Express News:
2025-04-22@11:09:40 GMT

ایف آئی آر

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

کچھ روایت چل پڑی ہے، آج کل سندھ میں لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کی۔ چلو یہ بھی اچھا ہوا کہ کم از کم حکومت نے اپنے مخالفین کا نوٹس تو لیا، مگر ان بے بنیاد ایف آئی آر نے پولیس کو رسوا کردیا ہے اور بڑی آسانی سے یہ ماجرہ سمجھ میں آرہا ہے کہ کس طرح ہماری پولیس آڑے کاموں میں استعمال ہو تی ہے۔

77 سال گزرگئے اس ملک کو آزاد ہوئے مگر یہ روایت نہیں بدلی۔ 1947 میں نوابشاہ کے ڈپٹی کلیکٹر مسعود کھدر پوش تھے۔ سندھ میں پہلی ہاری (کسان) رپورٹ انھوں نے ہی ترتیب دی تھی، وہ میرے والد کی بہت عزت کیا کرتے تھے کیونکہ میرے والد نوابشاہ میں کسانوں کے وکیل تھے۔

ڈپٹی کلیکٹر مسعود کھدر پوش نے اپنی ہاری رپورٹ میں میرے والد قاضی فیض محمد کو کسانوں کا ایک متحرک لیڈر بتایا ہے۔ میرے والد سے وڈیرے ناراض رہتے تھے۔ ان وڈیروں میں جو میرے والد کے ساتھ کھڑے رہے، وہ تھے رئیس غلام رسول جتوئی۔ اس لیے کہ دور طالب علمی سے وہ میرے والد کے گہرے دوست تھے۔

رئیس غلام رسول جتوئی، غلام مصطفی جتوئی کے والد اور غلام مرتضیٰ جتوئی کے دادا تھے۔ غلام رسول جتوئی اپنے والد خان بہادر امام بخش خان جتوئی کے اکلوتے بیٹے تھے۔ خان بہادر امام بخش خان جتوئی سندھی اور سرائیکی زبان کے خوبصورت شاعر تھے اور ممبئی اسمبلی کے رکن بھی تھے۔ نوشہرو فیروز اور گردو نواح کو سندھی زبان میں ’’ساھتی پرگڑو‘‘ کہا جاتا ہے یعنی سندھ کا تہذیبی حصہ کیونکہ سندھ کا یہ حصہ علم و ہنر اور ادب کا گہوارہ رہا ہے۔

تقسیم سے پہلے یہاں کے رہنے والے سندھی ہندو پڑھے لکھے اورکاروباری لوگ تھے۔ اسکولوں کا بہترین انفرا اسٹرکچر تھا۔ تمام طبقے کے بچے ایک ہی کلاس میں ایک ہی بینچ پر بیٹھ کر پڑھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ غلام رسول جتوئی کی دوستی میرے والد سے گہری رہی۔ 

وہ میرے والد کے غریب خانے پر آتے، راتیں بسرکرتے چاہے ان کے سونے کا بستر زمین پر ہی کیوں نہ ہو اور جب میرے والد ان کے یہاں جاتے تو ان کی خاطر مدارات نوابوں کی طرح کی جاتی مگر میرے والد کا مقصد حیات تھا غریب کسانوں کو وڈیروں کے شکنجے سے آزاد کروانا۔ مسعود کھدر پوش چونکہ میرے والد کے گہرے دوست تھے تو وہ اپنی بیگم کے ہمراہ ہمارے گاؤں آیا کرتے تھے۔ ان سے دوستی کی روایت میرے والد نے آخر تک نہ چھوڑی۔ اپنی بڑھتی عمر ہونے کے بعد بھی وہ ان سے لاہور ملنے جاتے تھے۔

میرے والد کے ایک اور اسکول فیلو تھے وہ تھے گوبند مالی، جنھوں نے 1956 میں ہجرت کی اور ہندوستان چلے گئے۔ گوبند مالی نے ہندوستان میں سندھی زبان میں بہت سے ناول لکھے مگر ان کے ایک ناول ’’چھوئی موئی‘‘ کا ترجمہ اردو اور ہندی میں ہوا ہے۔

