ماضی کی وہ معروف اداکارہ جس نے ماں کی خواہش پر بالی ووڈ چھوڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
بالی ووڈ کی ماضی کی معروف اداکارہ اور ’بگ باس 18‘ کی سابقہ امیدوار شلپا شیروڈکر نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی والدہ کی خواہش پر فلم انڈسٹری کو چھوڑ کر شادی کا فیصلہ کیا تھا۔
ایک انٹرویو میں شلپا نے بتایا کہ بالی ووڈ کو انہوں نے اپنی والدہ کے مشورے پر خیرباد کہہ کر شادی کر لی تھی اور انہیں اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
اداکارہ نے بتایا کہ ان کی والدہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ ہر کام کا وقت ہوتا ہے، اور جو کام وقت پر نہ ہو وہ بعد میں صرف پچھتاوے کا باعث بنتا ہے۔ شلپا نے کہا کہ ان کی والدہ کے مطابق وہ ان کی شادی کی عمر تھی اور وہ ہی شادی کیلئے بہترین وقت تھا۔
View this post on InstagramA post shared by BollywoodShaadis.
شلپا نے بتایا کہ ’میں نے 2000 میں شادی کی اور میری والدہ کا ماننا تھا کہ ہر چیز کا صحیح وقت ہوتا ہے، اس لیے بالی ووڈ میں نام کمانے کے بعد میری زندگی کا اگلا قدم شادی تھی۔ 26-27 سال کی عمر میں شادی کرنا ضروری تھا، اور میں نے خوشی سے فلم انڈسٹری چھوڑ دی۔‘
شلپا نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ اپنی والدہ کے فیصلوں پر یقین رکھتی ہیں اور انہیں کبھی بھی والدہ کے کیے فیصلوں پر عمل کر کے افسوس نہیں ہوا۔ شلپا نے یہ بھی کہا کہ وہ کبھی بھارت چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں، لیکن تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ شادی کے بعد ملک سے باہر چلی گئیں اور مکمل طور پر ایک گھریلو خاتون بن گئیں جس پر وہ خود بھی خوش اور مطمئین ہیں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مودی حکومت کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیئے، سرفراز احمد صدیقی
دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کے سکریٹری نے کہا کہ یہ قانون کئی بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور اقلیتوں کو متعدد دفعات میں دئے گئے حقوق و اختیارات سے متصادم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی قانون پر جاری سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف انڈیا کے کئی شقوں پر عارضی روک کا خیرمقدم کرتے ہوئے دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کے سکریٹری اور سپریم کورٹ کے معروف وکیل سرفراز احمد صدیقی نے کہا کہ مودی حکومت کو ہٹ دھری چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے وقف ترمیمی قانون کو واپس لے لینا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس نے نہ صرف حکومت کو آئینہ دکھایا ہے بلکہ اس کے منصوبے کو ناکام کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کا ایک ادنی سا طالب علم بھی ایسا غیر آئینی بل پیش کرنے اور نہ ہی اسے پاس کرانے کی حماقت کرے گا۔
ایڈووکیٹ سرفراز احمد صدیقی نے کہا کہ یہ قانون کئی بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور اقلیتوں کو متعدد دفعات میں دئے گئے حقوق و اختیارات سے متصادم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود بھی حکومت کا پارلیمنٹ سے پاس کرانا مسلمانوں کے جذبات سے کھیلواڑ کرنے کے علاوہ اور کیا کہا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلے دن کی سماعت کے دوران جس طرح کے سوالات اٹھائے اور وقف ترمیمی قانون کے شقوں پر سوالیہ نشان لگایا اس سے ظاہر ہوگیا تھا کہ یہ قانون سپریم کورٹ میں ٹھہر نہیں پائے گا۔