آئی ایم ایف کی شرط ہے ٹیکس ریفارمز کے بغیر مزید فنڈنگ نہیں، وزیر خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
فیصل آباد:وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے فیصل آباد چیمبر آف کامرس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ ٹیکس ریفارمز کے بغیر مزید فنڈنگ نہیں ہو سکتی۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف پاکستان کو مزید فنڈز دینے کے لیے تیار ہے، لیکن اس کے لیے ٹیکس نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات ضروری ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت ان اصلاحات پر پوری طرح متفق ہے اور وزیراعظم اس معاملے پر واضح موقف رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے تاکہ معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں ٹیکس ریفارمز کو ترجیح دی گئی ہے، جس کے تحت تنخواہ دار طبقے کو بھی اپنی آمدنی کے بارے میں شفافیت کے ساتھ معلومات فراہم کرنی ہوں گی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ 7مختلف شعبوں سے وابستہ تنخواہ دار افراد کو نومبر تک آن لائن اپنے ٹیکس فارم جمع کروانے ہوں گے۔
محمد اورنگزیب نے مہنگائی اور شرح سود کے حوالے سے بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے مہنگائی کے تناظر میں مشکلات کا سامنا رہا، لیکن اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ شرح سود میں کمی کے ساتھ ساتھ آٹو فنانسنگ کے شعبے میں بھی بہتری آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چینی، گھی اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ رمضان المبارک کے دوران چینی کی قیمتوں میں مزید کمی متوقع ہے جو عوام کے لیے ایک خوشی کی خبر ہے۔
وزیر خزانہ نے حکومت کی جانب سے ڈیجیٹلائزیشن کے عمل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آنے والے دنوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ مختلف وزارتوں اور اداروں کو آپس میں ضم کرنے کا عمل جاری ہے، جس کا مقصد اخراجات میں کمی لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 43 وزارتوں میں سے 5سے 6وزارتوں کو ضم کرنے کے لیے کام کیا جا رہا ہے، جبکہ ایک وزارت کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے ٹیکس کے معاملات میں عدالتی نظام کی سست روی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال ٹیکس کے کیسز کی وجہ سے تقریباً ایک ٹریلین روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے چیف جسٹس سے ملاقات کر کے اس معاملے کو فوری طور پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت اس وقت بہت سے مشکل فیصلے کر رہی ہے۔ 3اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جن میں معیشت کو مستحکم کرنا، اخراجات میں کمی لانا اور ترقی کے نئے راستے تلاش کرنا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا مقصد ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے سعودی عرب میں منعقد ہونے والے اجلاس میں 30 سے زائد ممالک کے وزرائے خزانہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر گلوبل ٹریڈ کے بجائے ریجنل ٹریڈ پر توجہ دینے پر زور دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھی اپنی تجارتی پالیسیوں میں اس رجحان کو اپنانا چاہیے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر وزیر خزانہ نے عوام سے اپیل کی کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ماضی کو پیچھے چھوڑ کر مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جسے پورا نہ کر سکوں۔ ہم سب کو مل کر ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا ہوگا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے لیے
پڑھیں:
معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے جمعہ کا روز خاصا مصروفیت میں گزارا۔ جمعہ کو ان کی زیرصدارت امن و امان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا اور پھر اسی روز انھوں نے اسلام آباد میں ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ہیڈکوارٹرز کا بھی دورہ کیا۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم دہشت گردوں کو ایسی عبرتناک شکست دیں گے کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکیں گے، ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھنکیں گے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام اداروں اور صوبوں کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ وفاقی حکومت اس ضمن میں تمام صوبوں کی استعداد بڑھانے کے لیے بھرپور تعاون کرے گی۔