اس ناول کی کہانی ایک دہقان (کسان) لیڈر کے گرد گھومتی ہے جس کا نام تھا ’’ فیض‘‘ یعنی میرے والد۔ قصہ مختصر یہ کہ مسعود کھدر پوش کا نوابشاہ سے تبادلہ ہوگیا اور دہقانوں کو ہمت دلانے کے گناہ میں یہاں کے وڈیرے میرے والد کے درپے ہوگئے۔

انھوں نے میرے والد کو سبق سکھانے کی ٹھان لی کیونکہ میرے والد نے بہ حیثیت ایک وکیل ان کی ناک میں دم کر رکھا تھا کہ وہ زمینیں جو یہاں ہندو چھوڑ گئے تھے وہ زمینیں ان دہقانوں کو دلانے کے لیے ’’ہاری الاٹی تحریک ‘‘ کا آغاز میرے والد نے کیا۔

ان وڈیروں نے میرے والد کے خلاف بھینسیں چوری کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کروایا اور میرے والد گرفتار ہوگئے۔ اس وقت کے ایس ایچ اوکوئی پنہور صاحب تھے۔ اتوار کو سیشن کورٹ لگائی گئی اور میرے والد کی ضمانت منظور ہوئی۔ ایس ایچ او کو مطلع کیا گیا۔

انکوائری کروائی گئی اور انکوائری میں یہ ثابت ہوا کہ ایف آئی آر جھوٹی درج کی گئی تھی۔ ایس ایچ او پنہور صاحب معطل ہوئے،مگر بات یہاں پر ختم نہ ہوئی ان وڈیروں نے رات کے اندھیرے میں ہمارے گاؤں والے گھر پر حملہ کروایا۔

ڈاکو ہمارے گھر میں گھسے۔ ہمارے گھر کی عورتیں اس وقت سو رہی تھیں۔ میری والدہ تھیں ، میری دادی تھیں اور میری چاچی جو کہ اس وقت حمل سے تھیں اور باقی گھر کے افراد بھی اس وقت سو رہے تھے۔ میرے بڑے بھائی یہ بتاتے تھے کہ میری والدہ کے ہاتھوں سے ان ڈاکوؤں نے سونے کی چوڑیاں اتروائیں، ہماری چاچی نے جب مزاحمت کی تو ان کے پیٹ پر لاٹھیاں ماریں۔

اتفاقا میرے والد گھر پر موجود نہ تھے اور یہ بہتر ہی ہوا کیونکہ وہ میرے والد کو ہی مارنے آئے تھے۔ ہماری چاچی کیونکہ حاملہ تھیں ان کو ایمرجنسی میں اسپتال پہنچایا گیا جہاں ان کا حمل ضایع ہوا پھر میرے والد کو اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا۔

وہ نوابشاہ منتقل ہوئے پھر اس تحریک نے زور پکڑا۔ نوابشاہ کے قریب رئیس بروہی کے گاؤں میں ہاری کانفرنس ہوا کرتی تھی اور ان کانفرنس میں باچا خان، مولانا بھاشانی، اچکزئی، مینگل صاحب ، خیر بخش مری، میجر اسحاق اور میاں افتخار جیسے لوگوں نے شرکت کی۔

اب وڈیرہ اپنی ماہیت اور بھی وسیع کر گیا ہے۔کل تک یہ لوگ آمریتوں کی گودوں میں پلتے تھے۔ان کا اقتدار کے بغیر جینا محال تھا۔ اقتدار سے ان کا تعلق چولی دامن جیسا ہے۔ پھر آئے بھٹو صاحب۔ ان میں سے کچھ لوگ جمہوریت پسند بنے۔مگر بھٹو کا زمانہ بھی عتاب کا تھا۔ اب اس دور میں بھینس چوری کرنے کے الزام میں نہیں لیکن سائیکل چوری کرنے کے الزام ایف آئی آر کٹنے لگیں اور انھوں نے DPR کا قانون متعارف کروایا جس میں ضمانت کی کلاز ہی نہیں تھی۔

(جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: غلام رسول جتوئی مسعود کھدر پوش وہ میرے والد میرے والد کے ایف ا ئی ا ر

پڑھیں:

پارٹی کا سوشل میڈیا علیمہ خان کنٹرول کرتی ہیں،حیدر مہدی،عادل راجا انہی کی ایما پر پراپیگنڈا کرتے ہیں‘ شیر افضل مروت

لاہور (آئی این پی) پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ علیمہ خان اور بشری بی بی کا پی ٹی آئی قائدین کے ساتھ رویہ انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے، پی ٹی آئی کی تمام لیڈر شپ کو مناظرے کا چیلنج دیتا ہوں، میں سب بتادوں گا پارٹی کو کہا لا کر کھڑا کر دیا گیا، 2سے ڈھائی ماہ بعد جنید اکبر کا حال میرے سے بھی برا ہو گا، جنیداکبرجی حضوری والاآدمی نہیں ہے،علی امین نے بھی نہیں کی۔

نجی ٹی وی کے مطابق انٹر ویو میں گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا کہ پارٹی کا سوشل میڈیا علیمہ خان کنٹرول کرتی ہیں ۔ حیدر مہدی اور عادل راجہ بھی ان کی ایما ءپر پراپیگنڈا کرتے ہیں ۔ علیمہ خان غیرانسانی رویہ اپناتی ہیں ان کی زبان آگ اگلتی ہے ۔ چپ رہنے کا وقت گزر گیا اب خاموش نہیں رہیں گے ۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ 8فروری تک میں پی ٹی آئی میں ہیروتھا، بانی سے پہلی ہی ملاقات میں میرے خلاف شکایات کا پینڈورا بکس کھولا گیا، میرے خلاف منصوبہ بندی کے تحت کچھ لوگوں نے اندر اور کچھ نے باہر کردار ادا کیا، ایک یوٹیوبر نے میرے خلاف وی لاگ کسی شخصیت کی ایما ءپر کیا، اس شخصیت کا میں بہت احترام کرتا تھا، میرے خلاف پارٹی میں بیانیہ کو ہوا دی کہ یہ اسٹیبلشمنٹ سے جڑا ہوا ہے،اس بیانیہ اورآئیڈیا کو علیمہ خان نے ہوا دی، 2یوٹیوبرز نے علیمہ خان کے کہنے پر میرے خلاف بیانیہ بنایا، علیمہ خان یوٹیوبرز،میڈیاپر سنز کو بلا کر میرے خلاف کان بھرتی تھیں۔

شادی سے انکار پر بیٹی کا قتل، اٹلی میں پاکستانی نژاد والدین کی سزا برقرار

 میں نے یا علیمہ خان گروپ یا بشری بی بی گروپ کاحصہ بنناتھا، اپنے گروپ میں لانے کیلئے علیمہ خان نے کئی بار مجھ سے سخت رویہ اپنایا، میں کسی بھی گروپ میں نہیں تھا، میرے خلاف گالم گلوچ کی ویڈیوز علیمہ خان مجھے بھیجا کرتی تھیں، علیمہ خان کی وجہ سے ہم انتہائی غیرانسانی رویوں سے گزرے ہیں، علیمہ خان کی زبان آگ اگلتی تھی،اس وجہ سے قطع تعلق کیا، میں نے بانی پی ٹی آئی کو علیمہ خان کی شکایت کی ، 29لوگ اس دن ٹرائل میں موجود تھے جب میں نے شکایت کی، میں نے کہا گالم گلوچ ہمیں بھیجتے ہیں،ہر چیز میں مداخلت ہے ، بانی نے کھڑے ہو کر کہا کوئی بھی علیمہ خان کافون نہیں سنے گا، بانی نے کہا علیمہ خان کے نمبر کو بلاک کریں،پارٹی معاملات میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، اس کے بعد یہ لوگ کھل کر میری مخالفت پرآگئے۔

