روس کے وزیر خارجہ لاوروف ترکی کے بعد ایران کا دورہ کرینگے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
ترجمان اسماعیل بقائی کے مطابق روسی وزیر خارجہ کا دورہ تہران اسلامی جمہوریہ ایران اور روسی فیڈریشن کے درمیان دوطرفہ تعلقات، علاقائی اور بین الاقوامی امور کے سلسلے میں مسلسل مشاورت کے دائرہ کار میں انجام پائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ روس کے وزیر خارجہ ایران میں نئی حکومت بننے کے بعد اپنے پہلے دورے پر تہران آئیں گے تاکہ دوطرفہ مسائل اور علاقائی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف جو ترکی کا دورہ کرنے والے ہیں، اس کے بعد تہران آئیں گے۔ وہ ایرانی حکام کے ساتھ دو طرفہ تعلقات، علاقائی اور بین الاقوامی پیش رفت پر تبادلہ خیال کریں گے۔ لاوروف اس دورے کے دوران اپنے ایرانی ہم منصب سید عباس عراقچی سمیت اعلیٰ ایرانی حکام سے ملاقاتیں اور بات چیت کریں گے۔
سفارتی خدمات کے ترجمان اسماعیل بقائی نے روسی وزیر خارجہ کے اس ہفتے متوقع دورہ تہران کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ روسی وزیر خارجہ کا دورہ تہران اسلامی جمہوریہ ایران اور روسی فیڈریشن کے درمیان دوطرفہ تعلقات، علاقائی اور بین الاقوامی امور کے سلسلے میں مسلسل مشاورت کے دائرہ کار میں انجام پائے گا۔ واضح رہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے قبل وزرائے خارجہ نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں آستانہ معاہدےکے ضامن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔
اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران اور روسی فیڈریشن کے وزرائے خارجہ عباس عراقچی اور سرگئی لاوروف نے اس سے قبل 10 دسمبر کو شام میں پیشرفت کے بارے میں ٹیلیفون پر بات چیت کی تھی۔ سید عباس عراقچی جنوری میں ماسکو کے دورے پرایرانی صدر مسعود پیزشکیان کے ساتھ موجود تھے۔ دونوں وزراء نے 17 اکتوبر کو استنبول میں وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی شرکت کی تھی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کا دورہ
پڑھیں:
بشار اسد کے زوال کی پہلی سالگرہ، ایک سال میں شام انہدام کے دہانے پر
اسلام ٹائمز: تل ابیب یونیورسٹی کے موشے دایان سینٹر اور القدس انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجی اینڈ سیکیورٹی سے وابستہ ترکی امور کے ماہر ایئتان کوہن یانرجاک کا کہنا ہے کہ شامی خانہ جنگی کے دوران اسلامی قوانین میں سرمایہ کاری اور انقرہ کی جانب سے مخالفین کی حمایت نے ایسی صورتِ حال پیدا کر دی ہے جس میں ترکی خود کو روس اور ایران کا متبادل سمجھنے لگا ہے۔ خصوصی رپورٹ:
عبرانی زبان کے میڈیا ادارے نے ایک تجزیاتی مضمون میں شام میں ابو محمد الجولانی کے اقتدار میں آنے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر شائع ہونیوالے تجزیئے میں کہا ہے کہ شام اب بھی مکمل انہدام کے خطرے سے دوچار ہے۔ تسنیم نیوز ایجنسی کے عبرانی شعبے کے مطابق عبری زبان کے اخبار گلوبس کے تجزیہ کار دین شموئیل الماس نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ شام نے حالیہ دنوں میں، اس وقت جب وہ بشار اسد کے خلاف بغاوت کی پہلی سالگرہ منا رہا تھا، نہایت چونکا دینے والی صورتِ حال کا سامنا کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بشار اسد کے جانشین، یعنی القاعدہ کے سابق رکن، جس نے اپنا نام ابو محمد الجولانی سے بدل کر احمد الشرع رکھ لیا ہے۔
انہیں مغربی ممالک اور خلیج تعاون کونسل کے ممالک کی جانب سے غیر معمولی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ امریکہ بھی اس ملک کو دوبارہ عالمی برادری میں شامل کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ تاہم الشرع نے، اپنے سابقہ بیانات کے برعکس جن میں وہ ابراہیمی معاہدوں میں شمولیت کے بارے میں مثبت رویہ ظاہر کر چکا تھا، شام پر سے پابندیاں ہٹنے کے بعد اس معاملے میں ایک قدم پیچھے ہٹ لیا ہے۔ مضمون کے ایک اور حصے میں کہا گیا ہے کہ ملک کی اندرونی صورتِ حال نہایت سنگین ہے۔ موجودہ حکمران ڈھانچہ ملک کے صرف تقریباً ساٹھ فیصد علاقے پر کنٹرول رکھتا ہے، جبکہ باقی علاقوں میں شامی صحرا کے قبائلی گروہ، شمال مشرق میں کرد موجود ہیں جو زیادہ تر تیل کے کنوؤں پر قابض ہیں۔