دہشت گردی پاکستان کی ترقی کی راہ میں اتنی بڑی رکاوٹ ہے، اس حوالے سے فیصلہ ساز ہی ہیں بلکہ عام پاکستانی تک حقائق سے آگاہ ہے۔ پاکستان کو اگر دہشت گردی کی لعنت کا سامنا نہ ہوتا تو آج پاکستان ایشیا میں ایک اہم معاشی قوت ہوتا۔
بہرحال بدترین دہشت گردی کے باوجود پاکستان نے معاشی اور سائنسی میدان میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوان اور افسر دن رات اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان کے اردگرد کے حالات ایسے ہیں، اس قسم کے حالات کا سامنا اگر دنیا کے کسی اور ملک کو ہوتا تو شاید اس کی حالت صومالیہ یا کانگو جیسی ہوتی۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی ہے۔ حقائق کو سامنے رکھا جائے تو برملا کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دنیا کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔
پاکستان کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ غیرقانونی تجارت اور ڈرگز کی اسمگلنگ ہے۔ اسمگلنگ نے پاکستان کی مالیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستان کو اربوں ڈالر ریونیو کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ نقصان ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں ہو رہا ہے اور پاکستان کے اندر بلیک منی ہولڈرز سسٹم کو کرپٹ کر کے پاکستان کے خزانے کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں۔
وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ اسمگلنگ کے خلاف تمام اداروں کو اپنی کوششیں مزید تیز کرنے، اہم شہروں میں سیف سٹی منصوبوں کو جلدازجلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وفاقی اور وفاقی اداروں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ صوبائی اور ضلعی اداروں کی کارکردگی میں بھی اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔ جب تک صوبائی حکومت اپنے حصے کی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں کرتیں، اس وقت تک شہروں، قصبوں اور دیہات میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو سکتا۔
سیف سٹی کیمرے جرائم پر قابو پانے کے لیے اہم ہتھیار ہے۔ اسی طرح بیوروکریسی اور سرکاری عملے کی جوابدہی کے لیے بھی تمام سرکاری دفاتر میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے چاہئیں اور ان کیمروں کا کنٹرول مرکزی کنٹرول سسٹم میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ کورٹ سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک کی ساری کارروائی سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہونی چاہیے۔ اس سے سرکاری مشینری کی کارکردگی میں خاطرخوا اضافہ ہو گا اور عوامی مسائل میں کمی ہو گی جب کہ جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی میں مدد ملے گی۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اسلام آباد میں ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ہیڈکوارٹرز کے دورہ کے دوران ٹیکس نظام میں بہتری، شفافیت، اور افسران کی کارکردگی کی جانچ کے لیے مکمل خودکار نظام کے اجرا کی منظوری دی، جس کے تحت افسران کو ترقی اور مالی مراعات کارکردگی کی بنیاد پر دی جائیں گی۔
نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم نے ایف بی آر افسران کو یقین دہانی کرائی کہ نئے نظام کے تحت شاندار کارکردگی دکھانے والے افسران کو30 لاکھ روپے ماہانہ تک تنخواہیں دی جائیں گی، ساتھ ہی ناقص کارکردگی اور کرپشن میں ملوث افسران کو نہ صرف ایف بی آر بلکہ کسی بھی سرکاری محکمے میں ملازمت نہیں کرنے دی جائے گی۔
وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہم بات ٹیکس لاز میں تبدیلیاں بھی لانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس قوانین واضح اور ابہام سے پاک ہونے چاہئیں۔ اسی طرح افسران کے اختیارات کے ساتھ ساتھ ان کے احتساب کے حوالے سے بھی قوانین واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
