مسلمانوں کا فکری دھارا مختلف کیوں ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
جاوید احمد غامدی اس حد تک مغرب سے مرعوب ہیں کہ وہ مسلمانوں کو بھی مغرب کے رنگ میں رنگے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب نے خدا اور مذہب کا انکار کیا ہے۔ غامدی صاحب مسلمانوں سے خدا اور مذہب کے انکار کے لیے تو نہیں کہتے مگر وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ہمیں ترقی یافتہ مغرب کی تقلید کرنی چاہیے۔ خورشید ندیم غامدی صاحب کے شاگرد رشید ہیں چنانچہ وہ بھی اپنے کالموں میں مغرب زدگی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں فرمایا ہے کہ چین بدل گیا، جاپان بدل گیا مگر مسلمان اب تک خلافت کے احیا کے تصور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے کالم میں بنیادی سوال یہ اُٹھایا ہے کہ مسلم فکری دھارا باقی دنیا کے فکری دھارے سے مختلف کیوں ہے۔ انہوں نے اپنے کالم میں کیا لکھا ہے۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
’’مادی و دنیاوی ترقی کے باب میں مسلمانوں کا عمومی زاویۂ نظر دیگر اقوام سے مختلف کیوں ہے؟
گزشتہ تین صدیوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیے اور ان اقوام کے احوال کو دیکھیے جن کے عروج و زوال سے دنیا کی تاریخ عبارت ہے۔ ان اقوام کے فکری اختلافات کے باوصف ان کے احوال میں یکسانیت ہے۔ انہوں نے اگر مادی ترقی کی ہے تو ان کی حکمت ِ عملی ایک رہی ہے۔ یہ حکمت ِ عملی اس زمین پر جاری قوانین ِ فطرت سے ہم آہنگ ہونا ہے۔ جن اقوام نے ایک مرحلے پر قدرے مختلف زاویۂ نظر اپنایا انہوں نے بھی تجربات سے سیکھتے ہوئے خود کو اس نظامِ فطرت سے ہمنوا بنا لیا۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں ہمیں دو بڑے فکری دھارے دکھائی دیے۔ اشترکیت اور سرمایہ داری۔ دونوں میں بحث ومباحثہ جاری رہا۔ دونوں نے دو مختلف نظام ہائے فکر کو اپنایا۔ دونوں میں کشمکش رہی جو سر مایہ دارانہ نظام کی فتح پر منتج ہوئی۔ اس سے اشتراکی قوتوں نے سیکھا اور اس طرزِ عمل کو اپنایا جو سرمایہ داری کی کامیابی کا سبب بنا تھا۔ حال ہی میں چین نے مصنوعی ذہانت کے باب میں امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کر دیا۔ یہ دراصل اْنہی خطوط پر پیش قدمی ہے جن پر امریکا آگے بڑھا۔ چین نے امریکا کو کھلی منڈی کی تجارت میں بھی ایک بڑے چیلنج سے دوچار کر دیا۔ چین یا روس کے نظامِ فکر میں اس تصورِ معیشت کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ چین نے لیکن اس کو اپنا لیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ امریکا اس سے جان چھڑا رہا ہے اور چین اس کا پیچھا کر رہا ہے۔
