Jasarat News:
2025-04-22@11:09:02 GMT

پاک بھارت ٹاکرا:بارش کے امکانات نہیں،موسم ابرآلود رہے گا

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

پاک بھارت ٹاکرا:بارش کے امکانات نہیں،موسم ابرآلود رہے گا

دبئی:آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان اور بھارت کے بڑا ٹاکرا کل 23 فروری کو دبئی میں ہوگا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس اہم میچ کے دوران بارش کا کوئی امکان نہیں ہے، لیکن موسم ابر آلود رہ سکتا ہے۔ درجہ حرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہنے کا امکان ہے جب کہ شام کے اوقات میں یہ 23 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر سکتا ہے۔

موسم کی صورتحال بتانے والی ویب سائٹس کے مطابق دبئی میں کل بارش کا کوئی امکان نہیں ہے، تاہم متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے کچھ علاقوں، جیسے راس الخیمہ میں گزشتہ کچھ دنوں میں تیز بارش اور اولے پڑے تھے گر دبئی میں میچ کے دوران موسم خشک اور ابر آلود رہنے کا امکان ہے۔

کرکٹ شائقین کے جذبے اور دونوں روایتی حریف ملکوں کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ میچ کرو یا مرو جیسی صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ اگر پاکستان کو شکست ہوئی تو وہ ٹورنامنٹ سے باہر ہو سکتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی میں پاک بھارت گروپ میچ کے لیے کوئی ریزرو ڈے نہیں رکھا گیا ہے، لہٰذا میچ کے نتائج کا فیصلہ اسی دن ہوگا۔

دونوں ٹیمیں اس اہم مقابلے کے لیے بھرپور تیاری کر رہی ہیں۔ پاکستان کی ٹیم کو اپنے بلے بازوں اور گیند بازوں کی کارکردگی پر مکمل بھروسا ہے جب کہ بھارت بھی اپنی مضبوط پرفارمنس کے ساتھ میدان میں اترنے کے لیے تیار ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان یہ مقابلہ نہ صرف ٹورنامنٹ کے لیے اہم ہے، بلکہ اس کی روایتی حریفانہ کشمکش کی وجہ سے بھی اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ ہمیشہ سے جذباتی اور پرجوش رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے شائقین کرکٹ اس میچ کے لیے بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ میچ کے دوران موسم کی بہتر صورتحال کے پیش نظر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ مقابلہ بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل ہوگا اور دونوں ٹیمیں اپنی بہترین پرفارمنس پیش کریں گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میچ کے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ

اسلام ٹائمز: ضیاءالحق کے دور میں اقتدار کی سیاست نے ریاستی سطح پر فرقہ واریت کو فروغ دیا اور اس ماحول میں ایران مخالف بیانیے کو باقاعدہ پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ انقلاب اسلامی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا، جسکے نتیجے میں پاکستان کی شیعہ آبادی پر دباؤ بڑھا اور فرقہ وارانہ گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی۔ بیک وقت، ایران کے ساتھ رسمی تعلقات کا ظاہری تاثر بھی قائم رکھا گیا۔ یہ دوہری اور متضاد حکمت عملی نہ صرف داخلی ہم آہنگی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی، بلکہ ایران کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات بھی مجروح ہوئے۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

پاکستان اور ایران کے بلوچستان و سیستان کے سرحدی علاقے طویل عرصے سے دہشتگردی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہیں، جہاں دونوں ممالک کو یکساں نوعیت کے خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم، ان کے درمیان دہشتگردی کیخلاف مؤثر تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کی واضح کمی ہے۔ باہمی اعتماد، معلومات کا تبادلہ اور عملی اشتراک جیسے بنیادی تقاضے اب تک مکمل طور پر قائم نہیں ہوسکے۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً اعلیٰ سطحی وفود کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے، لیکن ان ملاقاتوں کے نتائج دیرپا اور مؤثر ثابت نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جانب وقتاً فوقتاً ناخوشگوار اور خونریز واقعات جنم لیتے ہیں، جنہیں رسمی بیانات سے نہیں بلکہ سنجیدہ، مربوط اور عملی اقدامات کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان کیساتھ اس کے تعلقات میں بتدریج سرد مہری پیدا ہوئی۔ اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ایران کا امریکہ مخالف مؤقف تھا، جبکہ پاکستان اُس وقت افغان جہاد کے تناظر میں امریکی بلاک کا فعال رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس دور میں مکمل طور پر امریکی اثر و نفوذ کے تحت آچکی تھی، جبکہ ایران میں انقلاب کے بعد شدید امریکہ دشمنی غالب آچکی تھی۔ یہ نظریاتی تفاوت دونوں ممالک کے درمیان فاصلے کا باعث بنا۔ عرب ممالک نے بھی انقلاب اسلامی کو شک کی نظر سے دیکھا اور چونکہ پاکستان کے ان سے تاریخی طور پر نیازمندانہ تعلقات تھے، اس لیے ان کے تحفظات نے بھی ایران سے روابط پر منفی اثر ڈالا۔