افسران اور دیگر عملے کو یکطرفہ اختیارات دینے سے ممکن ہے ریونیو کے اہداف تو حاصل کیے جا سکیں لیکن ان اختیارات کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی حق تلفی بھی ہو سکتی ہے اور ان سے ناانصافی ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری افسروں کو حاصل قواعد وضوابط کے اختیارات کو بھی واضح طور پر ان کے آفس کے باہر آویزاں کرنا چاہیے تاکہ سب کو پتہ چل سکے کہ افسر کے پاس کس قسم کے اختیارات موجود ہیں اور اگر وہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کے خلاف کن کن قوانین کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ افسروں کے کمروں کے اندر اور باہر بھی سی سی ٹی وی کیمرے ہونے چاہئیں تاکہ پتہ چل سکے کہ وہاں کون کون آیا اور کتنا کام ہوا۔ اس طریقے سے سرکاری کام میں شفافیت پیدا ہو گی۔
وزیراعظم نے یہ بھی واضح کیا کہ قرضوں اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانا ہے تو محصولات کو بڑھانا ہوگا، قرضوں کی زندگی پاکستان کو بہت نقصان پہنچا چکی ہے، عدالتوں میں زیرالتوا کھربوں روپے کے ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں، ایک طرف ہمارے کھربوں روپے کے کیسز زیر التوا ہیں اور دوسری طرف ہم دن رات قرض لے رہے ہوتے ہیں یا ان کو رول اوور کرارہے ہوتے ہیں۔
دوسری طرف انٹرنل ریونیو سروس، کسٹم، سیلزٹیکس، جعلی رسید وں کی دردناک کہانیاں بھی ہم سن چکے ہیں، ہم نے ان کمزوریوں کو دور کرناہے،محصولات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 27فیصد اضافہ لائق تحسین ہے، ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کے سفر کا آغاز ہوگیا ہے،افسران محنت کریں اور قوم کی تقدیر بدلیں۔
عدالتوں سے23ارب روپے کا اسٹے آرڈر خارج ہوا توشام کو وہ پیسہ خزانے میں آگیا،البتہ ابھی گڈزکی مس ڈکلیئریشن سے متعلق کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں ہوا۔چند سال قبل ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم بنایا گیا جس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے، اس میں کمپنی کی خطاہے یا اس نظام کا موثر استعمال نہیں کیا گیا؟ وزیرِ اعظم نے مالی سال2025 کے پہلے نو ماہ میں پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 2.828 ارب ڈالر تک پہنچنے اور گزشتہ سال کے مقابلے 23فیصد اضافے کا خیر مقدم کیا۔
انھوں نے کہا حکومت کی جانب سے آئی ٹی شعبے کو بروقت سہولیات کی فراہمی سے یہ اضافہ ممکن ہوا ہے۔انھوں نے کہا سرمایہ کار ہمارے سر کا تاج ہیں ، انھیں ہر ممکن سہولیات دیں گے۔وزیراعظم نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ وہ ٹیکس ادا کرنے والوں سے اچھا رویہ رکھیں، سرمایہ کار ہمارے سرکا تاج ہیں، انھیں عزت اور ہر ممکنہ سہولت دینی ہے۔
پاکستان کی معیشت میں خاصی بہتری آئی ہے لیکن اگر ٹیکس دہندگان کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے تو ٹیکس کولیکشن میں اربوں روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جن شعبوں کو مختلف قسم کے ٹیکسز میں استثنیٰ دیا گیا ہے، اس کو ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کے نام پر جو مراعات یا ٹیکسز میں چھوٹ دی جاتی ہے، اس کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کے حوالے سے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ لوگوں سے یا عام عوام سے چندہ وصول کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
جو سرمایہ دار یا خوشحال شخص کوئی فلاحی کام کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی ذاتی آمدنی سے کرے۔ سرکار سے مراعات لینا یا عام آدمی سے چندہ لینا بند ہونا چاہیے۔ کسی ٹرسٹ، وقف یا فلاحی ادارے کو زکوٰۃ اکٹھی کرنے، فطرانہ یا صدقات کے نام پر چندہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
اگر کسی کو کوئی مدد دینی بھی ہے تو وہ بذریعہ حکومت ہونی چاہیے تاکہ پورا ریکارڈ رکھا جا سکے۔ سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے بھی قوانین کو دو ٹوک اور واضح بنانے کی ضرورت ہے۔ پہلے سے بااثر لوگوں کو مزید نوازنا ملک کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ قبائلی وڈیروں، گدی نشینوں اور بڑے بڑے جاگیرداروں سے ان کی طرززندگی کی مناسبت سے ٹیکس وصولی کا راستہ نکالنے کے لیے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