پاکستان میں سفید موتیا کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے، الشفاء ٹرسٹعلاج میں تاخیر خطرناک ثابت ہو سکتی ہے،پروفیسر صبیح الدین
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
الشفاء ٹرسٹ آئی ہاسپٹل میں شعبہ موتیا کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر صبیح الدین احمدنے کہا ہے کہ پاکستان میں سفید موتا کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجوہات میں ذیابیطس اور مناسب ہسپتالوں کا عوام کی پہنچ سے دور ہونا ہے۔ پہلے اس مرض کے علاج میں تاخیر کی جاتی تھی جسے موتا کا پکنا کہتے تھے مگر اب اس کا فوری علاج کیا جاتا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر صبیح الدین احمد نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں حالانکہ مناسب طریقے سے علاج نہ کیا جائے تو یہ اندھے پن کا باعث بن سکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ذیابیطس کے علاوہ عمر بڑھنے، آگاہی کی کمی، غذائیت کی کمی، الٹرا وائلٹ شعائیں، جینیاتی مسائل اور دیر سے تشخیص جیسے عوامل بھی اس مسئلے کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ڈاکٹر صبیح الدین احمد نے کہا کہ بہت سے لوگ مالی مجبوریوں یا سرجری کے خوف کی وجہ سے علاج میں تاخیر کرتے ہیں جس سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ سفید موتا کا علاج بہت آسان ہے۔مریض کی آنکھ کا لینس بدلنے میں دس سے بیس منٹ لگتے ہیں مگر دیہی علاقوں میں ماہرین امراض چشم اور جدید جراحی کی سہولیات کی کمی سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں اور خیراتی اداروں میں اس مرض کا علاج سستا یا مفت ہوتا ہے مگر مریض کو طویل اتنظار کرنا پڑتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم الشفاء راولپنڈی ہسپتال میں روزانہ 70 سے 80 آپریشن مفت کر رہے ہیں جبکہ ہماری ٹرسٹ کے زیر انتظام راولپنڈی، چکوال، کوہاٹ، مظفر آباد، سکھر اور گلگت میں واقع ہسپتال شامل ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جلد تشخیص اور علاج کے بارے میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔ آنکھوں کا باقاعدہ معائنہ، حفاظتی چشمہ پہننا، ذیابیطس کاعلاج اور صحت بخش ? غذا موتیابند کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ملک بھر میں آنکھوں کی صحت کے بارے میں آگہی، آنکھوں کی دیکھ بھال میں حکومتی سرمایہ کاری میں اضافہ، اور موبائل آئی کلینک جلد تشخیص اور علاج کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد، پالیسی سازوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے درمیان باہمی تعاون سے معاملات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: صبیح الدین نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
چارٹر انسپیکشن کمیٹی کے چیئرمین کے لیے پروفیسر سروش لودھی کا انتخاب
سندھ اعلی تعلیمی کمیشن نے پرفیسر سروش لودھی کو چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی کا چیئرمین منتخب کردیا۔
یہ انتخاب کمیشن کے تحت حال ہی میں منعقدہ سلیکشن بورڈ میں ہوا ہے جس کے بعد ڈاکٹر سروش لودھی کی تقرری کے سلسلے میں این او سی کے حصول کے لیے متعلقہ سیکیورٹی اداروں کو خط لکھ دیا گیا یے۔
ہوم ڈپارٹمنٹ کے ذرائع کے مطابق ایک ادارے سے کلیئرنس بھی موصول ہوگئی ہے۔
واضح رہے کہ چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی سندھ میں نجی جامعات و اسناد تفویض کرنے والے اداروں(ڈگری ایوارڈنگ) کو چارٹر تفویض کرنے اور ان کی مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن کی ذمے دار رہی ہے جبکہ کچھ عرصے قبل جب اس کمیٹی کو سندھ ایچ ای سی کے ماتحت کیا گیا تو کمیٹی کے تحت اب نجی کے ساتھ ساتھ سرکاری جامعات کی مانیٹرنگ بھی شروع کردی ہے۔
سابق وائس چانسلر لیاقت میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر نوشاد شیخ کچھ عرصے اس کے قائم مقام چیئرمین رہے جس کے بعد سے یہ عہدہ تاحال خالی رہا اور اب اشتہار کے بعد انٹرویوز کے ذریعے جن امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا ان میں پروفیسر سروش لودھی پہلے اور ڈاکٹر فتح مری دوسرے نمبر پر تھے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر سروش لودھی حال ہی میں این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں جس سلیکشن بورڈ کے ذریعے ان کا انتخاب کیا گیا ہے اس میں کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع، سیکریٹری معین صدیقی، کمیشن کے اراکین، نمایندہ ایس ین جی ڈی اے اور محکمہ فنانس شامل تھا۔
واضح رہے کہ سیکیورٹی اداروں سے این او سی موصول ہونے کی صورت میں ایچ ای سی کمیشن کی منظوری سے اس فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