ضیاءالحق کے دور میں اقتدار کی سیاست نے ریاستی سطح پر فرقہ واریت کو فروغ دیا اور اس ماحول میں ایران مخالف بیانیے کو باقاعدہ پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ انقلاب اسلامی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کی شیعہ آبادی پر دباؤ بڑھا اور فرقہ وارانہ گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی۔ بیک وقت، ایران کے ساتھ رسمی تعلقات کا ظاہری تاثر بھی قائم رکھا گیا۔ یہ دوہری اور متضاد حکمت عملی نہ صرف داخلی ہم آہنگی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی، بلکہ ایران کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات بھی مجروح ہوئے۔ آج بھی ایران اور پاکستان کے تعلقات میں کئی داخلی و خارجی عوامل حساسیت اور پیچیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

علاقائی سیاست، بین الاقوامی دباؤ اور بعض مذہبی گروہوں کا کردار ان رکاوٹوں کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ اگرچہ دونوں طرف سے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار ہوتا رہتا ہے، لیکن کبھی خارجی دباؤ، کبھی داخلی پالیسیاں اور کبھی سکیورٹی خدشات اس راہ میں حائل رہتے ہیں۔ ماضی کے داخلی و خارجی اسباب آج بھی مؤثر ہیں، تاہم چند نئی پیچیدگیاں بھی جنم لے چکی ہیں۔ عرب ممالک، امریکہ اور بعض عالمی معاہدات کی نوعیت پاکستان پر مستقل دباؤ ڈالتی ہے، جبکہ ایران پر عائد عالمی پابندیاں دونوں ممالک کے تعلقات کو محدود رکھتی ہیں۔ داخلی طور پر مذہبی فرقہ واریت ایک مستقل رکاوٹ ہے، جس کے باعث پاکستان کی شیعہ آبادی، خصوصاً پاراچنار جیسے علاقوں میں، غیر ضروری ریاستی حساسیت کا سامنا کرتی ہے۔

بعض مذہبی و سیاسی گروہ دانستہ طور پر ان علاقوں کے مقامی مسائل کو ایران سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ریاستی اداروں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ نتیجتاً مقامی آبادی محاصروں، نقل و حرکت کی بندش اور دیگر مشکلات کا شکار بنتی ہے، حالانکہ ان علاقوں میں بیشتر مسائل کی بنیاد زمینی تنازعات پر ہے اور وہاں شیعہ سنی ہم آہنگی کے باعث اکثر فرقہ وارانہ مسائل حل ہوچکے ہیں۔ ریاستی حساسیت کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پالیسی ساز زمینی حقائق اور مقامی مصالحتی کوششوں کو بنیاد بنائیں۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں کوئی ناقابلِ عبور رکاوٹ موجود نہیں۔ اگر دونوں ممالک چاہیں تو دہشت گردی جیسے مشترکہ خطرات کے خلاف ایک ہم آہنگ، مربوط اور مؤثر پالیسی ترتیب دے سکتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں سرگرم شدت پسند گروہ دونوں جانب بدامنی پھیلانے کیلئے ایک دوسرے کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔

ایرانی بلوچستان میں سکیورٹی کیلئے سب سے زیادہ وسائل صرف ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان کا بلوچستان سیاسی اور ریاستی بحرانوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ایک طرف بدامنی کا مطلب لازماً دوسری طرف اس کا اثر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایران اور پاکستان مشترکہ فورس، انٹیلی جنس نظام اور سکیورٹی معاہدات کے ذریعے سرحدی امن کیلئے مکمل اشتراکِ عمل کریں اور اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے باشعور طبقات، پالیسی ساز ادارے اور سیاسی قیادت ان تلخ تجربات کو دشمنی کا ذریعہ بنانے کے بجائے مفاہمت اور تعاون کا نقطۂ آغاز بنائیں۔ دو طرفہ مفاہمت نہ صرف علاقائی امن کی بنیاد رکھ سکتی ہے، بلکہ اسلامی دنیا میں وحدت اور باہمی احترام کی ایک قابلِ تقلید مثال بھی قائم کرسکتی ہے۔ صحافی : تصور حسین شہزاد

متعلقہ مضامین

  • شدید گرمی جاری؛ گرج چمک کیساتھ بارش کہاں ہو سکتی ہے؟ محکمہ موسمیات نے بتادیا
  • مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں، دونوں اسی تنخواہ پر کام کرتیں رہیں گی، وزیر ریلوے
  • تھوڑی توانائی، بڑے امکانات، رات کے وقت بجلی بنانے والے سولر پینلز
  • چترال میں بارش و برفباری کا نیا سلسلہ، طغیانی اور ژالہ باری سے فصلوں کو نقصان
  • فلم ’عبیر گلال‘ کی تشہیری مہم کا بھارت کی بجائے دبئی سے آغاز
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ
  • 3 دن سے بارش، شدید ژالہ باری ، آسمانی بجلی گرنے پر 50 مویشی ہلاک
  • ورلڈکپ، پاکستان کی ویمن ٹیم بھارت نہیں جائے گی : چیئرمین پی سی بی
  • ورلڈ کپ کے لیے قومی ویمنز کرکٹ ٹیم بھارت نہیں جائے گی: محسن نقوی