نے شرانگیزی اور دہشتگردی کی، تو شہید مقداد مہدی نے قانون کو ہاتھ میں لئے بغیر علاقہ میں قیام امن کی کوششیں کیں۔
شہید محمد مقداد مہدی سے راقم کی ملاقات 2014ء میں ہوئی، اس مختصر اور یادگار ملاقات میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ اس نوجوان کی منزل بہت عظیم ہے اور ایسا ہی ہوا، شہید اپنی شہادت کی آرزو لیکر حرم بی بی سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی داعش کے درندوں سے حفاظت کیلئے شام روانہ ہوگئے، قبل ازیں مقداد مہدی نے اپنے والدین سے اجازت طلب کی، والدین کیلئے انکار ناممکن تھا، کیونکہ مقصد ہی اس قدر بلند تھا۔ شہید کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ انہوں نے محاذ جنگ میں نڈر اور بے باک انداز سے داعش کے درندوں کیخلاف جنگ کی۔ ایک بار شہادت سے قبل بھی محاذ میں زخمی ہوئے، لیکن محاذ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ آپ کے کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے چار دوستوں کے ساتھ مل کر دشمن کی اہم ترین معلومات اور منصوبے کی خبریں حاصل کیں، جو جنگی محاذ میں انتہائی موثر ثابت ہوئیں۔ شہید مقداد مہدی ایک باوقار، کم گو، محنتی، نڈر اور متقی انسان تھے، خاندان، گھر اور دوستان میں خوش اخلاقی کا ایک بہترین نمونہ تھے۔
شہید اپنے بہن، بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دین کی ذمہ داریاں بھی احسن انداز میں نبھاتے تھے۔ نیند کم اور کام زیادہ کے فارمولے کو اپنی زندگی میں اپنائے ہوئے تھے، جو شائد ان کی کامیابی کا راز تھا۔ دوست ان کو محفلوں کی جان کہا کرتے تھے، شہید کے احباب کا کہنا ہے کہ شہید نماز جمعہ میں ہر حال میں شرکت کرتے تھے اور دوستوں کو بھی شرکت کی دعوت دیتے تھے۔ نماز اور کسی کارگاہ میں اگر کوئی شرکت نہ کرتا تو خود ان کو گھر لینے پہنچ جاتے تھے۔ ایک دوست جو نماز جمعہ میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتا تھا تو انہوں نے شہید سے سواری نہ ہونے باعث نہ آنے کا عذر پیش کیا، کچھ ہی لمحوں بعد شہید مقداد مہدی اس کے دروازے پر اسے ساتھ لے جانے کیلئے پہنچ گئے۔ اس موقع پر اس دوست نے پوچھا کہ آپ دینی امور، جاب کے ساتھ ساتھ گھر والوں کے لیے کیسے وقت نکل لیتے ہیں۔؟ کیسے مینج کرتے ہیں۔؟ تو شہید نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ وقت کا حساب گھنٹوں سے نہیں بلکہ منٹ اور سیکنڈز کے مطابق رکھو تو وقت میسر ہوتا ہے، خدا کی طرف ایک قدم بڑھاؤ، خدا کئی قدم بڑھا دیتا ہے۔
شہید مقداد مہدی کی شہادت سے چار سال قبل ان کے قریبی دوست شہید علی رضا کی شہادت کے موقع پر شہید مقداد مہدی نے شہید علی رضا کی یاد میں کہا کہ "تم چلو ہم پیچھے آتے ہیں۔" بس شہید علی رضا کی شہادت کے چار سال بعد شہید مقداد مہدی کو بھی شہادت کا شرف حاصل ہوگیا۔ شہید مقداد مہدی کو شہادت کا اتنا شوق تھا کہ شہداء کے ترانے سنتے ہوئے اکثر مسکرا کر کہا کرتے تھے یہ سارے ترانے ہم پر بنے ہیں اور اسی طرح کہتے کہ چلو جو پہلے گیا، وہ اوروں کی شفاعت کرے گا۔ آخر آج سے ٹھیک 9 سال قبل یعنی 11 دسمبر 2016ء کو شام ہی میں محمد مقداد مہدی کی دفاع حرم میں شہادت ہوگئی۔ 18 جنوری 2017ء کو شہید کی نماز جنازہ حرم بی بی معصومہ قم میں علامہ سید جان علی شاہ کاظمی کی اقتداء میں ادا کی گئی اور جسد مبارک کو بہشت معصومہ میں دفن کیا گیا۔ یوں شہید اپنی آرزو، تمنا اور منزل پانے میں کامیاب ہوگیا۔