اس کے برخلاف ہمیں مسلم دنیا میں سوچ و فکر کی کوئی ایسی لہر اٹھتی دکھائی نہیں دی جو فطرت میں کارفرما ان اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔ ترکی کے استثنا کے ساتھ تمام تر مسلم ذہانت ماضی پرست رہی اور ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی نفسیات میں جیتی رہی۔ اس نے اگر مسلمانوں کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش کیا تو وہ تھا ماضی کی بازیافت۔ یہی کہا گیا کہ مسلمانوں کو خلافت کا احیا کرنا چاہیے اور اسی میں ان کی بقا ہے۔ کہیں یہ ادراک موجود نہیں تھا کہ دنیا بدل گئی ہے اور اب ماضی کی طرف لوٹنا ممکن نہیں۔ عالمی سطح پر اقتدار صرف مسلمانوں کا نہیں‘ برطانیہ جیسی سلطنت کا بھی ختم ہو رہا تھا لیکن برطانیہ میں ایسی کوئی تحریک نہیں اُٹھی کہ اسے دوبارہ عظیم تر (Great Britain) بنایا جائے یا دنیا کو ایک بار پھر فتح کیا جائے۔ ماضی کی عالمی طاقتوں نے اگر یہ چاہا بھی کہ دنیا میں ان کا تسلط برقرار رہے تو انہوں نے نئے طریقے ایجاد کیے۔ جیسے اقوامِ متحدہ اور اس میں ویٹو پاور۔
مسلمانوں میں جو مفکر اٹھا اس نے سیاسی احیا اور عالمی خلافت کی بحالی کا حل پیش کیا۔ جمال الدین افغانی ہوں یا برصغیر کے مفکرین‘ سب اسی نظامِ فکر کے ساتھ سوچتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی ضروری نہیں سمجھا کہ دنیا میں ترقی کرنے والی اقوام کے احوال ہی پر ایک نظر ڈالیں اور ان کے منہج کو سمجھیں۔ اس فکر میں یہ غلط فہمی کہیں سے در آئی کہ ہم ترکیب میں خاص ہیں اور ہمارے لیے قدرت نے ترقی کا ایک مختلف راستہ منتخب کر رکھا ہے۔ اس سارے عمل کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا مگر ہماری اجتماعی سوچ آج بھی اسی نظامِ فکر کی اسیر ہے۔ وہی خلافت کا احیا۔ وہی جہاد بالسیف۔ وہی موت کو گلیمرائز کرنا۔ کشمیر ہو یا فلسطین‘ آج بھی موت پر خوشی منائی جاتی ہے اور مرنے کو کارنامہ سمجھا جاتا ہے‘‘۔ (روزنامہ دنیا، 4 فروری 2025ء)
اقبال نے کہا تھا
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی ملت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان صرف اقوامِ مغرب ہی سے مختلف نہیں ہیں بلکہ اس وقت مسلمان روئے زمین پر موجود ہر قوم سے مختلف ہیں۔ عیسائی خدا اور مغرب کو مانتے ہیں مگر انہوں نے سیدنا عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا بنا کر شرک ایجاد کرلیا ہے۔ ہندو بھی خدا اور مذہب کو تسلیم کرتے ہیں مگر انہوں نے خدا کی ذات سے اس کی صفات کو الگ کرکے ایک سطح پر تین اور دوسرے سطح پر 33 کروڑ خدا ایجاد کرلیے۔ ہندو کہتے ہیں کہ برہما ہے جس نے کائنات بنائی ہے، وِشنو ہے جو کائنات کو چلا رہا ہے اور شِو ہے جو بالآخر کائنات کو ختم کرے گا۔ یہودی بھی خدا اور مذہب کو مانتے ہیں مگر انہوں نے بھی سیدنا عزیرؑ کو خدا کا بیٹا بنا کر شرک کا ارتکاب کرلیا ہے۔ اس طرح روئے زمین پر صرف مسلمان ہیں جن کے پاس ’’خالص توحید‘‘ موجود ہے۔ چنانچہ اگر دنیا کو بالآکر ایک خدا کے تصور کی جانب لوٹنا ہے تو پوری انسانیت کے لیے صرف مسلمان ہی توحید تک پہنچنے کا ذریعہ بنیں گے۔ باقی دنیا کا حال یہ ہے کہ وہ تو خدا ہی کو نہیں مانتی۔ بدھ ازم میں خدا کا تصور بہت مبہم ہے۔ چینی اپنے روایتی مذہب تائو ازم اور کنفیوشزم کو عرصہ ہوا ترک کربیٹھے۔ بلاشبہ مسلمانوں کو رسول اکرمؐ سے بے پناہ عقیدت ہے مگر مسلمان انہیں صرف ’’خدا کا رسول‘‘ اور ’’خدا کا بندہ‘‘ ہی مانتے ہیں۔ مسلمان رسول اللہؐ سے کسی الوہیت کو وابستہ نہیں کرتے۔ اس کے باوجود کہ آپ کو معراج کے لیے طلب کیا گیا اور آپ خدا سے براہِ راست ہم کلام ہوئے۔ چونکہ مسلمان باقی دنیا سے مختلف ہیں اس لیے ان کا فکری دھارا بھی باقی دنیا سے مختلف ہے۔ لیکن مسلمان صرف الٰہیات یا ontology کے دائرے میں ہی باقی اقوام سے مختلف نہیں ان کا تصور انسان بھی کم از کم جدید مغرب سے یکسر مختلف ہے۔