پولیس نے خاتون کا نوٹوں سے بھرا ہوا چوری شدہ بیگ تلاش کرلیا،ملزمہ گرفتار

انہوں نے کہا کہ امریکہ سے آنے والی امدادکی بھی دیکھ بھال علیمہ خان کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے 3 بار پارٹی سے نکالے جانے میں ان کا ہی ہاتھ ہے، علیمہ خان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے مجھے نکلوایا ہے، ہماری کوشش ہوتی تھی کہ جتناان سے دوررہا جائے بہتر ہے، میں چاہتا ہوں کہ یہ کسی دن بول لیں،بہت ساری چیزیں بتانا چاہتا ہوں، علیمہ خان کی ایما ءپر پی ٹی آئی والے مجھے گالیاں دے رہے ہیں، میری فہرست میں کسی کی خوش آمدنہیں ، میرے سامنے عامرڈوگر،بیرسٹرگوہر،عمرایوب کو بلائیں، رمضان میں سیکرٹریٹ میں سب بیٹھے تھے ابھی افطاری نہیں ہوئی تھی، بیرسٹر گوہر نے کہا افطاری پر جانا ہے گھر میں مہمان ہیں، علیمہ خان نے کہاآپ یہاں سے ہل نہیں سکتے، کسی دور میں سوشل میڈیا بشری بی بی کے خلاف بھی استعمال ہوا، میرے مرے ہوئے والدین کو یہ گالیاں دے رہے ہیں، میں نے ان کو سمجھایا کہ ایسا نہ کروائیں، انہوں نے بات گالی تک پہنچا دی ہے اب خاموش نہیں رہوں گا، سب سے زیادہ بانی سے ملاقاتیں علیمہ خان کی ہوئی ہیں، اگرپارٹی سے نکال دیا تو بس کردیں،بات گالیوں تک آگئی ہے۔

ایپل نے آئی فون صارفین کیلئے وارننگ جاری کردی

انہوں نے کہا کہ عمرایوب اور دیگر سب ڈرتے ہیں،کسی کی جرات نہیں گالی کا جواب دے سکیں، بیرسٹر گوہر کو گالیاں دینے والا سوشل میڈیا بھی ان کے کنٹرول میں ہے، میں نے شکوہ کیا تو کہا گیا یہ بانی کی بہنوں پر حملہ آور ہو گئے، یہ روزبانی کے کان بھرتے ہیں،میرٹ پر فیصلے نہیں ہو رہے، پارٹی میں میرٹ انٹراپارٹی الیکشن ہے، عمر ایوب سے استعفیٰ لیاگیا، سلمان اکرم کبھی خیبر پختوانخواہ حکومت سے ٹکراتے ہیں کبھی بیرسٹرگوہر سے، منرلز بل پر سلمان اکرم کا کیا کام،بانی کا کام ہے، ہمارا لیڈر بانی ہے ان کے رشتہ دار ہمارے لیڈر نہیں ہو سکتے۔

دوحہ جانے والے مسافر کے پیٹ سے 98آئس بھرے کیپسول برآمد

مزید :

متعلقہ مضامین

  • اقبالؒ__ کیا ہم بھول جائیں گے؟
  • Rich Dad -- Poor Dad
  • کبھی نہیں کہا میرے خلاف مہم کے پیچھے علیمہ خان ہیں، شیر افضل مروت
  • بیٹا مجرم ہو تو سزا دیں مگر غائب نہ کریں، وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد کی استدعا
  • پارٹی کا سوشل میڈیا علیمہ خان کنٹرول کرتی ہیں،حیدر مہدی،عادل راجا انہی کی ایما پر پراپیگنڈا کرتے ہیں‘ شیر افضل مروت
  • وزیر مملکت کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر حملہ
  • 57 سال کے میرے اثاثے
  • شیر افضل مروت 2 سال پہلے کہاں تھا اور کون تھا؟