مستحق خواتین کے لئے نئے بینکنگ ماڈل کے زریعے بینک اکاؤنٹس کھولے جائیں گے ،روبینہ خالد
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2025ء) چیئر پرسن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام روبینہ خالد نے کہا ہے کہ مستحق خواتین کے لئے نئے بینکنگ ماڈل کے زریعے بینک اکاؤنٹس کھولے جائیں گے ،بینکوں کے زریعے خواتین کو سہولت اور رقوم کی شفاف منتقلی ممکن ہوگی ۔پاکستان پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کا اجلاس صوبائی صدرو چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سینٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں روبینہ خالد نے کہاکہ نئی خواتین کو پیپلز پارٹی میں شمولیت پر خوش آمدید کہتے ہیں ۔
انہوںنے کہاکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ملک کا سب سے بڑا فلاحی منصوبہ ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جنوری 2025 سے بے نظیر کفالت سہ ماہی قسط کی 10500 سے بڑھا کر 13500 کردی گئی ہے ۔(جاری ہے)
سینیٹر روبینہ خالد نے کہاکہ مستحق خواتین کے لئے نئے بینکنگ ماڈل کے زریعے بینک اکاؤنٹس کھولے جائیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ نئے بینکنگ ماڈل سے امدادی رقم میں کسی قسم کی کٹوتی نہیں ہو سکے گی ،بینکوں کے زریعے خواتین کو سہولت اور رقوم کی شفاف منتقلی ممکن ہوگی ۔
انہوںنے کہاکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شہید بینظیر بھٹو کے وڑن کے مطابق خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے کام کر رہا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ خیبرپختونخوا صوبائی حکومت گیارہ سالہ اقتدار میں ایک بھی عوامی فلاحی منصوبہ شروع نہیں کر سکے ۔ انہوںنے کہاکہ اپنی ناقص کارکردگی چھپانے کے لیے صرف دوسروں کے منصوبوں پر تختیاں لگانے میں مصروف ہیں ۔ روبینہ خالد نے کہاکہ پی ٹی آئی دور حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کی کوشش بھی اسی ذہنیت کی عکاسی تھا ۔ انہوںنے کہاکہ پیپلز پارٹی آج بھی جمہوریت مساوات اور عوامی خدمت کے اصولوں پر کار بند ہے۔اجلاس میں شازیہ طماس اشبر جدون مہر سلطانہ ایڈوکیٹ شائستہ رزاق شامل تھیں ،صائمہ مسرت ،قاضی انیلا شہناز شمشیر فرذانہ ثمرین زہرہ سمیت تمام کابینہ ممبران نے بھی شرکت کی ۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نئے بینکنگ ماڈل روبینہ خالد نے انہوںنے کہاکہ خواتین کو کے زریعے نے کہاکہ
پڑھیں:
ایران کا جوہری پروگرام(3)
اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا
مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"
اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔
امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"
اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے
اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔
اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"
ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔
مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