مسلمانوں کے لیے انسان روح، نفس اور جسم کا مرکب ہے۔ مسلمانوں کے لیے روح ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ البتہ نفس اور جسم موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس جدید مغربی اقوام روح کے وجود کی قائل ہی نہیں ہیں۔ وہ انسان کو صرف مادی وجود سمجھتی ہیں۔ مغرب نے علم نفسیات میں بڑی ترقی کی ہے۔ فرائڈ، ژنگ اور ایڈلر کی نفسیات کا پوری دنیا میں چرچا ہے مگر مغرب کا علم نفسیات نفس کو جبلتوں کے ایک مجموعے کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کا ’’تصورِ نفس‘‘ غیر معمولی ہے۔ ہمارے صوفیا نے نفس کے سات درجے بیان کیے ہیں۔ نفسِ امارہ، نفسِ لوامہ، نفسِ مطمئنہ، نفسِ ملہمہ، نفسِ راضیہ، نفسِ مرضیہ اور نفس مطلقہ۔ ہم اپنی کئی تحریروں میں نفس کے ان تصورات کے معنی بیان کرچکے اس لیے ہم یہاں نفس کے ان تصورات کی وضاحت نہیں کریں گے لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے کہ مسلمانوں کا تصورِ نفس پورے مغرب کے نفسیاتی علم پر بھاری ہے۔
مسلمانوں کا فکری دھارا اس لیے بھی پوری دنیا بالخصوص مغربی دنیا سے مختلف ہے کہ مسلمانوں کا تصور علم بھی مغرب سے مختلف ہے۔ مسلمانوں میں گزشتہ صدیوں کے دوران سیکڑوں خامیاں در آئی ہیں مگر مسلمانوں کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ابھی تک علم وحی کو سب سے برتر اور حتمی علم سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن و حدیث ہی مسلمانوں کے لیے سرچشمہ ہدایت ہیں۔ اس کے برعکس مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے وحی کی روشنی سے محروم عقل کو اپنا رہنما بنایا ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اس عقل کا پیدا کردہ فلسفہ مغرب کا رہنما تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ اس عقل کی پیدا کردہ سائنس مغرب کی رہنما ہے۔ اس سائنس کے علم کی دو بنیادیں ہیں۔ ’’سائنسی مشاہدہ‘‘ اور ’’سائنسی تجربہ‘‘ اب مسئلہ یہ ہے کہ سائنسی مشاہدے اور سائنسی تجربے سے نہ خدا کا وجود ثابت ہوتا ہے، نہ فرشتوں کا، نہ جنت دوزخ کا، نہ خیر کا نہ شر کا۔ چنانچہ مغرب خدا کا بھی منکر ہے، وحی کا بھی منکر ہے، فرشتوں کا بھی منکر ہے، جنت و دوزخ کا بھی منکر ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان ایسے مغرب کی تقلید کریں تو کیسے اور اس سے الگ فکری دھارا نہ بنائیں تو کیوں نہ بنائیں۔
یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ مسلمانوں اور مغرب کا تصور تخلیق بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مسلمانوں کا تصورِ تخلیق یہ ہے کہ خدا نے کُن کہہ کر پوری کائنات کو خلق کیا۔ اس کے برعکس مغرب کا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات کسی نے خلق نہیں کی۔ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ موجود رہے گی۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور انسان کو انسان ہی پیدا کیا۔ اس کے برعکس جدید مغرب ڈارون کے تصور ارتقا کے تحت انسان کو بندر کی اولاد سمجھتا ہے۔ ان امتیازات کی وجہ سے بھی مسلمانوں کا فکری دھارا باقی دنیا بالخصوص جدید مغربی اقوام سے مختلف ہے۔
اسلام کے زیر اثر مسلمان معروضی اخلاق Objective Morality کے قائل ہیں۔ اس تصور کے تحت مذہب نے جو چیز حلال قرار دے دی وہ قیامت تک حلال ہے اور مذہب نے جس شے کو حرام کردیا وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ اس کے برعکس مغرب موضوعی اخلاق یا Subjective Morality کا قائل ہے۔ اس تصور کے تحت اخلاقی معیارات وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مغرب میں عیسائی اخلاق کے تحت زنا حرام تھا مگر اب فریقین مرضی سے زنا کریں تو اس میں کوئی بری بات نہیں۔ یہاں تک کہ اب تو مغرب میں کروڑوں ہم جنس پرست جوڑے موجود ہیں اور مغرب ان کے تعلق کو ’’جائز‘‘ قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کے امتیازی تصور اخلاق نے بھی مسلمانوں کے فکری دھارے کو مختلف بتانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
جہاں تک خورشید ندیم کے اس نکتے کا تعلق ہے کہ مسلمان آج تک خلافت کے ادارے کے احیا کا خواب دیکھ رہے ہیں تو عرض ہے کہ مسلمان ایسا کسی ’’رومانس‘‘ کی وجہ سے نہیں کررہے ہیں بلکہ خلافت کے احیا کا خیال مسلمانوں کے مقدس متن یا Sacred Text کا حصہ ہے۔ خدا نے قرآن میں خود کہا ہے کہ وہ اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا چاہے یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ محسوس ہو۔ جو لوگ قرآن پر نظر رکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اس آیت ِ مبارکہ میں مسلمانوں کو اسلام کے عالمگیر غلبے کی بشارت دی گئی ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ خورشید ندیم کی نظر سے آج تک وہ حدیث نہیں گزری جس میں رسول اکرمؐ نے خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی واپسی کی بشارت دی ہے۔ حدیث کے مطابق رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک کہ اللہ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا عرصہ رہے گا۔ جب تک اللہ کی منشا ہوگی اور اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان صدیوں سے خلافت کے احیا کے منتظر ہیں۔ خورشید ندیم کی اطلاع کے لیے عرض یہ ہے کہ ’’عہد زریں‘‘ کی واپسی کا خیال صرف مسلمانوں ہی میں موجود نہیں ہندوئوں کے مقدس Text کے مطابق بہترین زمانہ ست یُگ تھا۔ اس کے بعد ترتایُگ کا عہد تھا۔ اس کے بعد دوا پریُگ آیا اور آج کل ’’کل یُگ‘‘ چل رہا ہے لیکن دنیا ایک بار پھر بہترین زمانے یعنی ست یُگ کی جانب لوٹے گی۔ عیسائیوں میں یہ خیال موجود ہے کہ بہترین زمانہ سیدنا عیسیٰؑ کا تھا اور سیدنا عیسیٰؑ دوبارہ لوٹیں گے تو دنیا پھر بہترین زمانے میں داخل ہوگی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کا بھی منکر ہے خدا اور مذہب ہے کہ مسلمان مسلمانوں کا مسلمانوں کے کہ مسلمانوں مسلمانوں کو ہوگی اور اس سے مختلف ہے اس کے برعکس باقی دنیا اس کے بعد انسان کو انہوں نے دنیا میں یہ ہے کہ مغرب کا کے احیا ہیں مگر کا تصور ہیں کہ خدا کا رہا ہے رہے گا کے تحت کے لیے ہے اور