جنوب میں دروزی برادری حکمت الہجری کی قیادت میں سرگرم ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی موجودگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو روز بروز جبل الشیخ (کوہِ حرمون) اور السویداء کے علاقوں میں پھیلتی جا رہی ہے۔ اسرائیل اپنے اس پھیلاؤ کو جہادی گروہوں کے ممکنہ حملوں کو روکنے کے بہانے جائز قرار دیتا ہے، حالانکہ یہی گروہ ماضی میں شام کی خانہ جنگی کے دوران اسرائیلی حمایت سے بھی فائدہ اٹھا چکے تھے اور اب یہ پیش قدمی مقبوضہ جولان کی بستیوں سے آگے دمشق کی دیواروں تک جا پہنچی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نومبر کے اواخر میں، بیت جن کے شہر میں بریگیڈ 55 کی کارروائی کے دوران چھ افسران اور ریزرو فوجی زخمی ہوئے، جن میں سے تین کی حالت تشویشناک تھی۔
اس واقعے کے بعد ان عناصر کے بارے میں معلومات سامنے آئیں جو شام میں طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور یہ سرگرمیاں مقبوضہ فلسطین کی سرحد سے محض 11 کلومیٹر کے فاصلے پر ہو رہی تھیں۔ اس عبرانی میڈیا نے آگے چل کر اسرائیلی ادارہ برائے قومی سلامتی مطالعات (INSS) کی سینئر رکن اور اس کے شام پروگرام کی سربراہ کارمیت والنسی کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ترکی غیر ملکی جہادیوں کی مالی معاونت کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، غیر ملکی جنگجو منظم ہیں، اسی لیے ترکی میں امریکہ کے سفیر ٹام بیرک نے 3500 غیر ملکی جنگجوؤں کو شامی فوج میں ضم کرنے کی منظوری دی۔
تل ابیب یونیورسٹی کے موشے دایان سینٹر اور القدس انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجی اینڈ سیکیورٹی سے وابستہ ترکی امور کے ماہر ایئتان کوہن یانرجاک کا کہنا ہے کہ شامی خانہ جنگی کے دوران اسلامی قوانین میں سرمایہ کاری اور انقرہ کی جانب سے مخالفین کی حمایت نے ایسی صورتِ حال پیدا کر دی ہے جس میں ترکی خود کو روس اور ایران کا متبادل سمجھنے لگا ہے۔ والنسی نے وضاحت کی کہ اگرچہ مارچ میں کردوں کے ساتھ جنگ بندی اور تدریجی انضمام کا معاہدہ ہوا تھا، لیکن اس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوا۔ کرد خودمختاری برقرار رکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو شامی حکمران ڈھانچے کے تصور سے متصادم ہے، کیونکہ وہ اقتدار میں شراکت کو مشکل سمجھتے ہیں۔
اگرچہ اقلیتوں کی حکومت اور پارلیمنٹ میں نمائندگی موجود ہے، مگر یہ نمائندگی ادھوری ہے۔ مضمون کے مطابق، شریعت پر مبنی نظام کے تحت اقلیتوں میں غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے، خاص طور پر ان قتلِ عام کے بعد جنہیں دنیا نے بڑی حد تک نظر انداز کیا۔ مارچ میں، مغربی شام میں تقریباً 1700 علویوں کو قتل کیا گیا، جو اسد خاندان کے ہی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ جولائی میں، حکومتی افواج نے دمشق کے نواحی علاقوں میں دروزیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں، جن میں مذہبی شخصیات کی توہین اور بعض علما کی مونچھیں زبردستی مونڈنا بھی شامل تھا۔
ان واقعات کے نتیجے میں دروزی برادری اسرائیل کی طرف مائل ہو گئی، جسے اسرائیل نے شام میں اپنی جارحیت کو مزید وسعت دینے کے لیے جواز کے طور پر استعمال کیا۔ اس عبرانی میڈیا کے مطابق، اب تک صورتِ حال بظاہر نسبتاً قابو میں ہے، تاہم السویداء کا علاقہ محاصرے میں ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ الشرع کی حکومت اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست فوجی تصادم ایک ممکنہ منظرنامہ بن چکا ہے۔ یہ امکان اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب شامی صدر اور اس کے حامی اس وقت تک کسی بھی عارضی سیکیورٹی معاہدے کو مسترد کر رہے ہیں جب تک اسرائیل ان علاقوں سے دستبردار نہ ہو جائے جن پر اس نے تقریباً ایک سال قبل قبضہ کیا تھا۔