پڑھیں:
میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
’میں نے کچھ غلط نہیں کیا‘ یہ وہ جملہ ہے جو حال ہی میں ریلیز ہونے والی برطانوی منی سیریز Adolescence (ایڈولینس) میں ایک تیرہ سالہ بچہ بارہا دہراتا ہے، جو اپنی ہی کلاس فیلو کو سفاکی سے قتل کر دیتا ہے، یہی جملہ میرے لیے اس تحریر کا نقطہ آغاز بنا، کیونکہ یہ جملہ صرف ایک بچے کے دفاع کا بیان نہیں بلکہ ایک پورے ذہنی، سماجی اور خاندانی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔
ایڈولینس یعنی بلوغت، یہی وہ عمر ہے جہاں شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے، یہ دور کسی بھی انسان کی زندگی کی سب سے نازک، پیچیدہ اور فیصلہ کن منزل ہوتا ہے۔ تربیت میں جو کمی یا زیادتی اس عمر میں ہو، اس کا اثر باقی زندگی پر لازمی طور پر پڑتا ہے، اس عمر میں بچوں کا ذہن ایک خالی کینوس کی مانند ہوتا ہے، جہاں یا تو رنگ بھرے جاتے ہیں یا دھندلا دھواں۔ سیریز کے پہلے سین اور پہلے ہی مکالمے نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا اور پلک جھپکتے میں میں 2000 کے انگلینڈ، کاؤنٹی یارکشائر کے شہر لیڈز پہنچ چکی تھی، جہاں میں اپنی فیملی کے ساتھ کئی برس مقیم رہی ہوں۔
یارکشائر کے اس مخصوص لہجے کو سمجھنے میں مجھے تب کئی ماہ لگے تھے، لیکن یہ سیریز دیکھتے ہوئے ہر لفظ بغیر سب ٹائٹل کے میرے اندر اترتا چلا گیا، یہ سیریز دراصل اداکار اسٹیفن گراہم کا ’برین چائلڈ‘ ہے، جس میں انہوں نے ہدایتکاری، کاسٹنگ اور پیشکش میں کئی تخلیقی تجربات کیے، خاص طور سے تمام کاسٹ غیرمانوس اداکاروں پر مشتمل رکھی گئی جبکہ سیریز میں یارکشائر کے عام گھرانوں کا ماحول، طرز رہائش اور بول چال من وعن دکھائی گئی ہے، فلم کے کئی سین اور مکالمے فی البدیہہ تھے اور ہر قسط ایک سنگل شاٹ میں فلمائی گئی تھی، لیکن یہ تمام فنی کامیابیاں اپنی جگہ مگر میری گفتگو کا محور اس سیریز کی فنی جہتیں نہیں بلکہ اس کا وہ سماجی و نفسیاتی پس منظر ہے جسے یہ سیریز بے مثال انداز میں پیش کرتی ہے۔
جیسا کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا کے بے لگام استعمال، نامناسب تبصروں اور توہین آمیز ایموجیز کو نئی نسل کی بگاڑ کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے تو کسی حد تک یہ بات درست ہے کیونکہ سوشل میڈیا نے پوری دنیا کے معاشروں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ان سے انکار ممکن نہیں۔
مگر آئیے، میں آپ کو 2002 کے انگلستان کا منظر دکھاتی ہوں، ایک ایسا وقت جب انسٹاگرام، فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ تو دور کی بات، اسمارٹ فونز کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔
اس زمانے میں جب میں پہلی بار سٹی آف لیڈز اسکول گئی جو ساتویں سے دسویں جماعت تک کا ایک وسیع و عریض تعلیمی ادارہ تھا، جدید سہولیات سے آراستہ، جہاں اساتذہ و طلبہ کے لیے ہر ممکن آسائش موجود تھی، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے وہاں کے طلبہ کا جو طرزِ عمل دیکھا، وہ ایڈولینس کی دوسری قسط میں اسکول کے مناظر میں دکھائی گئی ’طوفانِ بدتمیزی‘ کا عشر عشیر بھی نہیں تھا۔
جب سیریز میں پولیس کے دونوں اہلکار اسکول کے باہر کھڑے ہو کر دل گرفتہ لہجے میں گفتگو کرتے ہیں، تو ان کا ہر جملہ کڑوی سچائی کو آشکار کرتا ہے، ان مناظر کو دیکھ کر مجھے وہاں پیش آنے والے اپنے تجربات اور اس معاشرے کی تہہ در تہہ پیچیدگیاں شدت سے یاد آئیں۔
سیریز کا ایک اہم پہلو والدین اور اولاد کے درمیان فاصلہ اور خالی پن ہے، مغربی معاشروں میں بچوں پر ہونے والے پرانے تشدد کے خلاف قوانین تو ضرور بنائے گئے، لیکن ان قوانین کے نفاذ نے بچوں کی خودمختاری کو اس حد تک بڑھا دیا کہ اب والدین بے بس اور بےاثر ہو چکے ہیں، برطانیہ میں وقت کے ساتھ ’چائلڈ پروٹیکشن‘ کے قوانین اتنے سخت ہوگئے ہیں کہ معمولی ڈانٹ ڈپٹ بھی ’ابیوز‘ کے زمرے میں شمار کی جانے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں میں ضبط، ہمدردی اور خوداحتسابی جیسی صلاحیتیں ناپید ہوتی چلی گئیں۔ میں نے یہ خالی پن اپنی آنکھوں سے برطانیہ کے اسکولوں میں محسوس کیا تھا، جہاں سہولتیں تو جدید تھیں، مگر طلبہ کا رویہ بدتمیزی اور تشدد کی حد تک بے قابو تھا۔
سیریز میں کئی مناظر ایسے ہیں جو نہ صرف ایک تیرہ سالہ بچے کی نفسیاتی الجھنوں کو بے نقاب کرتے ہیں بلکہ مردانگی کے طاقتور مگر زہریلے اظہار کو بھی نہایت خوبی سے دکھاتے ہیں۔ خاص طور پر جیمی اور اس کی سائیکاٹرسٹ کے درمیان ہونے والی گفتگو کے مناظر نہایت متاثر کن ہیں، جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ بچے میں سوسیوپیتھ جیسے رجحانات موجود ہیں۔
اکثر لوگ سوسیوپیتھ اور سائیکوپیتھ کو ایک ہی سمجھتے ہیں، حالانکہ دونوں کا تعلق اگرچہ Antisocial Personality Disorder (ASPD) سے ہوتا ہے، لیکن ان کی علامات، وجوہات اور طرزِ عمل میں نمایاں فرق ہے۔ سوسیوپیتھ اکثر اپنے ماحولیاتی پس منظر جیسے گھریلو تشدد، والدین کی عدم موجودگی یا مسلسل تنقید کے نتیجے میں ایسے رویے اپناتے ہیں، جبکہ سائیکوپیتھ عموماً پیدائشی طور پر جذباتی طور پر سرد اور بے حس ہوتے ہیں۔ جیمی کی شخصیت میں ماحولیاتی عنصر کی جھلک نمایاں ہے، ایک مصروف گھریلو نظام، والدین کی عدم توجہی اور ایک بےبس معاشرہ۔
سیریز میں سماج کا سب سے خطرناک پہلو ’مردانگی کا پاور شو اور مردانہ مائنڈ سیٹ‘ کو بھی بڑی خوبی سے اجاگر کیا گیا ہے جو ہمارے جیسے معاشروں میں تو معمول کی بات سمجھا جاتا ہے لیکن اب یہ صرف جنوبی ایشیا یا مشرقی دنیا کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ رویہ اب مغربی معاشروں میں بھی واضح طور پر نظر آنے لگا ہے۔ ہم پاکستان یا انڈیا میں عورتوں پر ہونے والے تشدد یا اجتماعی ریپ جیسے واقعات پر ماتم کناں ہیں، مگر برطانیہ جیسے آزاد خیال معاشرے کے نوعمر لڑکوں کے ذہنی سانچے بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
سیریز میں جیمی اپنی کلاس فیلو کیٹی کو اس لیے قتل کرتا ہے کیونکہ وہ اس سے تعلق قائم نہیں کرتی، جبکہ وہ اپنی تصاویر کسی اور کو بھیج دیتی ہے، یہ مائنڈ سیٹ دراصل وہی ہے جو نور مقدم کے بہیمانہ قتل کے پیچھے کارفرما تھا، عورت کا انکار، مرد کی انا کو چیلنج دیتا ہے اور پھر اس انا کی تسکین کے لیے طاقت کا اظہار کیا جاتا ہے، جس میں ریپ اور قتل جیسے جرائم بھی شامل ہوتے ہیں۔
اسکول میں پولیس اہلکاروں کی کیٹی کی قریبی دوست جیڈ سے بات چیت کا سین بھی قابل توجہ ہے جس میں بظاہر مرد پولیس اہلکار کیٹی کی لڑکوں سے دوستی کے بارے میں سوال کرتا ہے جس پر جیڈ غصے سے پوچھتی ہے کہ کیا اس برتے پر قتل کیا جاسکتا ہے؟ نور مقدم کے لیے ایسے نامناسب جملے یقیناً سب کو ہی یاد ہوں گے جو اس کے بہیمانہ قتل کو جواز مہیا کرتے تھے، مائنڈ سیٹ اسی کو کہتے ہیں۔
سیریز میں Incel کی ایک جدید اصطلاح بھی استعمال کی گئی، جو انٹرنیٹ کلچر سے ابھری ہے یعنی Involuntarily Celibate وہ شخص جو نہ چاہتے ہوئے بھی جنسی یا رومانوی تعلق سے محروم رہتا ہے، ایسے افراد اکثر عورتوں، معاشرے یا کامیاب مردوں کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اصطلاح 1990 کی دہائی میں ایک خاتون نے ہمدردانہ فورم کے طور پر متعارف کروائی تھی، لیکن آج یہ عورت دشمن اور مخالف کمیونٹیز میں تبدیل ہو چکی ہے۔
اسی ذہنیت کو مزید ہوا دی سوشل میڈیا انفلوئنسر اینڈریو ٹیٹ نے، جس نے عورت کو مرد کی ملکیت قرار دینے جیسے کئی متنازع بیانات دیے اور 20/80 جیسے تصورات کو فروغ دیا، یعنی 80 فیصد عورتیں صرف 20 فیصد مردوں میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ایسے نظریات اب مغرب میں کئی پوڈ کاسٹ میزبانوں اور انفلوئنسرز کے ذریعے عام ہو رہے ہیں، اور نوعمر لڑکے ان خیالات سے متاثر ہورہے ہیں، یہ زہر محض سوشل میڈیا تک محدود نہیں بلکہ کلاس رومز، گھروں اور عدالتوں تک سرایت کر چکا ہے۔
سیریز ایڈولینس میں جیمی کا یہ جملہ ’میں نے کچھ غلط نہیں کیا‘ ایک فرد کی نہیں، ایک نظام کی گواہی ہے، یہ صرف ایک بچہ نہیں کہہ رہا یہ دراصل ایک پورے سماجی اور ذہنی ڈھانچے کی سوچ ہے۔ ایک ایسا نظام جو بچے، مرد اور عورت تینوں کو اذیت میں رکھتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ یہ ذہنیت، یہ مردانگی کا زہر، یہ احساسِ محرومی اور برتری کا ملاپ کب، کہاں اور کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اور اسے روکنے کے لیے ہمیں تربیت، مکالمہ، خاندانی نظام اور نظامِ انصاف میں کن گہرائیوں تک اتر کر تبدیلی لانی ہوگی؟
اس سیریز کو محض ایک کرائم ڈرامہ نہ سمجھیے، یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب کے چہرے نظر آ رہے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
wenews ایشیا خاندانی نظام سیریز ایڈولینس صنوبر ناظر ظاہر جعفر عورت مرد معاشرہ مغرب نقطہ نظر نور مقدم قتل وی نیوز